سرائیکی پنجابی زبان اور ہمارے دُکھ


ماں بولی سے محبت فطری ہے، کہاں سے بات شروع کروں؟ چلیں بتاتا چلوں میری ماں بولی سرائیکی ہے میں جس گاؤں سے ہوں وہاں سرائیکی بولی اکثریت کی زبان ہے، خان چندر کمار ہندو کے ڈیرے سے منسوب گاؤں خانپور سے ہندووں نے ہجرت کی تو وہاں رانگڑی بولنے والے مہاجر اور جاٹ قبیلے کے پنجابی بھی آباد ہوئے پنجابی بولی والے بھی آباد ہیں، گاؤں میں کبھی زبان کی بنیاد پر نفرتیں نہیں بانٹی گئیں رانگڑ اور جاٹوں کے شادی وویگر تہواروں میں کچھ رسوم رواج مختلف تھے باقی مقامی پنجابی سرائیکی ایک ہی کلچر میں ڈھلے ہوئے تھے۔

باقی نمایاں زبان اب سب سرائیکی ہی بولتے ہیں چاہے وہ بلوچ ہوں، سید ہوں، جٹ ہوں، رانے ہوں، پٹھان ہوں، بھٹی ہوں یا دیگر مقامی آباد قومیں۔ پنجابی و سرائیکی سمجھنے بولنے میں کبھی دشواری نہیں رہی کیوں کہ جہاں ہوش سنبھالا دونوں خاندان آباد تھے پھر رانگڑ بھی سمجھنے میں دشواری نہیں البتہ بولنے میں گرِپ حاصل نہ ہوسکی، بلوچ خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود بلوچی زبان سمجھنے بولنے سے قاصر رہا ہوں کیونکہ علاقے میں کم بولنے والے لوگ آباد ہیں۔

ہوش سنبھالا تاریخ سے ربط بڑھا زبانوں کی تاریخ تک پہنچے سوشل میڈیا عام ہوا تو پتہ چلا یہ تو بڑا اہم مسئلہ ہے جس میں ہم نے دلچسپی ہی نہیں لی، اب اگر خود کو نمایاں کرنا ہے تو سرائیکی حقوق کی جنگ لڑی جائے اور اس مسئلے کو اہم مسئلہ بنایا جائے کہ میری زبان تسلیم کرو۔ ریاست سے اپنے بنیادی حقوق پر احتجاج تو بعد میں لیکن پہلے تو اپنی زبان کو الگ تسلیم کروانے کی جنگ پنجاب کے چند دانشوروں سے لڑی جائے جو سرے سے ہماری زبان کو الگ تسلیم کرنے پر رضامند ہی نہیں۔

وہ کہتے ہیں یہ تو 1962 میں ملتان میں ایک سازش ہوئی اور لفظ ایجاد کرکے سرائیکی کی بنیاد رکھ دی گئی یہ اصل تو پنجابی زبان کا لہجہ ہے اور بولی ہے لیکن سمجھنے اور پڑھنے میں چاہے انہیں دشواری بھی ہو۔ سرائیکی ادبیوں اور دانشوروں ’جیسے قابل احترام احسن واہگہ، شوکت مغل، حفیظ خان، ڈاکٹر انوار احمد اور دیگر‘ نے سرائیکی زبان، تاریخ اور کلچر پر بہت کام کیا ’درجنوں کتابیں لکھیں تاکہ اس پروپیگنڈے کا جواب دیا جا سکے۔

ان کا ہیرو رنجیت سنگھ ہے اور ہمارا ملتان کا نواب مظفر خان جسے اس علاقے کے لوگ شہید سمجھتے ہیں۔

دانشور دوستوں نے شاید لاہور کے ایک نوجوان محقق اور زبردست مترجم یاسر جواد کا ترجمہ شدہ بہاولپور گزٹ نہیں پڑھا جو 1904 ء میں چھپا تھا۔ اس میں تفصیل سے لکھا ہے کہ انگریزوں کے دور میں بھی سرائیکی زبان کا یہ نام موجود تھا۔ اس گزٹ کے صفحہ 414 پر کمیاب تردید ملتی ہے۔ لکھا ہے : کوٹ سبزل اور گردونواح کے لوگ بہاولپوری اور سندھی دونوں لہجے بولتے ہیں اور موخرالذکر لہجے کو سرائیکی بھی کہتے ہیں۔ لہٰذا کم از کم 1904 ء میں تو سرائیکی کا لفظ مستعمل تھا ہی۔

چلیں یہ گتھی تو دانشوروں نے حل ہی نہیں کرنی کیونکہ یہ ایک ایسا مسئلہ جس کے بغیر دانشوری نہیں چلنی۔

تاریخ سے دیکھتے ہیں۔ ایک فرنگی محقق گریئرسن نے لنگوئسٹک سروے آف انڈیا ( 1919 ء) میں سارے ہندوستان کی زبانوں کی درجہ بندی کی اور اس کے لہجوں کو بھی شناخت کر کے منظم صورت میں پیش کیا۔ گریئرسن نے اپنی کتاب کی جلد VIII کے حصہ اول میں پنجاب اور سندھ کی زبانوں پر مردم شماری رپورٹوں اور اپنے سروے سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر بات کی ہے۔

گریئرسن نے محولہ بالا کتاب کے صفحہ 1 پر لکھا ہے کہ: ”ہندی۔ آریائی زبانوں کے شمال مغربی گروپ میں دو زبانیں شامل ہیں : سندھی اور لہندا۔ یہ زبانیں ہندوستان کے انتہائی شمال مغرب میں بولی جاتی ہیں : پنجاب اور جنوبی پنجاب میں، سندھ اور کَچھ میں۔ پنجاب کے اندر اس کے مغرب میں افغانستان اور سندھ کے مغرب میں بلوچستان ہے۔

افغانستان اور بلوچستان کی زبانیں لہندا اور سندھی سے بالکل مختلف اور ایرانی الاصل ہیں۔ لہندا و سندھی کے شمال میں سرحدی صوبے کی داردی زبانوں میں سے کشمیری اہم ترین ہے۔ پنجاب کا خطہ دو بڑی زبانوں یعنی لہندا اور سندھی کے ملاپ سے عبارت ہے۔ لہندا کی منبع داردی زبان وادیِ سندھ سے مشرق کی طرف اور وادیِ جمنا سے مغرب کی طرف پھیلتی ہے۔ مغربی ہندی اور لہندا زبانیں پنجاب میں درجہ بہ درجہ ایک دوسری میں ضم اور دور جاتے ہوئے علیحدہ ہوتی جاتی ہیں۔ مشرقی پنجاب میں مغربی ہندی کی لہر ٹھہرنے پر پنجابی زبان کی تشکیل ہوئی اور مغربی پنجاب میں مغربی ہندی نے لہندا کی صورت اختیار کی۔

گرئیرسن کے مطابق 1881 ء، 1891 ء، 1901 ء اور 1911 ء کی چار مردم شماریوں کے اندراجات کی بنیاد پر پانچ برطانوی اضلاع (بہاولپور، ملتان، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان) کے 90 فیصد سے زائد لوگوں نے اپنی زبان ملتانی یا جٹکی بتائی پنجابی نہیں بتائی۔ اس کا اندازہ مجھے تب ہوا جب یوٹیوب پر ہندوستان کی طرف ہجرت کرجانے والے سرائیکی یا ملتانی لوگ ملے KESHU Films کے کیشو کمار نے اس پر بہت کام کیا ہے جس نے انڈیا میں آباد سرائیکی و ملتانی مہاجرین کے انٹرویوز کیے ہیں۔

ملتان بہاولپور ڈیرہ میانوالی کی تاریخ میں یہ نام ملتے ہیں جو اب ختم ہوچکے ہیں ہلی، تھلوچڑی، ریاستی جٹکی، ملتانی، ہندکی اور لہندا کیونکہ یہ زبانوں کی تاریخ کا ارتقائی بدلاؤ ہوتا ہے۔

اب لوگ سرائیکی کہلواتے ہیں چاہے وہ ہریانہ کے مہاجر ہوں، بلوچ ہوں پنجابی ہوں کیونکہ ایک ہی زبان اور ثقافت کے رنگوں میں ڈھل گئے ہیں۔

سرائیکی خطے میں رہنے والے پنجابی، اردو سپیکنگ اب سب اس دھرتی کے بیٹے ہیں۔ سرائیکی ان کی شناخت اور زبان کو مانتے ہیں تو وہ بھی ان کو مانیں۔ سرائیکی بنیادی طور پر امن پسند اور محبت والے لوگ ہیں ورنہ سب نے دیکھا تھا کہ سندھ میں پنجابی سیٹلرز کے ساتھ کیا ہوا تھا اور بلوچستان میں کیا ہوتا رہا ہے پنجاب کے پنجابیوں اور سرائیکیوں کے خلاف۔

مین اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ کبھی ہمارے خطے سے کوئی جنگجو کسی علاقے پر حملہ آور نہیں ہوا جس طرں سندھ افغانستان سے لوگ آتے رہے اور مال و اناج لوٹ کر جاتے رہے۔ یہاں کے لوگ امن پیار بانٹنے والے ہیں۔ سرائیکی زبان میں شاعروں نے جہاں محبت بانٹی ہے وہاں اپنے حقوق کی بات بھی کی ہے۔ خواجہ غلام فرید سے لے کر احمد خان طارق مرحوم ہوں یا عزیز شاہد و قربان کلاچی اور رشید اشتر سب کی شاعری مین دکھ درد اور محبت کا درس ملے گا۔

یہ تمہید فقط ایک تاریخی حوالوں پر مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔

ہمارے دکھ سانجھے ہیں زبانوں کو زندہ رکھنا چاہیے اس سے ہماری ثقافت اور اقدار زندہ رہتی ہیں۔ جو زبان معرض وجود میں آ چکی ہے اسے کھلے دل سے تسلیم کریں ورنہ اس خواہمخواہ کی لڑائی میں اصل حقوق کے لیے آواز نہیں نکالی جا سکے گی کسان، مزدور اپنی زبان بولتا ہے اسے زبان بولنے کے بعد بھی حق نہیں ملا وہ چاہے ساہیوال کا کسان ہو فیصل آباد کا یا راجن پور کا اس کا مسئلہ آج بھی وہیں موجود ہے اسے آج بھی کسی چوہدری، سردار، مخدوم کسی جاگیردار پیر مُلاں کی اجارہ داری کے نیچے دبا ہوا ہے۔

تمام صوبوں اور زبانوں کے احترام کے ساتھ پنجاب کے پنجابی و سرائیکی دانشوروں سے اتنا عرض کروں گا

ساڈے صوبے دے رنگ تے روپ وی سانجھے ہن
جیویں بولی دے لفظ سانجھے ہن، اوویں چیتر وَساخ وی سانجھے ہن
ساڈے سبھے مسئلے سانجھے ہن، ساڈے ڈکھ سکھ وی سانجھے ہن
ساڈے اتے سرداری چوہدریاں سرداراں لغاریاں مخدوماں دی سانجھی ہے،
ساڈے حق کھاون آلے وی سانجھے ہن،
آؤ ہک دوجھے دے بیلی بنڑ کے ہک دوجھے دی بانہہ بنڑوں
اپنڑے حق کھاون آلئیں کولوں کٹھے رل کے حق منگوں۔

کچھ اور اشعار پیش خدمت ہیں

جداں ہک جیا جمن مرن اے ساڈا
اینجے لیکھ وچ فرق ہزار ہو گئے ہن
گھتے فرق انسان انسان وچ ہن
کوئی نوکر تے کوئی سردار ہو گئے ہن
جنہاں کم کیتے او کمی ہو گئے
جنہاں وہلیاں کھادیاں او مہر ہو گئے ہن (شبیرباگڑی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments