’میں فوجی کی بیٹی ہوں!‘


\"minerwa-tahir\"سماویہ طاہر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی مشہور ہوئی ہے۔ جب میں نے ان کی پہلی ویڈیو کلپ دیکھی تو قدرتی طور پر مجھے کافی غصّہ آیا جب ایک بے بس عورت کو یہ شکایت کرتے دیکھا کہ پولیس والوں نے اس کے گریبان پر ہاتھ ڈالا ہے۔

سماویہ کہتی ہیں \”تم لوگوں میں غیرت نہیں ہے۔ شرم آنی چاہیے تم سب کو۔ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے محافظ ہیں یہ لوگ۔۔۔ اور آ کر عورتوں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالتے ہیں۔۔۔ تم لوگ ظالم ہو اسی لیے ایسے حکمران بیٹھے ہیں تمہارے سروں پر۔\” میں نے بھی سوچا کس قدر جاہل ہیں پولیس والے۔

لیکن پھر کچھ دیر بعد مکمل وڈیو نظر سے گزری۔ اس میں سماویہ صاحبہ کی جانب ایک خاتون پولیس اہلکار بڑھتی ہیں۔ سماویہ اپنے دفاع میں اہلکار کا منہ نوچتی ہیں، جس کے بعد دیگر پولیس افسر دونوں خواتین کو ایک دوسرے سے دور کرتے ہیں۔ اس تصادم کے بعد سماویہ یہ الفاظ ادا کرتی ہیں:

\”نواز شریف صاحب آپ جو مرضی ہے کر لیں، یہ بات یاد رکھیے گا، دو نومبر کو ہمارا ہر ورکر نکلے گا اور انشاءاللہ تمہارے اس تخت و تاج کو نیست و نابود کرکے نہ رکھ دیا تو ہمارا نام بدل دینا۔ سماویہ طاہر نام ہے میرا، دیکھ لو۔ میں نہ تم سے ڈرتی ہوں نہ کسی اور سے۔ ایک فوجی کی بیٹی ہوں اور میں اپنی فوج کی طرف سے تمہیں بتا رہی ہوں کہ تم لوگ انشااللہ اتنا بھگتو گے اتنا بھگتو گے کہ یاد رکھو گے۔\”

اس تمام واقعہ میں غور کرنے کی دو باتیں ہیں۔ ایک، فوج سے والد کے تعلق پر بات کرنا اور اس کی وجوہات۔ دوسرے، عورت کی شناخت۔

سماویہ، جو خود ایک مختار، بالغ خاتون معلوم ہوتی ہیں، نے آخر اپنے والد کے پیشے کا ذکر کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ یا تو سماویہ کو یہ خوف لاحق تھا کہ وہ گرفتار ہونے جا رہی ہیں اس لیے انہوں نے اپنے طور پہ یہ بتانے کی کوشش کی کہ میں کوئی بدمعاش غنڈی نہیں ہوں بلکہ عزت دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں۔ یہ ان کا دفاعی میکنزم تھا شاید۔ ساتھ ہی یہ بھی ممکن ہے کہ سماویہ نے اپنے والد کا پیشہ بتانے کی ضرورت اس لیے محسوس کی کہ اپنا رعب و دبدبہ جما سکیں اور اپنے گرد موجود پولیس اہلکاروں کو ڈرا سکیں۔ اپنا تعارف \’ایک فوجی کی بیٹی\’ کی حیثیت سے کرا کر سماویہ صاحبہ نے آگے مزید \’اپنی فوج\’ کی طرف سے نواز شریف اور پولیس اہلکاروں کو دھمکی بھی دی کہ \’تم لوگ اتنا بھگتو گے اتنا بھگتو گے کہ یاد رکھو گے\’۔ جناب! پنجاب \"samawiya-tahir\"میں رہ کر ایسا کر سکتی ہیں اوپر سے آپ ہیں \’فوجی کی بیٹی\’۔ آپ بھرے مجمعے میں قانون نافذ کرنے والوں کو دھمکی دے سکتی ہیں۔ اس سے قطع نظر، کراچی یا بلوچستان کے رہائشی، جو اس ریاست کی سوتیلی اولاد کی حیثیت رکھتے ہیں، پولیس یا رینجرز کے آگے اف تک کہنے کا حق نہیں رکھتے۔ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے 22 اگست کے بیان کے بعد سے سارے شہر میں پارٹی کے دفاتر کو مسمار کرنے کی مہم جاری ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی گرفتاری سے کون واقف نہیں ہو گا۔ ہمارے شہر کے اساتذہ تک کو ریاست کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نہیں چھوڑا ہے۔ کامریڈ مومن خان مومن کا قصور بھی محض یہی ہے کہ انہوں نے اپنے حق کے لیے آواز اٹھائی اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کا کسے نہیں معلوم؟ جی، سماویہ صاحبہ، بالکل آپ کی طرح پنجاب کے علاوہ دوسرے علاقوں میں بسنے والے بھی آواز اٹھانے کی جسارت کر لیتے ہیں۔

مزید آپ کی اطلاع کے لیے عرض کرتی چلوں کہ جس طرح آپ لوگ اپنے حق کی آواز اٹھانے کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں، اسی طرح چوبیس سالہ نوجوان شبیر بلوچ، جو بی ایس او آزاد کا انفارمیشن سیکرٹری تھا، بھی نکلا تھا۔ یہ نوجوان لڑکا 4 اکتوبر سے لا پتہ ہے۔ 24 اکتوبر سے 26 اکتوبر تک اس بدنصیب کی بیوی اور بہنیں دیگر لوگوں کے ساتھ کراچی پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال کیمپ میں بیٹھیں۔ اپنے بھائی اور شوہر کے متعلق بات کرتے ہوئے جو آنسو شبیر کی بہنوں اور بیوی کی آنکھوں میں تھے، ناقابل فراموش تھے۔ مگر اس سے بھی زیادہ اگر کوئی دکھ کی بات ہے تو وہ یہ کہ شبیر کی بہنوں اور بیوی کی آواز سننے کے لیے کوئی صحافی نہ آیا۔ شہر کے کسی بڑے اخبار میں ان کی بھوک ہڑتال کی خبر تک نہیں چھپی۔ مقتدر اداروں سے نسبت ہوتی تو شاید ایسا نہ ہوتا۔

مگر آپ ہماری طرح ’رعایا‘ نہیں بلکہ آپ کا تعلق مقتدر طبقے سے ہے تو اس لئے آپ کی بادشاہت ہے۔

لیکن اس بادشاہت کے باوجود آپ بحیثیت عورت کافی کمزور اور کھوکھلی معلوم ہوئیں۔ اتنی نڈر عورت جو پولیس کو، اپنی دانست میں ہی سہی، ناکوں چنے چبوانے کی جرات رکھتی ہو، وہ آج بھی اپنا تعارف اپنے باپ کے پیشے سے کرا رہی ہے، یہ دیکھ کر مجھے افسوس ہوا اور آپ پر حیرت ہوئی۔ آپ ایک سیاسی کارکن ہیں، آپ کا اپنا نام ہے، اپنی شناخت ہے۔ لیکن آپ نے اپنا تعارف کرایا تو کہا \’فوجی کی بیٹی\’۔ کیا آپ کا اپنا کوئی پیشہ نہیں؟

ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر کب تک یہ معاشرہ بشمول سماویہ جیسی خواتین خود عورت کی شناخت کے لیے فلاں کی بیٹی، فلاں کی بہن، فلاں کی بیوی جیسی اصطلاحات کا استعمال عمل میں لاتا رہے گا؟ اس پدرشاہی سماج کی بے شمار لعنتوں میں سے ایک یہ مرد سے نسبت کا لازم ہونا ہے۔ وہی عورت معتبر اور عزت دار سمجھی جاتی ہے جو کسی مرد سے اپنی نسبت کا اظہار کرے خواہ وہ مرد باپ ہو، بھائی ہو، شوہر ہو یا بیٹا ہو۔ مرد سے نسبت کیوں لازم ہے ایک عورت کی شناخت کے لیے؟ اور آخر کب تک؟

ایف سی کے گارڈ اور رپورٹر والے معاملے پر بہت سے مردوں کو کہتے سنا کہ بھائی جب عورتیں برابری کے حقوق مانگتی ہیں تو مرد کی طرح تھپڑ کھانے کے لیے بھی انھیں تیّار رہنا چاہئے۔ پہلے تو اس پر ہی مجھے اعتراض ہے کہ تھپڑ کسی مرد کو بھی کیوں مارا جائے بلکہ تشدد کیا ہی کیوں جائے؟ مگر ایسے خیالات رکھنے والے افراد سے عرض ہے کہ ذرا پہلے حقوق دے دیجئے، پھر ان حقوق کے ساتھ مال اسباب بھی ہم پر لادنے کی مہم چلا لیجئے گا۔ شروعات کے لیے عورت کو کم سے کم برابر انسان سمجھ لیجئے اور اس کی شناخت کو کسی مرد سے نسبت کے بغیر پہچاننے کی صلاحیت پیدا کر لیجئے۔ یقین جانئے، آج کے زمانے میں فلاں کی بیٹی، فلاں کی بہن اور فلاں کی بیوی والا کلچر خاصا بیہودہ، تضحیک آمیز اورجاہلانہ معلوم ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments