لیڈر پیدا ہوتے ہیں بنائے نہیں جاتے


سیاست دان، حکمران اور لیڈر شاید اب تین مختلف سمتیں ہیں کیونکہ سیاست دان اور حکمران تو کوئی بھی سرمایہ کار، صنعت کار، پلے بوائے اور کھلاڑی بن سکتا ہے مگر لیڈر پیدا ہوتے ہیں یہ بنائے نہیں جاتے اور پاکستانی عوام اس فرق کو سمجھ ہی نہیں پائے اور بدترین دھوکہ کا شکار ہو گئے۔ مہاتما کے مقاصد میں خدمت نہیں کمائی تھی، اس کے پاس ایک گندی زبان تھی کوئی پالیسی یا وژن نہیں تھا۔ اسی تناظر میں مہاتما کے عنوان سے یہ افسانہ ملاحظہ فرمائیں۔

مہاتما

وادی کے سبھی لوگ آہستہ آہستہ دیوتاؤں سے ناراض ہو رہے تھے۔ انہیں لگتا تھا کہ موجودہ دیوتا آکاش سے پرے رہنے والی عظیم قوت کو ناراض کر بیٹھے ہیں کیونکہ وادی کے حالات دن بدن خراب ہو رہے تھے اور یوں لگتا تھا کہ لوگ ایک دوسرے کو نوچ نوچ کر کھا جائیں گے۔

وادی کے کچھ سیانے اکٹھے ہوئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان دیوتاؤں سے جان چھڑانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ کوئی مہاتما کہیں سے لایا جائے جو ان دیوتاؤں کو اتنا گندہ کر دے کہ لوگ خود ہی ان سے جان چھڑا لیں۔

مہاتما کی تلاش میں یہ سب سیانے وادی میں چاروں طرف پھیل گئے۔ انہیں مہاتما بنانے کے لیے کسی اسے شخص کی تلاش تھی جیسے لوگ کسی نہ کسی طرح پسند کرتے ہوں۔

آخر کئی دنوں کی بھاگ دوڑ بعد انہیں ایک ایسا شخص مل گیا۔ جسے لوگ پسند بھی کرتے تھے اور وہ بے وقوفی کی حد تک عقل مند بھی تھا۔ سیانوں کو اندازہ ہو گیا کہ یہ ان کے مطلب کا آدمی ہے۔

انہوں نے وادی بھر میں اس کو مشہور کرانا شروع کر دیا۔ جب سیانوں کو لگا کہ اب دیوتاؤں کو گندہ کیا جاسکتا ہے تو انہوں نے ایک اجتماع کا انتظام کیا۔ مہاتما بولتا جاتا۔ لوگ سن کر قبول کرتے جاتے۔

دیوتاؤں سے ناراض لوگ جلد ہی مہاتما کے گرد جمع ہونے شروع ہو گئے۔ مہاتما پوری وادی میں مشہور ہو گیا۔ دیوتا سب دیکھ رہے تھے۔ کچھ کر نہیں سکتے کہ ان کی نا اہلی کے سبب یہ دن آیا ہے۔ دیوتا آج بھی تنہا نہیں تھے وادی کے اکثر لوگ ان کے ساتھ تھے جن کا خیال تھا کہ وادی کے سیانوں کا لالچ ہی دیوتاؤں کی ناکامی کا باعث ہے اور ایک دن یہ مہاتما کو بھی لے ڈوبے گے۔

سیانوں نے دیوتاؤں اور مہاتما کے درمیان مقابلہ کرانے کا فیصلہ کیا۔ دیوتاؤں کی نا اہلی اور مہاتما کے مسلسل اور بے معنی جھوٹ کام ائے۔ وادی کے اندھوں نے مہاتما کو چن لیا، سیانوں کی سازشوں کو کامیابی ملی۔ شکست کے بعد دیوتاؤں کو وادی کے سب سے تاریک حصے میں قید کر دیا گیا۔

لوگ مہاتما سے امید لگائے بیٹھے تھے کہ بس اب کچھ ہی عرصے میں وادی میں دودھ کی نہریں رواں دواں ہو جائیں گی۔ آسمان سے بارش کی صورت میں ہن برسے گا۔

مگر ایسا نہ ہوا۔ نا اہل مہاتما نے وادی کو مزید تاریکیوں کی طرف دھکیل دیا۔ دیوتاؤں کے دور میں یہ صرف خیال تھا کہ لوگ ایک دوسرے کو نوچ کھائیں گے مگر مہاتما کے دور میں لوگ ایک دوسرے کو نوچ کر کھانے لگے۔

اب وادی کے سیانے منہ چھپاتے پھر رہے تھے اور لوگ پتھر لیکر!

نئی انصافی تبدیلی میں چاہنے والوں کو نوازا جا رہا ہے جبکہ پہلے والے اپنے خاندان کی فکر کرتے تھے۔ ویسے بھی ”وہ“ کرپٹ نہیں ہے۔ اس کے لیے تو اس نے یار دوست رکھے ہوئے ہیں جو اپنی دیہاڑیاں بھی بنا رہے ہیں اور اس کی مالی معاونت بھی کر رہے ہیں۔ چینی، ٹماٹر اور آٹا بحران کے بعد پیاز اور لال مرچ کے بحرانوں کی دستک فضا میں موجود ہے۔ دیکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا صورت حال ہوتی ہے۔

اچھا سوشل میڈیا پر ایک تصویر بڑے بڑے دل جلے کیپشنز کے ساتھ گردش کر رہی ہے میں نے اس تصویر کی حقیقت پتہ کی تو خوشگوار اور خوشبودار حیرت نے میرا استقبال کیا۔ ایک اچھے انسان کا نہیں بلکہ ایک پیدائشی لیڈر کا تعارف سامنے آیا۔ جی یہ انڈیا نیو دہلی کے مسلسل دوسری مرتبہ وزیر اعلیٰ بننے والے اروند کیجروال کا احوال ہے جس کو پاکستانی عوام بڑی حسرت سے شئیر کر رہے ہیں۔

عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجروال سرکاری ملازم تھے۔ سرکاری محکموں میں کرپشن دیکھی تو سرکاری ملازمت سے استعفی دے کر سرکاری محکموں میں کرپشن کے خلاف آواز بلند کی، پھر سیاست میں داخل ہوئے اپنی پارٹی ”عام آدمی پارٹی“ بنائی جس کا انتخابی نشان جھاڑو رکھا۔ پہلے 2013 پھر دو ہزار پندرہ کے الیکشن میں ان کی پارٹی نے نیو دہلی صوبہ کے الیکشن جیتے اور اب 2020 میں نیو دہلی کے صوبے کے 70 سیٹوں میں سے 62 سیٹوں پر عام آدمی پارٹی نے کلین سویپ کیا ہے جس کے بعد کیجروال پھر سے وزیر اعلیٰ بن گئے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کیجروال اب بھی اسی تین کمروں کے فلیٹ میں رہتے ہیں جہاں الیکشن اور سیاست اور وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے رہتے تھے۔ ان پر کرپشن کے چارجز ان کے سیاسی مخالفین تک نہ لگا سکے۔

بی جے پی اور گانگریس کی موجودگی میں کیجروال نے اپنا لوہا منوایا اور صرف اپنی سیٹ نہیں بلکہ پورے دہلی کے صوبے پر حکومت بنا لی۔ کیجروال اب بھی بغیر استری کیے کپڑے پہنے ہوئے عام آدمی کی طرح وزیر اعلیٰ آفس جاتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ کہ انہوں نے الیکشن میں اپنی پارٹی کی سیٹس رکشے والے ڈھابے والے اور عام آدمیوں کو دیں۔ کیجروال کی آواز اب دہلی سے نکل کر پورے ہندوستان میں پھیل رہی ہے کیجروال نے اپنے پہلے دور حکومت میں انقلابی اقدامات کیے مثلاً بجلی کے 80 ایونٹس استعمال کرنے والوں کی بجلی فری کر دی۔ غریب لوگوں کے لیے پانی کا بل معاف کیا امیروں پر ٹیکسز لگائے غریبوں کو سہولیات دی۔ دہلی کے ہسپتالوں میں بیرون ملک سے آنے والے مریضوں پر ٹیکس لگا کر وہ پیسہ دہلی کے غریب مریضوں پر لگایا تاکہ ان کو بھی علاج کی جدید سہولیات میسر ہوں۔

سرکاری ہسپتالوں میں ادویات اور علاج کو فری کیا۔ بسوں میں خواتین کے لیے مفت سواری کی سہولت فراہم کی۔ دہلی صوبے میں ایک لاکھ سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے لگائے پولیس میں کرپشن کو واضح طور پر کم کیا اور دیگر درجنوں اقدامات کیے جن کی بدولت آج کیجروال 2020 میں نیو دہلی کے 70 میں سے 62 سیٹیس لے کر بھاری اکثریت سے وزیر اعلیٰ بن کر پولیس کی سلامی لی تو ان کے جوتے اور ان کے کپڑے سب کچھ بتانے کو کافی ہیں کہ وہ تبدیلی کا جو نعرہ لے کر اٹھے تھے وہ خالی انتخابی ہی نہیں تھا بلکہ وہ حقیقی معنوں میں تبدیلی تھی۔

کیا ہم وطن عزیز میں کسی ایسی تبدیلی کی توقع کر سکتے ہیں؟ تو اس کا جواب ہے کہ نہیں۔ کیجروال نے ثابت کیا کہ ریاست چاہیے تو سب کچھ ہو سکتا ہے اور اگر ریاست ہی نہ چاہیے تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ ریاستی باؤنڈری میں آپ سچ نہیں بول سکتے، حکمرانوں اور دیگر مقتدر قوتوں سے سوال نہیں پوچھ سکتے۔ حکمران خود کو تنقید سے بالاتر متصور کرتے ہیں اس لیے میڈیا پر لگام ڈالنے کے لیے پالیساں بنائی جا رہی ہے، قوانین بنائے جا رہے ہیں بل پاس ہو رہے ہیں اور میڈیا بحران کا شکار ہے جو آہستہ آہستہ ہمارے ساتھیوں کو نگل رہا ہے۔

موجودہ حکومت عوام دوست پالیسیوں کی طرف جا ہی نہیں رہی۔ تمام یوٹیلیٹی بلز میں خطرناک حد تک اضافہ کیا جا چکا ہے۔ حکومت کے اپنے ادارے، ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق دسمبر دو ہزار اٹھارہ سے لے کر دسمبر دو ہزار انیس تک اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بیاسی فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جو کہ تاریخ کی بلند ترین سطح شمار کی جا رہی ہے۔ مگر ”وہ“ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے گھبرانا نہیں۔ بقول منیر انور کے

چال میں دانشوروں کی آنا مت

میرے پاکستانیو! گھبرانا مت

ہو گئیں مہنگی دوائیں تو بھی کیا

گیس، بجلی تک نہ آئیں تو بھی کیا

اور آ جائیں بلائیں تو بھی کیا

تم کسی بھی بات پر شرمانا مت

میرے پاکستانیو! گھبرانا مت

کپڑے سینے کی مشینیں دیں گے ہم

ڈالروں کی سرزمینیں دیں گے ہم

طبلے، باجے اور بینیں دیں گے ہم

وقت سے پہلے مگر مر جانا مت

میرے پاکستانیو! گھبرانا مت

چور سارے ہم پکڑ لیں گے جناب

لوٹ کا سب مال وہ دیں گے جناب

ہم تجوری اپنی بھر لیں گے جناب

بس ہمارا نام منہ پہ لانا مت

میرے پاکستانیو! گھبرانا مت

عہد سے اپنے مکر جائیں گے ہم

ظلم کی حد سے گزر جائیں گے ہم

زندگی دشوار کر جائیں گے ہم

تم مگر منفی اسے دکھلانا مت

میرے پاکستانیو! گھبرانا مت

بات صرف اتنی ہے دوستو کہ لیڈر بنائے نہیں جاتے پیدا ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر مہاتما سیانا بھی ہو اور پلیز میرے پیارے ہم وطنوں آپ نے گھبرانا نہیں ہے کیونکہ ابھی تبدیلی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments