بھوک سے مرتے عامل صحافی اور کرپشن کی تحقیق کرتے اینکر پرسن


کہتے ہیں کہ جب منگول لشکر خلافت اور مسلم دنیا میں خدا کا عذاب بنے ہوئے تھے، جب شہروں کے شہر تباہ ہورہے تھے اور کھوپڑیوں کے مینار عبرت کے لیے بنائے جارہے تھے، اس وقت بھی اس زمین کے سینے پر ایسے علما موجود تھے جو مناظرے کرنے میں مصروف تھے۔ منگول لشکر شہر کے باہر خیمہ زن ہوتا اور شہر کی فصیل کے اندر علما براق کے پیشاب کے حلال حرام پر بحث کرنے اور ایک دوسرے کو کافر قرار دینے میں مصروف ہوتے تھے۔ تاریخ پڑھنے، سننے، سمجھنے اور دیکھنے والا کوئی بھی شخص ان علما کو ملامت کرنا نہیں بھولتا اور یہ ضرور سوچتا ہے کہ اپنے سارے علم کے باوجود ان لوگوں میں ایسا کیا تھا جو انہیں اپنے خول سے باہر نہ نکال سکا۔ ان حالات پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن ابھی تک وہ ایک لفظ میری نظر سے نہیں گزرا جو ان لوگوں کے کردار اور خیالات کی بہترین عکاسی کرتا ہو۔ بڑے سے بڑا لفظ بھی چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ سوچتا ہوں شاید کبھی ایسا کوئی لفظ ایجاد ہو سکے گا کہ نہیں جو ان لوگوں کے کردار کی بہترین تصویر بنے۔

مجھے کھوپڑیوں کے میناروں سے کچھ دور مناظرے کرتے علما اس لیے یاد آئے کہ آج ہمارے میڈیا میں صورت حال کچھ ویسی ہی ہے۔ آپ اسے زیب داستان کہیں گے لیکن بات کچھ کم بھی نہیں ہے۔ پچھلے ایک ہفتے میں الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ تین افراد اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں اور ان سب کی موت کی بس ایک ہی وجہ ہے کہ ان کے مالکان نے انہیں مہینوں سے تنخواہیں ادا نہیں کی تھیں۔

اپنے گھر کے حالات کا ہر شخص کو خود ہی پتہ ہوتا ہے ایسے میں کئی ماہ سے تنخواہ نہ ملنے کے بعد اگر نوکری بھی نہ رہے تو دل کے دورہ سے کم بھلا کیا ہو سکتا ہے۔ وائے افسوس کہ ان لوگوں کی قبروں سے ذرا پرے ایک معروف اینکر ارشدشریف صاحب کسی سیاست دان کی دس سال پہلے بند ہونے والی کمپنی کی بریکنگ نیوز ڈھونڈنے کے لیے امریکہ میں پیسہ خرچ کر کے کاغذات نکلوانے کی کوشش میں ہے، تاکہ اپنے پروگرام میں ٹھٹھا کر ئے کہ دیکھو لوگو فلاں صاحب سے تو کمپنی نہیں چلتی تھی اور یہ حکومت چلانے میں لگے ہوئے ہیں۔

یہیں کہیں ایک اور معروف اینکر روف کلاسرا بھی ہیں جن کے لیے اس ہفتے کی ہاٹ نیوز ہی یہ تھی کہ ارشد شریف سے یہ خبر رکوانے کے لیے سیاست دان ان کے گھر پہنچا اور پھر فلاں فلاں یہ یہ وہ وہ۔ یو ٹیوب پر جناب اپنا چینل چلاتے ہیں اور پوری تسلی سے ہفتہ بھر اسی بارے وی لاگنگ ہوتی رہی۔ آگے بڑھیں آپ اور ہر اہم اینکر کا آن کیمرہ یا آف کیمرہ جائزہ لیں آپ کو کہیں بھی، کوئی بھی اینکر میڈیا انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کی اموات کے بارے بات کرتا نہیں ملے گا۔

کہیں کوئی شخص رتی برابر اپنا کردار نہیں نبھائے گا کہ کسی طرح سے چند ہزار کمانے والوں کو ان کی جائز اور حلال تنخواہ مل جائے۔ کہیں کسی اینکر کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ اس کے اپنے چینل میں، اس کے اپنے آفس اور اسٹوڈیو میں کتنے لوگوں کو آخری تنخواہ کب اور کتنی ملی تھی۔ انہیں تو اپنی مراعات اور تنخواہوں سے مطلب ہے۔ یہ لوگ آج بھی بڑے بڑے پروگرام کرتے ہوئے حکومت، سیاست دانوں، کاروباریوں کے خلاف فضا بناتے نظر آتے ہیں لیکن ان کی ناک کے نیچے لوگ مر رہے ہیں، ان کے چراغوں تلے کسی کی دنیا اندھیر ہورہی ہے اور انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیا آپ کوئی ایک ایسا لفظ کہہ سکتے ہیں ایسے لوگوں کے بارے میں جس سے ان لوگوں کے کردار اور خیالات کی وضاحت ہو سکے۔

بارہ پیسے کے فرق پر پروگرام کرتے ہوئے گھنٹہ بھر سر کھانے والے یہ اینکرز کیا میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کو چھے چھے ماہ تنخواہیں نہ ملنے پر پروگرام نہیں کر سکتے۔ حکومت کرپٹ ہے، فلاں مال بنا رہا ہے، فلاں کھا رہا ہے کہ جگالی کرنے والوں نے کیا کبھی کسی میڈیا مالک کے بارے پروگرام کرنے کی اخلاقی جرات بھی کی ہے۔ چلیں پہلے تو ہم بھی مانتے تھے کہ ہر چینل کا ایک ضابطہ ہوتا ہے اور وہاں دوسرے چینل سے مخالفت مول نہیں لی جاتی لیکن اب تو سبھی اینکرز یوٹوبرز اور وی لاگرز میں بدل چکے ہیں۔ گھنٹہ بھر پروگرام چینل پر کیا، تین وڈیوز دن میں اپنے ویب چینل کے لیے بھی بنائی تو اب کیا مشکل ہے، اب تو کچھ کہہ دو۔ اپنے ٹویٹر اکاونٹ، جہاں سے ہر روز حکومت گرائی جاتی ہے، وہاں پر کسی انسانی ہمدردی کے لیے چار لفظ لکھنے کتنے مشکل ہوتے ہیں، یہ پتہ چلتا ہے۔

آپ بڑے لوگ ہیں، آپ لوگوں نے بڑی قربانیاں دے کر ایسی جگہوں پر پہنچے ہیں تو اب آپ کے پاس واقعی اتنی فرصت نہیں ہو گی کہ ایسی چھوٹی چھوٹی اسٹوریز پر کام کریں یا ان کا ذکر کریں۔ لوگ بھی کیا کہیں گے کہ دیکھو اتنا بڑا اینکر اور کتنی چھوٹی اسٹوری پکڑی ہے، شاید آج اسے کوئی بڑی اسٹوری نہیں ملی۔ دو چار لوگوں کی جان جانا وہ بھی میڈیا سے وابستہ ہوں کوئی خاص اسٹوری نہیں، ہاں ایک بھی اگر پولیس نے مار دیا ہوتا تو ہفتہ بھر پروگرام کر سکتے تھے۔

مہنگائی سے خود کشی کا ٹکر چلا کر گھنٹہ بھر حکومت کو گالیاں اور کوسنے دیے جا سکتے تھے۔ اپنے ویب چینل پر دوستوں کے ساتھ خصوصی گفتگو کا سیشن چلایا جا سکتا تھا کیونکہ ان سب میں ریٹنگ ہے جس کی اب ضرورت ہے۔ ہر تیسرے دن میڈیا انڈسٹری کا ایک کارکن مر رہا ہے کہ اتنی تیزی سے چینلوں کی عمارتوں میں پھرنے والے کتے بھی نہیں مر رہے لیکن کسی کا کیا جاتا ہے۔ حکومت نا اہل ہے، فلاں سیاست دان کھا گیا، فلاں بیورو کریٹ کما گیا، فلاں کی ایکسکلوز سٹوری بنتی ہے، فلاں کی اسٹوری بنا دیتے ہیں اور کارکن۔ اس پر بات کرنے سے سیٹھ کی ناک پر مکھی بیٹھنے کا ڈر ہے، کل کلاں کو اس کا چینل جوائن کرنا پڑ گیا تو پھر۔ اس لیے دفع کرو۔

بغداد کے علما سُو کی ترجمانی کے لیے ابھی تک کوئی لفظ ایجاد نہیں ہوا تو پاکستان میڈیا انڈسٹری کے بڑے ناموں کو کن لفظوں میں یا د کرنا ہے، مجھے نہیں معلوم۔ تلاش چاری ہے، آپ کو بھی معلوم پڑے تو بتائیے گا۔ ہاں مجھے اتنا معلوم ہے کہ ان لوگوں پر ملامت بھی ضائع جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments