کیا پنجابی، ایک بد تہذیب زبان ہے؟


21 فروری کو جب پوری دنیا میں مادری زبانوں کا عالمی دن منایا گیا تو میری مادری زبان پنجابی ایک دفعہ پھر سوشل میڈیا پر زیرِ بحث رہی۔ جس کی وجہ وائرل ہونے والی ایک ویڈیو ہے جس میں ایک خاتون ایک ٹریفک اہلکار کے ساتھ اس وجہ سے الجھتی دکھائی دیتی ہے کہ اس اہلکار نے اس کے ساتھ پنجابی میں بات کیوں کی؟ اس ضمن میں خاتون کی طرف سے یہ موقف اپنایا گیا کہ انھوں نے پنجابی زبان کی وجہ سے نہیں بلکہ غلط الفاظ استعمال کرنے پر پولیس اہلکار پر غصہ کا اظہار کیا۔

حالانکہ ویڈیو میں کئی مرتبہ انھوں نے پنجابی بولے جانے پر ہی اعتراض کیا۔ اب سوشل میڈیا پر کچھ لوگ اس خاتون کو برا بھلا کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے پنجابی زبان کی توہین کی ہے اور کچھ لوگ ان کا شکریہ ادا کرتے بھی نظر آرہے ہیں۔ کہ انھوں نے پنجابیوں کو ان کی زبان کی اہمیت یاد کروادی ہے۔ اسی طرح کہیں پر لوگوں سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ پنجابی زبان میں بات کرنا کیا واقعی بد تہذیبی میں آتا ہے؟ کیونکہ اس سے پہلے بھی کچھ عرصہ پہلے ایک انگلش میڈیم سکول کی طرف ایک نوٹیفیکشن میں بچوں کو پنجابی میں بات کرنے سے روکا گیا تھا۔

اس ساری صورتحال میں ایک پنجابی ہونے کے ناتے میرے ذہن میں یہ سوال تو اٹھتا ہے کہ آخر پنجابی زبان کے ساتھ ہی ایسا کیوں رویہ روا رکھا جاتا ہے؟ مگر اس کے ساتھ ہی اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ اس زبان کے ساتھ روا ہونے والے اس سلوک کی وجہ بھی اس زبان کو بولنے والے پنجابی ہی ہیں۔ جن کو اس زبان کو اپنانے اور اس کو بولنے میں شاید کوئی شرم محسوس ہوتی ہے۔

اس کا عملی مظاہرہ ویسے تو ہمیں آئے روز اپنے آس پاس دیکھنے میں ملتا ہی رہتا ہے۔ مگر اس بات کا سب سے زیادہ ادراک مجھے تب ہوا تھا جب میں ہری پور کے ایک نیم سرکاری ادارے میں ملازمت کررہا تھا۔ وہاں پر پاکستان کے مختلف علاقوں سے آکر لوگ کام کررہے تھے۔ تو باقی سب لوگ آپس میں اپنی مادری زبان میں ہی بات کرتے تھے۔ ماسوائے پنجابیوں کے، جو کہ پنجابی میں بات کرنے کی بجائے اردو میں بات کرنے کو ہی ترجیح دیتے تھے۔

جیسا کہ پشتون حضرات آپس میں پشتو میں ہی بات کرتے تھے، چاہے وہ دو افراد ہی ہوتے تھے پھر بھی اپنی مادری زبان کو ہی ہمیشہ ترجیح دیتے تھے۔ اور ہم پنجابیوں سے ان کو اکثر شکوہ رہتا تھا کہ ہم پنجابی کی بجائے اردو میں کیوں بات کرتے ہیں؟ اسی طرح وہاں پر موجود ہزارہ کے لوگ آپس میں ہندکو میں بات کرتے تھے۔ یہاں تک کہ کچھ افراد جو سندھ سے تھے وہ سندھی میں بات کرتے تھے اور سرائیکی وسیب کے لوگ آپس میں سرائیکی بولتے نظر آتے تھے۔

تو ایسی کیا وجہ ہے کہ پنجاب کے رہنے والے اپنی مادری زبان میں بات کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ تو بہت ہی میٹھی اور پیاری زبان ہے۔ یہ تو بابا فرید، بلھے شاہ، وارث شاہ، شاہ حسین، خواجہ غلام فرید، بابا گرونانک، امریتا پریتم جیسے صوفی شاعروں کی زبان ہے۔ جس میں سوائے محبت اور پیار کے اور کچھ نہیں ملتا ہے۔

شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے باسیوں میں اپنی مادری زبان کے حوالے سے اپنے اندر احساسِ کمتری پیدا کر لیا۔ اور پنجابی کی بجائے انھوں نے اردو کو اپنا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ باقی تمام صوبوں کی مادری زبانیں تو ان کے سکولوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ بلکہ ان کو تعلیمی نصاب کا حصہ بھی بنایا گیا ہے۔ مگر پنجابی کے حوالے سے ہمیں ایسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ بلکہ پنجابیوں کی طرف سے اس میں بات کرنا جہالت، بد تہذیبی اور گنوار پن سمجھا جاتا ہے۔

اگر پنجابیوں کا اپنی اس مادری زبان سے یہ سلوک ایسے ہی رہا اور انھوں نے اسے اپنی اگلی نسلوں تک نہ پہنچایا تو یہ زبان آہستہ آہستہ معدوم ہو جائے گی۔ اب یہاں پر کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر ختم ہوتی ہے تو ہو جائے۔ مگر ان کو کوئی بتائے کہ ایک زبان صرف زبان ہی نہیں ہوتی، بلکہ وہ ادب، ورثہ اور ایک پوری تہذیب کی عکاس ہوتی ہے۔ اس لیے اس کے معدوم ہونے سے پوری کی پوری تہذیب ہی معدوم ہو جاتی ہے۔

اور میرے جیسے ایک مٹی سے جڑے انسان کے لیے یہ بہت ہی تکلیف دہ امر ہے۔ کہ اس کی مٹی سے جڑی، اس کی ماں بولی اس طرح سے معدوم ہو جائے۔ اس لیے میرے جیسے لوگ اپنی اس ماں بولی کی بقا کی جنگ لڑتے رہیں گے۔ اور پنجابیوں کو یہ باور بھی کرواتے رہیں گے کہ اپنی ماں بولی بولنے اور اس کا پرچار کرنے میں کوئی شرم یا عار محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ یہ تو آپ کا اثاثہ ہے جس کو جہالت اور بد تہذیبی کا آئینہ دار سمجھنے کی بجائے اس پر فخر کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments