مسلم لیگ (ن) عوام کو بیوقوف نہ سمجھے


فواد چوہدری صاحب ایسے میزائل ہیں جن کے متعلق یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنی صفوں پر گریں گے یا مخالفین پر۔ کچھ عرصہ قبل وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار ان کے نشانے پر تھے۔ عثمان بزدار کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں بیڈ گورننس کی وجہ سے پی ٹی آئی کو آئندہ الیکشن میں نقصان اٹھانا پڑے گا اور اس متعلق اپنی تشویش کے اظہار کے لیے انہوں نے پارٹی چیئرمین عمران خان کو خط بھی لکھا تھا۔ یہ حرکت کرتے ہوئے انہوں نے بالکل نہیں سوچا کہ عثمان بزدار کا کلہ کتنا مضبوط ہے اور ان کو وزارت اعلی کس کی خواہش پر ملی تھی۔

اسی طرح ان کے کولیگ اور وزیر پارلیمانی امور علی محمد نے بچوں کے ساتھ جنسی جرائم میں ملوث ملزمان کو سر عام پھانسی کی سزا دینے کے مطالبے کی قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی تو ان کے خلاف بھی فواد چوہدری صاحب خم ٹھونک کر میدان میں آ گئے۔ حالانکہ خود عمران خان صاحب ایسے ملزمان کے خلاف سخت سزا کی خواہش کا اظہار ایک سے زائد مرتبہ کابینہ کے اجلاسوں میں کر چکے تھے۔ پھر رویت ہلال کے مسئلے پر مفتی منیب الرحمن صاحب اور نیب کے بارے بیان پر اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ بھی ان کا ”پھڈا“ عرصہ دراز تک چلتا رہا۔ فواد چوہدری کے ناقدین کہتے ہیں کہ وہ اس قسم کی حرکتیں خبروں میں رہنے کے لیے کرتے ہیں۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو فواد چوہدری کی کچھ باتیں نہ صرف دلچسپ ہوتی ہیں بلکہ حقیقت پر مبنی بھی۔

گزشتہ دنوں انہوں نے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ وہ اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھ کر یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ ”اپوزیشن لیڈر شہباز شریف عرصہ دراز سے ایوان میں تشریف نہیں لا رہے اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ بھی بیرون ملک سے وہ چھوڑ چکے ہیں۔ بہت سے معاملات ایسے ہیں آئینی لحاظ سے جن کے لیے اپوزیشن لیڈر کی موجودگی لازم ہے لہذا یا تو شہباز شریف صاحب سے واپسی کی تاریخ پوچھی جائے یا اس عہدے پر نئی تقرری کی جائے“۔ فواد چوہدری سے سیاسی اختلاف کے باوجود ان کی یہ بات رد نہیں کی جا سکتی۔

ن لیگ کے صدر شہباز گزشتہ کئی ماہ سے نواز شریف کی تیمارداری کو جواز بنا کر بیرون ملک ہیں۔ حالانکہ اس وقت نواز شریف کے ساتھ ان کے دونوں بیٹے، سمدھی اسحاق ڈار اور خاندان کے دیگر کئی ارکان بھی موجود ہیں اس کے باوجود شہباز شریف اگر اپنے بھائی کی صحت سے متعلق بہت زیادہ فکرمند ہیں تو وقتا فوقتا وہ ان کے پاس لندن چکر لگا سکتے ہیں۔ کچھ لوگ ابھی بھی کہیں گے کہ بھائی کی عیادت سے متعلق کسی کو پابند کرنا درست بات نہیں لیکن یہ بات سمجھنی چاہیے کہ شہباز شریف محض سیاسی جماعت کے صدر ہی نہیں بلکہ اپوزیشن لیڈر بھی ہیں۔

لہذا انہیں منتخب کرنے والے عوام کا بھی ان پر اتنا ہی حق ہے جتنا ان کے خاندان کا۔ انہیں منتخب کرنے والے عوام اور ان کی جماعت کے نظریے کی خاطر جدوجہد کرنے والے کارکن یہ توقع کرتے ہیں کہ ان کے حقوق کی آواز بلند کرنے کے لیے وہ ایوان میں موجود ہوں۔ کسی بھی مصروفیت کے سبب اگر وہ اپنے منصب کے اس تقاضے کو نبھانے میں کماحقہ انصاف نہیں کر پا رہے ہیں تو یہ مطالبہ غلط نہیں کہ وہ اپنی جماعت کے کسی دوسرے رکن کو اپوزیشن لیڈر کا منصب سونپ دیں اور پھر بیشک جہاں مرضی بیٹھے رہیں۔

قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی نشستیں 88 ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں اس جماعت کی نمائندگی تقریبا حکومتی تعداد کے برابر ہے۔ اس کے باوجود دونوں ایوانوں میں ڈیڑھ سال سے قیادت کی لا تعلقی کی وجہ سے وہ اپنی موجودگی کا احساس تک دلانے میں ناکام ہے۔ پنجاب میں حکومتی اتحاد تمام تر نا اہلی اور بیڈ گورننس کے باوجود نہ صرف یک طرفہ ایوان چلانے میں کامیاب ہے بلکہ اسے کوئی پریشانی یا روک ٹوک کا سامنا نہیں۔ یہی حال وفاقی حکومت کا ہے۔

نا اہلی، مہنگائی، بد انتظامی اور آٹے و چینی بحران کے باوجود الٹا حکمراں جماعت ہی مسلسل شعلہ بیانی سے اپوزیشن کو ہزیمت میں مبتلا کیے رکھتی ہے۔ اس صورتحال سے مسلم لیگ ن کے حمایتیوں خاص طور پر اس کے نوجواں سپورٹرز میں بہت بے چینی ہے۔ صرف شہباز شریف سے گلہ نہیں۔ اپنی نا اہلی کے بعد میاں نواز شریف کی جانب سے چلائی جانے والی ووٹ کو عزت دو تحریک کے بعد لوگوں کو توقع تھی شاید اس بار عوامی بالادستی کا مطالبہ واقعتا کسی منطقی انجام سے ہمکنار ہوگا۔

لیکن پھر نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز ضمانت پر رہا ہونے کے بعد پر اسرار خاموشی اختیار کر کے بیٹھ گئے۔ چلیں نواز شریف کی حد تک تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ ان کی طبیعت سیاست کی اجازت نہیں دے رہی۔ لیکن مریم نواز کا ٹوئٹر اکاؤنٹ اور سوشل میڈیا سیل کیوں غیر فعال ہے۔ انتخابات سے قبل جماعت کے اندر بھی بہت سے لوگوں نے مریم نواز کو جارحانہ حکمت عملی سے روکنے کی کوشش کی مگر وہ اپنے ارادے پر ڈٹی رہیں۔ اپنے بیانات کے سبب نہ صرف وہ خود جیل گئیں بلکہ ان کی جماعت مسلم لیگ بھی انتخابی معرکے میں بری طرح پٹی۔

ضمانت پر رہائی ملنے کے بعد پھر وہ اچانک کیوں خاموش ہوئیں؟ اسی طرح سروسز ایکٹ میں ترمیم پر جو شرمناک طرز عمل ن لیگ نے اختیار کیا اگر بعد میں یہی کچھ کرنا تھا تو ووٹ کو عزت دلوانے کے نعروں کی کیا ضرورت تھی؟ سمجھ نہیں آ رہا کہ جارحانہ پن سے اچانک دفاعی موڈ میں آنے کی پرانی تنخواہ پر نوکری میں آمادگی کے سوا کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ کئی بار ان وجوہات کو جاننے کے لیے میں ن لیگ کے رہنماؤں سے رابطہ کر چکا ہوں مگر شرمندگی کے اظہار کے سوا ان کے پاس بھی کوئی جواب نہیں ہوتا۔

خواجہ آصف کے اس بیان کے بعد کہ سروسز ایکٹ میں ترمیم کی حمایت کے لیے خود نواز شریف نے کہا تھا، مزید یہ کہہ کر بھی بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا کہ میاں برادران کے نظریات میں فرق ہے۔ یہ بات کس طرح جھٹلائی جائے کہ دونوں بھائی درون خانہ ایک ہی ہیں اور یہ پلاننگ کے ساتھ گڈ کاپ بیڈ کاپ کھیلتے ہیں۔ جِی ٹی روڈ یاترا کے بعد پارٹی ورکرز اور عوام نے میاں صاحب کی حمایت کیا اس لیے کی تھی کہ کسی لالچ کے عوض وہ ان کی نظریے سے بے لوث محبت بیچ ڈالیں۔

غریب لوگ اپنے روزگار کا ناغہ کر کے ان کے جلسوں میں شرکت کرتے رہے۔ کتنے صحافی اس بیانیے کے چکر میں ملازمتوں سے فراغت کا صدمہ لے بیٹھے۔ کتنے کارکنوں نے دھمکیاں، سختیاں اور گالیاں برداشت کیں۔ اس کے علاوہ بھی وہ کچھ ہوا جو اخباری سطور میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ بدلے میں کیا ملا؟ کیا یہ مشکلات اس لیے برداشت کی تھیں کہ قیادت انہیں مہنگائی کے بے رحم تھپیڑوں اور مخالفین کے طنز و تشنیع کے حوالے کر کے لندن سدھار جائے۔

ضمانت پر رہائی اور لندن جانے کے بعد جو طبی ٹیسٹ ہوئے، کیا وہ جیل سے سیمپل بھیج کر نہیں کرائے جا سکتے تھے؟ جیل کوئی کالے پانی کی سزا تو نہیں تھی جس سے فرار کے لیے اتنی جگ ہنسائی کرائی۔ چاہنے والوں کو مخالفین کے روبرو رسوا کیا۔ قیادت پھولوں کی سیج سے نہیں، خاردار اور سنگلاخ رہگزر پر سفر کا نام ہے۔ سہل پسندوں کو فرہاد ہونے کے دعوے کی کیا ضرورت ہے۔ آج کے دور میں طویل عرصہ کسی کو بیوقوف بنانا ممکن نہیں رہا۔ جو عوام کو اپنی ذات پر مقدم رکھے گا، وہی پذیرائی کا حقدار ہو گا۔ جو عوام کو استعمال کرنے کی کوشش کرے گا عوام بھی زیادہ عرصہ اسے سر پر مسلط نہیں رکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments