اللہ کی یہی مرضی تھی تو کپتان کیا کرتا!


منتوں اور جتنوں سے لایا جانے والا کپتان تباہ دیلیوں کے نت نئی اور مہان قسم کے ریکارڈز بناتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے ریکارڈ جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک عرصے تک برقرار رہیں گے کیونکہ اب شاید ہی ہمارے درمیان ایسا نابغہٕ روزگار اور مرغ دست آموز قسم کا وزیر اعظم آئے جو اس قدر گراس لوٹ لیول تک جا کر غریبوں کی خدمت کا فریضہ انجام دے سکے۔ کپتان جب موٹر ویز کی جگہ لنگر خانوں، اورنج ٹرینوں کی جگہ پناہ گاہوں اور میٹروز کی جگہ بھینسوں کے باڑوں کا افتتاح کرتا ہے تو مخالفین اور حاسدین کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ حقیقی ترقی اور خوشحالی کا سفر تو اب شروع ہوا ہے جب لیپ ٹاپ کے بجائے بھینسیں، کتابوں کی جگہ بکریاں اور ملازمت کے بجائے سالن کی پلیٹ تعلیم یافتہ اور ہونہار نوجوانوں کو دان کی جارہی ہے۔

کپتان سے خدا واسطے کا بیر اور جلاپا رکھنے والوں کی بولتی بند کرنے کے لیے ویسے تو کپتان کے عوامی فلاح و بہبود کے یہی نادر و نایاب میگا پروجیکٹس کافی تھے مگر اس سب پر کپتان کا دلوں پر بجلیاں گرانے والا انداز، بوٹا سا قد، قومی لباس کا وقار، گھٹاٶں جیسی سیاہ زلفیں، شرمیلی اور قاتل مسکراہٹ، جوئے شیریں کا خرام اور قمیص کے دامن سے چینیوں کی انکھڑیوں کی طرح جھانکتی، مسکراتی موریاں تو ہر مخالف کاناطقہ ہی بند کر دیتی ہیں۔

جب وہ دلآویز تبسم کے ساتھ ادائے خاص سے مخمور آنکھوں اور پر نور سینگوں والی مست مست بھینس کی باگ کسی خاتون کے ہاتھ میں دیتے ہیں تو یہ ایمان افروز اور روح پرور منظر دیکھ کر لوگوں کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ بلکہ کئی حاسدین کے دلوں پر یہ جلوہ برق بن کر گرتا ہے اور وہ دہائی دیتے پھرتے ہیں کہ

اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے
کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا

معاملہ یہیں تک رہتا تو مخالفین کو رو پیٹ کر جلد یا بد یر قرار آہی جاتا مگر جب کپتان سر مستی و بے خودی کے عالم میں مائیک سنبھالتا ہے تو ایسے ایسے مضامین غیب سے خیال میں آتے چلے جاتے ہیں کہ جنہیں سن کر ایک عامیوں کے ساتھ علما و فضلا بھی عش عش کر اٹھتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے جس طرح ہمارے کپتان کو شیریں بیانی اور فصاحت و بلاغت سے نواز رکھا ہے اس کا ایک زمانہ مد اح ہے۔ بات یہیں تک رہتی تو خیر گزرتی مگر جب کپتان اپنی منفرد تاریخ شناسی بلکہ تاریخ ”سازی“، جغرافیہ شناسی کو دینیات، سیاسیات، فلسفے، سائینس، روحانیات، عمرانیات، مغلظات اور حالات حاضرہ کے ساتھ باہم ملا کر معجون و ملغوبہ بنا کر پیش کرتا ہے تو درباریوں و خوشامدیوں کے علاوہ سرپرست بھی ہکا بکا رہ جاتے ہیں اور زبا ن حال سے فخریہ انداز میں گویا ہو تے ہیں کہ ایسی چنگاری بھی یارب! اپنی خاکستر میں تھی؟

سب جانتے ہیں کہ کپتان ملک کی خدمت پورے اخلاص سے کر رہا ہے۔ اس نے بہت نیک نیتی اور خلوص سے تبدیلی کا نعرہ لگایا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ تبدیلی کے اس سفر میں سوائے کپتان کے اور کوئی چیز نہیں بدلی۔ جو تھڑ دل اور اوتاولے یہ اعتراض کر رہے ہیں ان کی نظر باطن کے بجائے ظواہر پر ہے۔ یہ کم عقل نہیں جانتے کہ کپتان ایک سچے اور کھرے لیڈر کی طرح قول و فعل کے تضاد کو ختم کرتے ہوئے تبدیلی کا آغاز اپنی ذات سے کر رہا ہے کیونکہ سخاوت گھر سے شروع ہوتی ہے۔

کم نظر قسم کے لوگ حقیقت حال سے نا آشنائی کی وجہ سے کپتان کی اس تبدیلی کو یو ٹرن، اباٶٹ ٹرن یا منافقت و عہد شکنی سے تعبیر کر کے اپنے خبث باطن کا پرچار کر رہے ہیں۔ انہیں بھی جلد منہ کی کھانا پڑے گی۔ البتہ کپتان کے ایک حالیہ انٹرویو کے مطابق اگر تبدیلی کے اس سفر کو تائید ایزدی اور اللہ تعالٰی کی مشیّت حاصل نہ ہو سکی تو اس میں ان کا کیا قصور؟ انہوں نے تو پورے خلوص اور دلجمعی سے ملک کا بیڑا غرق کرنے۔ معاف کیجیے گا ملک کا بیڑا پار لگانے کی کو شش کی تھی۔

ایک بر خوردار نے اپنے والد سے کہا کہ ابو جی! آپ نے اور امی جان نے پورے خلوص سے میرے پاس ہونے کی دعا مانگی تھی نا! باپ نے جواب دیا جی بیٹے۔ یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے؟

اور چاچو، چچی، تایا جان، تائی جان، ماموں جی ممانی جان۔ غرض جملہ رشتہ داروں اور عزیز و اقارب نے بھی ایسا ہی کیا تھا؟

جی بیٹا! سب لوگوں نے دعائیں مانگ لی تھیں۔

اور محلے کی مسجد کے امام صاحب سے بھی کئی بار دعا کروا لی تھی نا!

جی بیٹا! میں نے تو داتا صاحب پر دیگ بھی چڑھا لی تھی۔ مگر تم یہ سب سوال کیوں پوچھ رہے ہو؟

بیٹے نے لجاجت سے جواب دیا کہ بابا جانی! اتنی دعاٶں، مناجاتوں، چڑھاووں، منتوں اور مرادوں کے باوجود اگر میں فیل ہو گیا تو اسے اللہ کی مرضی جان کر قبول کر لینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments