شادی کے لیے مناسب رشتے کی تلاش: ’میں نے ابّو سے کہا میرا مُجرا بند کرا دیں‘


راحت رضا اور ان کے شوہر

تصور کریں آپ کو ایک ہی امتحان بار بار دینا پڑے، یا ایک ہی ملازمت کے لیے کئی کئی بار انٹرویو کا بلاوا آئے یا پھر عدالت میں کسی مقدمے کے لیے تاریخ پر تاریخ بھگتنی پڑے۔ یقیناً آپ جنھجلا جائیں گے۔

لیکن کیا آپ کو احساس ہے کہ جنوبی ایشیا کے قدامت پسند معاشرے میں اَن گنت عورتیں روز اِس تکلیف دہ تجربے سے گزرتی ہے۔

وہ میک اَپ کر کے کھانے کی ٹرالی تیار کرتی ہیں۔ پھر یہ ٹرالی لے کر اجنبی مہمانوں کے سامنے جاتی ہیں جو اپنے طے شدہ معیار کے مطابق اُنھیں پَرکھتے ہیں اور پسند یا ناپسند کرتے ہیں۔

یہ ہے اس معاشرے کا ارینج میرج سسٹم لیکن ایک عورت ایسی بھی ہے جس نے اِس نظام سے بغاوت کا اعلان کیا ہے۔

پاکستان کے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والی 56 سالہ راحت رضا کی شادی کے لیے ایک یا دو نہیں بلکہ چالیس رشتے آئے جو سب کے سب لڑکے والوں کی جانب سے مسترد کر دیے گئے۔ اِس تلخ تجربے نے راحت پر ایسا اثر کیا کہ انھوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ آئندہ کبھی اِس نظام کا حصہ نہیں بنیں گی۔

یہ بھی پڑھیے

’تم رشتہ توڑنے کی باتیں کر رہی ہو‘

‘رشتہ آ نہیں رہا، رشتہ آ گیا ہے‘

ضرورتِ رشتہ: لیفٹسٹ دولھا درکار ہے

’فون پر بتایا جاتا تھا کہ ایک رشتہ ہے اور بس‘

پیشے کے لحاظ سے استاد، راحت رضا کو وہ دن آج بھی یاد ہیں جب اُن کے والدین کو رشتہ کروانے والوں کے فون آتے تھے۔

راحت رضا

پیشے کے لحاظ سے استاد، راحت رضا کو وہ دن آج بھی یاد ہیں جب اُن کے والدین کو رشتہ کروانے والوں کے فون آتے تھے

’فون پر بتایا جاتا تھا کہ ایک رشتہ ہے اور بس۔ اِس کے بعد لڑکے کے گھر والے آ جاتے تھے۔ مجھے دیکھا جاتا تھا اور پھر وہ لوگ غائب ہو جاتے تھے۔ کچھ دن بعد مجھے پتا چلتا تھا کہ مجھے ریجیکٹ کر دیا گیا ہے۔‘

ابتدا میں راحت رضا کا خیال تھا کہ شاید اُنھیں اِس لیے مسترد کیا جا رہا ہے کیونکہ اُن کا وزن زیادہ ہے لیکن اصل میں ایسا نہیں تھا۔

’میرے اردگرد کئی ایسی لڑکیاں تھیں جن کا وزن مناسب تھا اور جو مروجہ معیار کے مطابق خوبصورت بھی تھیں لیکن اُن کے رشتے بھی اِسی طرح مسترد کیے جاتے تھے۔ بس یہ تھا کہ وہاں وجہ کوئی اور ہوتی تھی۔ کبھی لڑکی کا قد زیادہ ہوتا تھا، کبھی وہ ضرورت سے زیادہ تعلیم یافتہ ہوتی تھی اور کبھی اُس کی ملازمت کی خواہش اُس کو مسترد کرنے کی وجہ بنتی تھی۔‘

’ہم لڑکیاں کوئی سرکس کا جانور ہیں کہ لوگ ہمیں دیکھنے آ رہے ہیں؟‘

جس زمانے میں راحت رضا کے پے در پے رشتے مسترد ہو رہے تھے، یہی وہ وقت تھا جب وہ ارینج میرج کے اِس پہلو سے سخت متنفر ہو گئیں۔

’آپ مانیں یا نہ مانیں یہ ایک ٹراما ہوتا ہے۔ آپ یونیورسٹی یا دفتر سے تھکے ہارے آئے ہیں اور آپ کو کہا جاتا ہے کہ تیار ہو جاؤ، کچھ لوگ تمھیں دیکھنے آ رہے ہیں۔ کیا مطلب دیکھنے آ رہے ہیں؟ کیا ہم لڑکیاں کوئی سرکس کا جانور ہیں کہ لوگ ہمیں دیکھنے آ رہے ہیں؟‘

راحت کے مطابق یہ طریقہ کار لڑکیوں اور اُن کے والدین کے لیے کتنا تکلیف دہ ہے، یہ کوئی اُن ہی سے پوچھے۔

’کبھی خالہ دیکھنے آ رہی ہیں تو کبھی پھوپھی تو کبھی کوئی اور رشتہ دار۔ میرے ساتھ ایسا ہوتا تھا کہ لڑکے والوں کے آنے سے پہلے ہی موڈ خراب ہو جاتا تھا۔ کبھی غصہ آ رہا ہوتا تھا، کبھی رونا اور کبھی ہنسی آتی تھی۔‘

اِس سارے معاملے کو نفسیاتی سطح پر پَرکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ شادیاں طے کرنے کا یہ طریقہ کار لڑکیوں کی خوداعتمادی اور اُن کی عزتِ نفس کے لیے زہرقاتل ہے۔

ماہر نفسیات عطیہ نقوی بتاتی ہیں کہ اِس نظام سے گزرنے والی لڑکی انسان کے بجائے خود کو ایک جنس یا ’کموڈٹی‘ تصور کرنے لگتی ہے۔

’لڑکی سمجھنے لگتی ہے کہ اُس کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں رہی۔ اُس کے اندر غم و غصہ پنپنے لگتا ہے جو اکثر و بیشتر شادی کے بعد سُسرال والوں کے خلاف نکلتا ہے۔ جو لڑکی اِتنے تلخ تجربے سے گزرنے کے بعد منتخب کی جائے گی وہ سُسرال والوں کے لیے دل میں قدورت رکھے گی اور اُن کے ساتھ کبھی بھی پیار و محبت کا رشتہ قائم نہیں کر سکے گی۔‘

مُجرا بند کرا دیں

پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب راحت رضا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور انھوں نے اپنے والد سے ایک ایسی بات کہہ دی جس پر اُنھیں آج بھی دکھ ہے۔

’میں نے ابّو سے کہا کہ بہت ہو گیا اب بس کر دیں، میرا مُجرا بند کرا دیں۔‘

ارینج میرج سسٹم سے تنگ آئی نوجوان راحت کے نزدیک لڑکیاں دیکھنے کے اِس طریقہ کار اور مُجرے میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔

’کیا فرق ہے؟ لوگ ہمیں دیکھنے ہی تو آ رہے ہیں نہ، ہمیں جج ہی تو کرنے آ رہے ہیں۔ ہمیں تیار ہونا ہے، صاف کپڑے پہننے ہیں، بال بنانے ہیں اور لپ سٹک لگانی ہے۔ لوگ یہ چیک کریں گے کہ ہم کیسے چل رہے ہیں، کیسے بیٹھ رہے ہیں اور کیسے ہنس رہے ہیں۔ ہماری آنکھ کیسے دِکھ رہی ہے، ہماری ناک کیسی دِکھ رہی ہے۔ تو کیا فرق ہے اِس میں اور مُجرے میں؟ صرف گانا نہیں بج رہا ہے، ٹھمکا نہیں لگ رہا۔‘

ٹیلر میڈ لڑکیاں

راحت رضا کے بقول لڑکیاں ٹیلر میڈ نہیں ہوتیں، جنھیں لڑکے اور اُن کے خاندان والے حسبِ منشا نہ ہونے پر مسترد کر دیں۔

’لڑکوں کو اپنی مرضی کی خوبصورتی چاہیے۔ وہ آنکھ چاہیے جو اُنھیں پسند ہے، وہ ناک چاہیے جو اُنھیں بھاتی ہے۔ حالانکہ خوبصورتی ایک ایسی چیز ہے جو ہر شخص کے لیے مختلف معنی رکھتی ہے۔ اِس لیے لڑکیاں ٹیلر میڈ نہیں ہوسکتیں۔ اگر آپ کو ٹیلر میڈ لڑکیاں چاہییں تو پھر لڑکے بھی ٹیلر میڈ ہونے چاہیے۔‘

ماہرِ نفسیات عطیہ نقوی کے مطابق لڑکوں اور لڑکیوں کے رشتے کرانے کا یہ نظام معاشرے میں پدرسری رویے فروغ دینے کا ذریعہ بنتا ہے۔

’اکثر لڑکے اِس طرح لڑکیوں کو دیکھنے نہیں جانا چاہتے لیکن خاندان کے دباؤ میں اُنھیں ایسا کرنا پڑتا ہے۔ پھر جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ اُن کے سامنے ایک کے بعد ایک لڑکیاں پیش کی جا رہی ہیں اور اُن کے ایک اشارے پر کوئی بھی لڑکی مسترد یا قبول کر لی جائے گی تو وہ مرد کو عورت سے برتر سمجھنے لگتے ہیں۔ اِس طرح تشکیل پانے والے رشتے میں مرد کبھی بھی عورت کو وہ عزت و احترام نہیں دے سکے گا جس کی وہ مستحق ہے۔‘

ہم بھی ریجیکٹ کریں گے

اپنے تلخ تجربات کو یاد کرتے ہوئے راحت رضا بتاتی ہیں کہ پدرسری معاشرے میں جیون ساتھی منتخب کرتے وقت عورت کی رائے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔

’میرے پاس تو انکار کا آپشن ہی نہیں رہا۔ لوگ مجھے ہی ریجیکٹ کر کے جاتے رہے۔ ہماری تو گراؤنڈ میں اُترنے کی باری ہی نہیں آئی۔ ایک ٹیم آئی، کھیلی اور چلی گئی۔ اکیلی آئی اور اکیلی چلی گئی۔ مزا تو اُس وقت آئے جب دونوں ٹیمیں ایک ساتھ میدان میں اُتریں۔‘

راحت طنزاً تجویز دیتی ہیں کہ کیوں نہ پہلے لڑکیاں لڑکوں کو دیکھنے جائیں۔

’لڑکوں نے تو وہی پھٹی جینز پہنی، اوپر سے ٹی شرٹ ڈالی اور آسمان سے اُترے کسی ستارے کی طرح آ کے بیٹھ گئے۔ کیوں بھئی کیا کوئی آپ کو ’جج‘ نہیں کرے گا؟ ریجیکٹ نہیں کرے گا؟ آپ بھی ہمیں چل کر دکھائیں، ہم بھی آپ کی آنکھ، ناک اور کان کو پَرکھیں گے۔‘

کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟

عمر کی پچاس دہائیاں دیکھ لینے والی راحت رضا کا ماننا ہے کہ لڑکی اور لڑکے کے درمیان رشتہ قائم کرنا ایک انتہائی آسان کام ہے جسے معاشرے نے مشکل بنا دیا ہے۔ اِس سلسلے میں وہ اپنی مثال دیتی ہیں۔

راحت رضا اور ان کے شوہر

’میں اور میرے شوہر اکھٹے ایک ہی جگہ کام کرتے تھے۔ ہم دونوں روز ساتھ جاتے تھے اور ساتھ ہی واپس آتے تھے۔ ایک دن اُنھوں نے مجھ سے کہا کہ مِس راحت کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟ میں نے جواب دیا کہ ہاں کرلوں گی۔ بس اتنی سی بات تھی۔‘

ایسا نہیں ہے کہ راحت اور اُن کے شوہر نے خاندان کے بڑوں کو اِس فیصلے میں شامل نہیں کیا۔ راحت بتاتی ہیں کہ اُن کی ہونے والی ساس اور نندیں بھی اُن سے ملنے اُن کے گھر آئیں۔

’جب وہ آئیں تو میری بڑی بہن نے کہا کہ ہم راحت کو بلا کر لاتے ہیں تاکہ آپ اُس کو دیکھ لیں۔ لیکن میری ساس نے جواب دیا کہ ہم راحت کو دیکھنے نہیں آئے ہیں۔ راحت نام کی جو لڑکی اِس گھر میں رہتی ہے، چاہے وہ جیسی بھی ہے، ہم اُس کا رشتہ اپنے بیٹے سے کرنے آئے ہیں کیونکہ میرا بیٹا اُس سے خوش ہے۔‘

ناشتے کی ٹرالی

راحت بتاتی ہیں کہ اُن کے گھر میں ناشتے کی کوئی ٹرالی نہیں ہے۔ اُن کے بقول جس چیز سے انسان کی قدر گرے اُس شے کی اُن کے گھر میں کوئی جگہ نہیں۔

‘آج اگر میری اولاد آ کر کہے گی کہ انھوں نے اپنے لائف پارٹنر کا انتخاب کر لیا ہے تو میں ہرگز کوئی اعتراض نہیں کروں گی۔ آج سے چھبیس سال پہلے میں نے بھی ایسا ہی کیا تھا اور میرے والدین نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔‘

راحت رضا اور ان کے شوہر

ماہرِ نفسیات عطیہ نقوی بھی کچھ ایسی ہی سوچ رکھتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جو اصول اور پیمانے گذشتہ صدی میں رائج تھے وہ اکیسویں صدی میں کام نہیں کریں گے۔

’جب ہمارے آباواجداد اِس طرح لڑکیاں دیکھنے جاتے تھے تو اُس زمانے میں لڑکیاں سات پردوں میں رہتی تھیں۔ اب نہ وہ لڑکیاں ہیں اور نہ ہی وہ معاشرہ۔‘

عطیہ رشتے طے کرنے کے لیے متبادل طریقے اختیار کرنے کا مشورہ دیتی ہیں۔

’اب ہمارے معاشرے میں مرد اور عورتیں آزادانہ مِل جُل رہے ہیں تو کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے کہ اگر لڑکا اور لڑکی خاندان والوں کے ذریعے اپنا شریکِ حیات منتخب کرنا چاہیں تو یہ تجربہ اُن کے لیے ناگوار نہ ہو۔‘

مُجرا آج بھی جاری ہے

ایک چوتھائی صدی گزر جانے کے باوجود معاشرے کی وہی فرسودہ روایات پنپتی دیکھ کر راحت رضا افسردہ ہیں۔

’جب بات بچوں کے رشتوں کی آتی ہے تو تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ لوگ بھی اُسی طرح لڑکیاں دیکھنے جاتے ہیں۔ یہ ایک ناکام معاشرے کی نشانی ہے۔‘

راحت کہتی ہیں کہ سب کچھ بھگتنے کے بعد آج اِس عمر کو پہنچ کر انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ کم از کم وہ اِس نظام کا حصہ نہیں بنیں گی۔

’اگر ہم میں سے ہر کوئی یہ فیصلہ کر لے کہ کیونکہ اُنھوں نے یہ تکلیف دیکھی ہے لہذا وہ کسی دوسری لڑکی کو اِس کا نشانہ نہیں بننے دیں گے تو تبدیلی آ سکتی ہے۔‘

’لیکن بدقسمتی سے یہ مُجرا آج بھی جاری ہے۔ میرے لیے نہیں تو کسی اور کے لیے، کسی اور کے لیے نہیں تو کسی اور کے لیے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32538 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp