آئین کو سماج کا معاہدہ سمجھنے والے


ذرائع ابلاغ کے ذریعے بطور قوم ہم دو طرح کے آئینی ماہرین سے مرعوب رہے ہیں۔ ایک وہ جو اے کے بروہی اور شریف الدین پیرزادہ کہلائے، فوجی آمروں کے اقدامات کو تحفظ دینے والے، آئین کی شقوں میں سے آمروں کے ہر فیصلے کی تائید تلاش کرنے کی صلاحیت سے مالا مال جو ثابت کر سکتے ہیں کہ سامنے بیٹھا کوا کالا نہیں سفید رنگ کا ہے۔ ایس ایم ظفر صاحب ان کی زندہ نشانی ہیں۔ دوسرے وہ لوگ جنہوں نے آئین کی جمہوری شناخت بحال رکھنے کیلئے زندگیاں وقف کر دیں۔

حفیظ پیرزادہ، اعتزاز احسن، رضا ربانی اور ابھرتے ہوئے آئینی ماہرسلمان اکرم راجہ۔ پہلی قسم کے ماہرین فوجی آمروں کیلئے خدمات انجام دیتے ہیں، ان کے ناجائز غیرقانونی اور غیر آئینی اقدامات کو آئینی ثابت کرتے ہیں، انہیں آمر نواز سیاسی، صحافتی اور سماجی حلقوں میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ ان ہی سرچشموں سے ان تک روپے پیسے کی فراوانی پہنچتی ہے۔پیسہ جمہوری شناخت والے آئینی ماہرین کو بھی ملتا ہے، انہیں بھی سیاسی اور صحافتی حلقوں میں ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کو پیسہ کون دیتا ہے، چند خاندان جو ریاستی وسائل کو لوٹتے ہیں۔

نیاز احمد سنگھیڑہ کی ان میں گنجائش نہیں رہتی۔ چھٹی کے روز ہم دیرینہ بزرگ دوست سے ملے۔ نیاز احمد سنگھیڑہ نہ آمر نواز آئینی ماہر ہیں نہ خاندانی جمہوریت کو تحفظ دینے والے۔ وہ سماجی آزادیوں کے حوالے سے آئین پر تنقیدی نگاہ رکھتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ان دو چار افراد میں سے ایک ہیں جو آئینی شقوں کی سماجی افادیت کے پہلو پر بحث کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔ یہ بھی ایک سماجی خدمت ہے۔ وہ آئین کے نکات کا تجزیہ کرتے ہیں کہ قومی مسائل، قوم سازی، نظریاتی تضاد، عوامی حاکمیت اور نظام حکومت سے متعلق حکمران اشرافیہ ہمیں جو بتاتی ہے آئین کہاں پر اس کے الٹ پوزیشن لیتا ہے۔

سماج دراصل ریاست اور حکمران خاندانوں کی ترجیحات میں نہیں اس لئے فنون لطیفہ، مقامی زبانوں، مقامی کھیلوں اور زراعت کی طرح ایسے نایاب آئینی ماہرین کیلئے نہ میڈیا میں جگہ ہے نہ سیاسی حلقے ان کو اہمیت دیتے ہیں۔ نیاز احمد سنگھیڑہ نے برصغیر میں زمینوں کی بندوبست کے نظام میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ان کے سماجی اثرات کا مطالعہ کیا ہے۔ انگریز نے جو ظلم کسانوں کے ساتھ کیا وہ اس کے پاکستانی جانشینوں نے آئین کا حصہ بنا یا ہے۔

انگریز کے بنائے قوانین نے آج بھی کسان کو مزارع، کمّی، بے مالک اور لگان دار بنا رکھا ہے جبکہ زراعت سے ناواقف سرمایہ دار زمین کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ اپنی کتاب ’’عجوبے اور حقائق‘‘ میں نیاز احمد سنگھیڑہ لکھتے ہیں: ’’انگریزوں نے اراضی کی غیرمنقولہ حیثیت کا خاتمہ کرکے اسے منقولہ جائیداد کی طرح سرمایہ میں تبدیل کر دیا۔ جس کا جی چاہے خریدے اور اپنے نام منتقل کروا کر زمیندار یا جاگیردار کہلائے۔ اس طرح زمین جو کسان کے ازلی جذبوں، گھریلو ضرورتوں اور ابدی رشتوں کی پہچان تھی، سرراہ نیلام کر دی گئی اور کسان بے چارہ بیگانگی ذات کا دائمی مریض بن کر آسمان کی طرف تکنے لگا‘‘۔

انگریز مسلمانوں کو معاشی طور پر توڑنا چاہتا تھا۔ اس نے بہانے بہانے سے ان کی زمینیں ضبط کرنا شروع کیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں شرکت کی پاداش میں نواب اودھ کی زمینیں ریاستی ملکیت کے فیصلے کے تحت ضبط کر لی گئیں اور ساہو کاروں کے ہاتھ فروخت کر دیں۔ حریت پسند سوچ رکھنے والوں کی زمین ضبط کرکے انگریز نے اپنے وفاداروں کو سینکڑوں اور ہزاروں ایکڑ زمینیں الاٹ کیں۔ پاکستان کی سیاست میں جو انتخابیئے (الیکٹ ایبلز) زمیندار ہیں ان کی اکثریت انگریز سے فیضیاب ہے۔

دولتانے، ٹوانے، قریشی، سید، قزلباش اور کئی دوسرے۔ پاکستان بنا تو اکتوبر 1958ء میں ایوب خان زرعی اصلاحات لائے۔ پھر 1972ء اور 1977ء میں بھٹو نے زرعی اصلاحات متعارف کرائیں۔ انگریز کے دور میں جو لوگ بے زمین ہوئے ان کی نسلوں سے وعدہ کیا گیا کہ بے زمین ہاریوں کو زمین الاٹ کی جائے گی۔ بھٹو صاحب کے دور تک ریاست نے صرف ساٹھ ہزار ایکڑ اراضی تقسیم کی، وہ بھی شاملات، دور افتادہ، اوقاف، متروکہ یا آبادکاری قسم کی۔ صرف بھٹو خاندان کی اپنی زمینیں ہزاروں مربع رقبہ پر مشتمل ہیں۔

جتوئی پاکستان کے سب سے بڑے جاگیردار بتائے جاتے ہیں۔ نیاز سنگھیڑہ اس بات پر پورا یقین رکھتے ہیں کہ جس طرح ایک غریب چور کو سزا دینے کیلئے پوری قانونی مشینری فرض شناس بن جاتی ہے اور امیر چور کو بے گناہ ثابت کرنے پر تل جاتی ہے اسی طرح آئین میں کئی ایسی شقیں جان بوجھ کر چھوڑ دی گئی ہیں جو بیرونی قوتوں اور عالمی ساہوکاروں کی بات نہ ماننے پر کسی کو مجرم ثابت کرنے کا جواز فراہم کر سکتی ہیں۔ آئین میں شق 62 اور 63 موجود ہے۔

کیا آج تک اس کا اطلاق تمام اراکین پارلیمنٹ اور افسرشاہی پر کیا گیا؟ کیا یہ بھی آئین میں تضاد کی علامت نہیں کہ ہم معاشرے کو رنگ و نسل اور گروہ بندی سے پاک کرنا چاہتے ہیں مگر پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کچھ اور ہی باتوں کو تحفظ دیتا ہے۔ وطن عزیز تجزیہ کاروں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ بند دروازوں کے پیچھے چھپ کر سرگوشیاں سنتے ہیں اور پھر تجزیوں کے تعویز ضرورت مندوں میں بانٹتے ہیں۔ سماج کی ترقی اور غریب کی حالت بدلنے کی ہر کوشش کا مذاق اڑایا جاتا ہے، ایسے میں ان آئینی ماہرین کی فکر کیوں کی جائے جو نہ آمروں کے حامی ہیں نہ وراثتی حکمرانی پر یقین رکھنے والے خاندانوں کے زرخرید۔ سماج کے ایسے خدمتگاروں کیلئے یہ قلم سلیوٹ پیش کرتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments