جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں نئے اٹارنی جنرل کی حکومت کی نمائندگی سے معذرت


سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے اب اس معاملے میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو عدالت کی معاونت کے لیے کہا ہے

پاکستان کے نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں میں حکومت کی نمائندگی سے معذرت کر لی ہے۔

پیر کو جب سپریم کورٹ میں اس معاملے کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل خالد جاوید نے عدالت کو بتایا کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کے معاملے میں انھیں ’مفادات کے ٹکراؤ‘ کا سامنا ہے جس کی بنا پر وہ اس معاملے سے علیحدہ ہو رہے ہیں لہٰذا اگر کوئی اور اس کیس میں دلائل دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔

اس پر سپریم کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس معاملے پر کوئی دلائل نہیں دیتا تو یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدالت کی معاونت کریں تاکہ اس معاملے کو کسی نتیجے تک پہنچایا جا سکے۔

تاہم موقع پر موجود وزیرِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اگر عدالت اجازت دے تو وہ خود اس معاملے میں وفاق کا مؤقف عدالت کے سامنے پیش کریں گے۔

اس پر جسٹس قاضی امین نے وزیرِ قانون سے استفسار کیا کہ کیا وہ دلائل دینے سے قبل اپنے عہدے سے مستعفی ہوں تو بیرسٹر فروغ نسیم نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔

یہ بھی پڑھیے

’میرے فیصلوں سے حکومت، ایجنسیاں سخت ناراض تھیں‘

’ابھی ہم آپ کو کھیلنے کے لیے آسان اوور دے رہے ہیں‘

خالد جاوید خان کو پاکستان کا نیا اٹارنی جنرل بنانے کا فیصلہ

سماعت کے دوران پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی روسٹرم پر آئے اور عدالت کو بتایا کہ پاکستان بار کونسل کے قواعد و ضوابط کے مطابق کوئی بھی وکیل اگر وہ وزیر ہے تو اس وقت تک عدالت میں بطور وکیل پیش نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی وزارت سے مستعفی نہ ہو جائے۔

خیال رہے کہ فروغ نسیم ماضی میں بھی عہدہ چھوڑ کر سپریم کورٹ میں وفاق کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ انھوں نے فوج کے سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے میں ایسا کیا تھا۔

واضح رہے کہ اٹارنی جنرل خالد جاوید کی تعیناتی کے بعد جب ان سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل میں کارروائی روکنے سے متعلق درخواست کی سماعت کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو انھوں نے کہا تھا کہ وہ اس ضمن میں 24 فروری کو عدالت میں ایک بیان ریکارڈ کروائیں گے۔

سپریم کورٹ نے اس کیس کی مزید سماعت 30 مارچ تک ملتوی کر دی ہے۔

اٹارنی جنرل نے استعفیٰ دیا یا ان سے استعفی لیا گیا؟

’ایف بی آر جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ سے تعاون کرے‘

’صدر کا کردار ربڑ سٹمپ ہے تو یہ خطرناک بات ہے‘

یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق سپریم کورٹ میں درخواستوں کی سماعت کے دوران حال ہی میں مستعفی ہونے والے اٹارنی جنرل انور منصور وفاق کی نمائندگی کر رہے تھے تاہم بینچ میں شامل ججوں کے بارے میں ایک متنازع بیان دینے پر ان سے استعفیٰ لے لیا گیا تھا۔

فروغ نسیم

فروغ نسیم ماضی میں بھی عہدہ چھوڑ کر سپریم کورٹ میں وفاق کی نمائندگی کر چکے ہیں

عدالت نے انور منصور خان سے اس بیان پر تحریری معافی بھی طلب کی تھی جس کے بعد انھوں نے عدالت کو دی گئی ایک درخواست میں معافی مانگ لی تھی۔

جسٹس فائز عیسیٰ کا جواب

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اس معاملے میں سنیچر کو سپریم کورٹ میں جواب جمع کراتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کے خلاف صدارتی ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے، اسے کالعدم قرار دیا جائے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدر، وزیر اعظم، وزیر اعظم کے معاون خصوصی، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل سمیت غیر قانونی جاسوسی کے عمل میں ملوث افراد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے جواب میں کہا کہ انھوں نے کوئٹہ بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے 75 افراد سے متعلق رپورٹ لکھی تو صوبے میں متحرک ایجنسیاں سیخ پا ہو گئیں اور اس وقت اور بہت ہنگامہ آرائی ہوئی۔

ان کے مطابق جب انھوں نے فیض آباد دھرنا کیس سے متعلق فیصلہ دیا تو اس سے بھی جہاں حکومت اور اس کے اتحادیوں میں ناراضگی کی لہر دوڑ گئی وہیں مختلف ایجنسیاں بھی اس سے سخت نالاں ہوئیں۔ ان کے مطابق یہ وہ موقع تھا جس کے بعد ان کے خلاف ایک محاذ کھڑا کیا گیا۔

اپنے جواب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ اثاثہ جات ریکوری سے متعلق بنائے گئے یونٹ کے سربراہ نے ٹیکس جمع کرنے والے وفاقی ادارے ایف بی آر اور وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے اور قومی شناخت سے متعلق ادارے نادرا سے میرے کوائف اکھٹے کرنا شروع کردیے۔

سپریم کورٹ کے جج کے مطابق ’ان اداروں نے بلا چوں چراں میرے اور میرے خاندان کے افراد سے متعلق معلومات حکومت کے ساتھ شیئر کر دیں۔

ان کے مطابق یہ ادارے اس طرح ذاتی معلومات دینے کے روادار نہیں تھے تاہم انھوں نے ایسا کر کے ایک غیر قانونی کام کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp