مولانا پھر آ رہا ہے


پاکستان کی سیاست بھی قوم کے مجموعی مزاج کی طرح مخمصے کا شکار ہے۔ ستم نہیں تو اور کیا ہے کہ تقسیم سے لے کر اب تک پاکستانیوں کو بطور قوم چند ایک مواقع پر دیکھا ہے اس کے علاوہ تو یہ لوگ نسل، قومیت اور مسلک میں اس قدر تقسیم ہوئے ہیں کہ ان کا مل بیٹھنا یا پھرکسی ایشو پر اتفاق رائے پیدا کرنا کم وبیش ناممکن سا ہو گیا ہے۔ الجھانے والوں نے پوری قابلیت کے ساتھ اس قوم کو الجھایا ہے اور نا چاہتے ہوئے بھی ان کی عقل کو داد دینے کو دل کرتا ہے۔

مگر الجھی ہوئی قوم کو سمجھ نہیں آرہی کہ اُن کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ ہم طاقتور کی بچھائی ہوئی بساط کے وہ مہرے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی چال چل رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ طاقت جہاں چاہتی ہے ہم وہاں پر اپنا ڈیرہ ڈال دیتے ہیں۔ اب یہ صورتحال کب واضح ہوگی اور لوگوں کو اس کی کب سمجھ آئے گی اس سے متعلق افتخار عارف کا ایک شعر کافی ہے جس سے اس کا جواب ملتا ہے کہ ”کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے۔ یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا ”مگر فی الحال تماشا پوری شدومد کے ساتھ جاری ہے۔ نااہلیت کے غبارے میں ہوا بھرنے کی پوری کوشش ہورہی ہے مگر ہوا نہیں بھری جا رہی۔ ممکنہ حد تک اپوزیشن کو خاموش کرا دیا گیا ہے۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں سوائے سیاسی بیان بازی کے کچھ نہیں کررہی ہیں۔ ایک جماعت اپنے صوبے سے باہر نہیں نکل پارہی ہے جبکہ دوسری جماعت کی قیادت ہی ملک سے باہر جابیٹھی ہے اور باہرسے ہی حکومت کو گھر بھیجنے کی باتیں ہو رہی ہیں اسی پر تو جمعیت علمائے اسلام کے حافظ حسین احمد نے کہا کہ حکومت کو گھر بھیجنے سے پہلے آپ لوگ تو اپنے گھر واپس آئیں۔

روف کلاسرہ نے اپنے ویڈیو بلاگ میں کہا کہ بڑے میاں صاحب نے طاقتور حلقوں کو پیغام بھیجا ہے کہ ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نا ہی کوئی جلدی ہے. اچھی بات ہے، تبدیلی کے خواہش مندوں کو اپنا شوق پورا کرلینے دیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ طے ہوگیا کہ حکومت کو گرانے کی کوئی کوشش نہیں ہوگی اور آپ سکون سے کام کریں۔ کسی حد تک یہ بات دل کو لگتی ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ گزشتہ دو سال میں جو کچھ ہوا ہے اچھا ہے کہ وہ خاموش بیٹھ کر تماشا دیکھیں۔

مگر جب عوام کی حالت زار کی طرف توجہ جاتی ہے تو لگتا ہے کہ اپوزیشن کی جماعتیں غلطی کررہی ہیں کوئی تو ہو جو عوام کے حقوق کی بات کرئے ان کے مسائل پر آواز اٹھائے۔ بے روزگاری کے عفریت نے ہر چھوٹے طبقے کے محنت کش کو نگلنا شروع کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مختلف کاروبار سے وابستہ دس لاکھ سے زائد لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ مہنگائی کی شرح خطے میں سب سے زیادہ ہے اور گزشتہ دس سال کا ریکارڈ توڑ چکی ہے۔ مڈل کلاس کو روٹی کے لالے پڑچکے ہیں۔

عوام اب مکمل طورپر جھولیاں اٹھا کر تبدیلی کے نعرے کو کوس رہے ہیں۔ وزارت خزانہ کی موشگافیاں اپنی جگہ مگر معاشی صورتحال کی سب سے مستند خبر کسی غریب کے کچن سے ہی مل سکتی ہے۔ ٹیکس کی بھرمار اور بجلی کے بلوں میں اضافہ نے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ تبدیلی تمام تر حشرسامانیوں کے ساتھ اس وقت جلوہ گر ہے اور اس وقت جب عوام کو ایک مضبوط اپوزیشن کی ضرورت ہے وہ اپوزیشن دستیاب نہیں ہے۔ ایسے میں مولانا فضل الرحمن نے ایک بار پھر سڑکوں پر عوام کی نمائندگی کرنے کا شیڈول جاری کردیا ہے۔

گزشتہ لانگ مارچ میں اپوزیشن جماعتوں کی سازشوں اور بے اعتنائی کا شکار مولانا کسی طرح اپنا بھرم بچا گئے تھے مگر اس بار ان کے بیانات سے اندازہ ہورہا ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اطلاع ہے کہ ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے ایک نمائندہ مولانا کی طرف بھیجا گیا اور پیغام دیا گیا کہ جیسا آپ کہیں گے ن لیگ اسی طرح آپ کے ساتھ ہوگی مگر مولانا نے فی الوقت ان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا مولانا فضل الرحمن دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں کے ہمراہ نئی احتجاجی تحریک میں حکومت کا تختہ الٹ سکیں گے تو اس کا جواب میری طرف سے تو یہ ہوگا کہ ایسا شاید ممکن نا ہو۔ یہ کام شاید ان سے اکیلے نا ہوسکے تاوقتیکہ وہ ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کو اس کنٹینر پر سوار نہیں کریں جس پر وہ خود موجود ہوں۔ مولانا کے مارچ کا پھر فائدہ کیا ہو گا۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ کسی حد تک مہنگائی، بے روزگاری سے تنگ عوام کو مزید مہنگائی سے کچھ مدت کے لئے نجات مل جائے گی۔

پی پی اور ن لیگ کا وہ ورکر جو حکومت کے خلاف عملی طورپر احتجاج نا کرنے کے حوالے سے اپنی قیادت سے نالاں ہے بھی مولانا کے احتجاج میں شامل ہوسکتا ہے۔ مولانا نے اس بار پنجاب کو اپنا ہدف بنایا ہے اور مارچ میں پنجاب کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوں گے۔ فی الحال فروری میں لاڑکانہ، پنوں عاقل اور کراچی میں مولانا کے اجتماع ہوں گے اور 29 کو مولانا پنڈی میں پروگرام کریں گے۔ اسی طرح یکم مارچ کو اسلام آباد اور دو مارچ کو پشاور میں جمعیت اپنی طاقت کا مظاہرہ کرئے گی۔

6 مارچ کو ملتان اور 8 مارچ کو بنوں، 14 مارچ کو حضرو ضلع اٹک اور 15 مارچ کو بھکر میں اجتماع ہوگا۔ جمعیت اس ضمن میں 19 مارچ کو لاہور میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرئے گی۔ مولانا فضل الرحمن ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اوروہ اس وقت یہ احتجاجی تحریک شروع کرکے ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے ہیں ایک تو وہ ملکی سطح پرعوامی مسائل پر آواز بلند کر کے اپنی جماعت کی عوام میں پذیرائی میں اضافہ چاہتے ہیں اور وہ اس میں اس لیے بھی کامیاب رہیں گے کہ اپوزیشن کی طرف سے میدان بالکل خالی ہے اور حکومتی کارکردگی جس طرح کی ہے اس پر ان کی ہربات کوعوام میں قبولیت حاصل ہوگی۔

احتجاجی تحریک کے حوالے سے یہ ایک مناسب وقت ہے اور دوسرا فائدہ مولانا فضل الرحمن کو یہ ہوگا کہ ان کا پیغام ان حلقوں تک پہنچے گا کہ مجھ سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے کیے جائیں۔ یا پھر یہ بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ مولانا گرین سگنل ملنے کے بعد نکل رہے ہوں کیونکہ افتخار عارف کا ایک شعر موجودہ سیاسی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے کہ

تماشا کرنے والوں کوخبر دی جا چکی ہے

پردہ کب گرے گا؟ کب تماشا ختم ہوگا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments