#Coronavirus: ایران کے ساتھ سرحد کی بندش سے پاکستان میں روزمرہ اشیا اور تیل کی قلت کا خدشہ
پاکستان کے ایران کے ساتھ اپنی سرحد کو غیر معینہ مدت تک کے لیے بند کرنے کے فیصلے کے بعد ملک میں ایران سے آنے والی روزمرہ اشیا اور تیل کی قلت کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
کرونا وائرس کے خطرے کے پیشِ نظر حکومتِ پاکستان نے اس سرحد کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بلوچستان کے ضلع چاغی کے اسٹنٹ کمشنر نجیب قمبرانی نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ بارڈر کب کھلے گا یہ ابھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ فی الحال خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔
یاد رہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان لوگوں کی آمدورفت اور تجارت مکمل طور پر بند کر دی گئی ہے۔
اشیائے خورد و نوش کی آمد
پاکستان اور ایران کے درمیان 904 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں چاغی، واشک، پنجگور، کیچ، تربت اور گودار شامل ہیں۔ یہ اضلاع ایران کی اشیا کی ایک بڑی مارکیٹ ہیں۔ ان علاقوں میں اشیائے خورد و نوش سمیت تیل اور موٹر سائیکلیں بھی ایرانی استعمال ہوتی ہیں، جبکہ یہاں سرکاری طور پر ایران کی جانب سے بجلی بھی فراہم کی جاتی ہے۔
سرحدی شہر تفتان کا بارڈر امیگریشن اور باضابطہ تجارت کے علاوہ ہفتے میں تین روز تجارت کے لیے کھولا جاتا ہے۔ تجارت کے ان دنوں میں پاکستان کے مزدور کندھوں اور ہتھ ریڑھیوں پر ایران سے عام استعمال کی چیزیں لاتے ہیں جن میں زیادہ تر سبزیاں، پھل، شہد، بیکری آئٹمز، مشروبات اور کراکری کا سامان شامل ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ایران پاکستانی سرحد پر گولے کیوں برساتا ہے؟
صرف ایران اپنی اشیاء کیوں فروخت کر رہا ہے؟
ایران میں کورونا وائرس، تفتان کی سرحد عارضی طور پر بند
اس تجارت پر کسی قسم کا ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا۔ دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کے مطابق پاکستان سے موسمی پھل ایران جاتے ہیں۔
چاغی کے اسسٹنٹ کمشنر نجیب قمبرانی کا کہنا ہے کہ روز مرہ کی اشیائے خورد و نوش اہم نہیں ہیں اور اس مسئلے کے حل کےلیے انتظامیہ دوسرے شہروں سے ان اشیا کی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔
بارڈر مقامی روزگار کا بنیادی ذریعہ
تفتان میں نہ کاشت کاری ہوتی ہے اور نہ ہی یہاں کوئی دوسرا بڑا ذریعہ روزگار ہے۔ یہاں کے مقامی لوگوں کا سارا دارو مدار زیرو پوائنٹ، سرحدی کراسنگ، پر ہے جہاں سے مزدوری اور تجارت کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔
صرف زیرو پوائنٹ کی تجارت سے لگ بھگ 2500 مزدوروں کا روزگار وابستہ ہے۔
چند مزدور بارڈر پار سے سامان لاتے ہیں، چند انھیں لادتے ہیں جبکہ دوسرے انھیں گاڑیوں پر لوڈ کر کے تفتان شہر میں دکانوں تک پہنچاتے ہیں۔ اس طرح 15 ہزار آبادی کے شہر تفتان کی معشیت اسی تجارت سے چلتی ہے۔
بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے مزدور کام کاج کے لیے ایران کے صوبے سیستان اور دیگر علاقوں میں بھی جاتے ہیں جس کے لیے انھیں مقامی راہداری دی جاتی ہے۔
ایرانی پیٹرول اور گیس
ایران سے ایل پی جی گیس کے ٹینکر تافتان آتے ہیں جہاں سے یہ گیس مقامی ٹینکروں کے ذریعے زیادہ تر پنجاب منتقل کی جاتی ہے جبکہ مقامی طور پر یہ گیس چھوٹے سلنڈروں میں فروخت کی جاتی ہے۔ اسی طرح کوئٹہ سے زاہدان ٹرین چلتی ہے جس میں زیادہ تر سیمنٹ، سکریپ، کھجور، ٹائلز اور ڈامر لایا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان کے حالیہ فیصلے کے بعد یہ ٹرین سروس بھی معطل رہے گی۔
چاغی، واشک، پنجگور، کیچ، تربت اور گودار کے اضلاع میں ایرانی تیل اور ڈیزل سے ہی مواصلاتی نظام چلتا ہے۔ یہ تیل آسمانی رنگ کی پک اپ میں، جسے زمباد کہا جاتا ہے، سمگل کیا جاتا ہے۔
حکومت پاکستان نے حال ہی میں کئی سرحدی علاقوں میں باڑ لگا دی ہے جس سے سمگلنگ میں کمی تو آئی ہے لیکن یہ سلسلہ رک نہیں پایا، مقامی لوگوں نے اس بندش کے خلاف احتجاج بھی کیا ہے۔ ان اضلاع میں کاشت بارشوں کی مرہون منت ہوتی ہے جبکہ چاغی، واشک اور تربت میں دو سال قبل تک خشک سالی تھی جس کے بعد شدید بارشیں ہوئیں۔ یہاں کی آبادی کا ایک اچھا خاصا حصہ سمگلنگ سے ہی گزر بسر کرتا ہے تاہم کرونا وائرس کی پیش نظر ایف سی اور لیویز کی جانب سے نگرانی کے نظام میں سختی لائی گئی ہے۔
پاکستان کے زائرین
پاکستان سے ہر سال شیعہ زائرین ایران جاتے ہیں جبکہ محرم اور چند دیگر مواقع پر ان کی تعداد کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔ زائرین پر حملوں کے بعد تفتان میں پاکستان ہاؤس کے نام سے ایک سیف ہاؤس بنایا گیا تھا جہاں سے زائرین کو ایف سی کی سکیورٹی میں کوئٹہ پہنچایا جاتا ہے۔
اسٹنٹ کمشنر کے مطابق پاکستان ہاؤس کو قورنطینہ سینٹر بنایا گیا ہے جہاں اس وقت 200 سے زائد زائرین مقیم ہیں۔ ان زائرین کو اگرچہ کوئی بیماری نہیں مگر احتیاطی تدابیر کے طور پر انھیں یہاں رکھا گیا ہے اور انھیں نگہداشت کا دورانیہ پورا کرنا پڑے گا۔
’یہاں سے ایران نہ صرف زائرین بلکہ تجارت و مزدوری کے لیے بھی لوگ جاتے ہیں۔ ایسے افراد کی تعداد پانچ سے چھ ہزار کے قریب ہے۔ ہم نے اعلیٰ حکام کو درخواست کی ہے کہ سفارتی ذرائع کو استعمال کر کے ایران کو درخواست کی جائے کہ ہمارے جتنے بھی شہری ہیں ان کی وہاں پر ہی قرنطینہ کی مدت پوری کروائی جائے اور اس کے بعد روانہ کیا جائے۔‘
محدود طبی سہولیات
بلوچستان کے صحرائی اور پہاڑی ضلع چاغی میں صحت کی سہولیات کا فقدان ہے۔ سرحدی شہر تفتان میں صرف تین کمروں پر مشتمل بنیادی صحت مرکز ہے جس میں ایک ڈاکٹر اور کچھ طبی عملہ تعینات ہے۔ جبکہ دوسرے بڑے شہر نوکنڈی میں دیہی صحت مرکز موجود ہے اور ضلعی ہیڈ کوارٹر دالبندین میں پرنس فہد بن سلطان ہسپتال موجود ہے۔
صحافی علی رضا رند کے مطابق صوبائی حکومت کی جانب سے 100 بستروں کے موبائل ہسپتال کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
اسٹنٹ کمشنر نجیب قمبرانی تسلیم کرتے ہیں کہ طبی سہولیات اعلیٰ درجے کی نہیں ہیں تاہم نو کنڈی اور ڈسٹرکٹ ہسپتال میں آئسولیشن سینٹر قائم کر لیا گیا ہے۔ ان کے پاس تھرمل سکینر گنز دستیاب ہیں۔ انھوں نے کہا چونکہ اس وقت تک کسی مسافر میں کورونا وائرس کا شبہ نہیں ہوا اس لیے کٹس کی ضرورت نہیں۔ اگر کسی پر بھی شبہ ہوا تو اس کو پہلے مرحلے میں آئسولیشن سینٹر لائیں گے اور مزید علاج کے لیے ایڈوانس ہسپتال بھیج دیں گے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).