مشرقی پاکستان کے پناہ گزین جو آج انڈیا میں کروڑ پتی ہیں


انڈیا کی وسطی ریاست چھتیس گڑھ کے بستر ضلعے میں کاپسی گاؤں میں ایک تالاب کے کنارے کھڑے پچاس سالہ شخص اپنے جوتے میں مٹی صاف کرتے ہیں اور پھر ہاتھ اٹھا کر اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘جہاں تک تمہاری نظر جارہی ہے وہ سارے تالاب میرے ہیں۔’

ان کے پاس کل کتنے تالاب ہیں خود انھیں ٹھیک سے یاد نہیں۔ لیکن رواں سال انھوں نے 25-26 تالابوں میں مچھلی کے زیرے چھوڑے ہیں۔

پچھلے سال ہر تالاب سے چار ساڑھے چار سو کوئنٹل مچھلی کے زیرے پیدا ہوئے۔

اس علاقے میں ماہی گیری محکمہ کے انسپکٹر اشوک کمار گائن کا کہنا ہے کہ ‘اس چھوٹے سے پکھانجور قصبے میں ودیوت منڈل جیسے تقریبا دو درجن ایسے ماہی گیر ہیں جن کا سالانہ کاروبار کروڑوں میں ہے۔ ہر سال اس کاروبار میں اضافہ ہورہا ہے اور کم از کم 13 ریاستوں سے مچھلی کے زیرے کی برآمد اس پکھانجور قصبے سے ہوتی ہے۔

گائن کا دعوی ہے کہ اس قصبے میں 700 سے زائد کسان ایسے ہیں جو ماہی گیری کے کاروبار میں مکمل طور پر شامل ہیں۔

اگر اعداد و شمار پر نگاہ ڈالیں تو سب سے زیادہ مچھلی کے زیرے (بیج) گذشتہ سال چھتیس گڑھ میں ضلع کانکر میں پیدا ہوئے جہاں یہ پکھانجور قصبہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا بنگلہ دیشی انڈین شہریت لینا چاہیں گے؟

انڈیا:مشرقی ریاستوں میں پناہ گزیں مخالف مظاہرے

محکمہ فشریز کے اعدادوشمار کے مطابق پچھلے سال یہاں 5583.14 لاکھ مچھلی کا زیرا پیدا ہوا تھا۔ یہ پوری ریاست کے زیروں کی پیداوار کا 22 فیصد ہے۔

ایک درجن مزدوروں کے ساتھ قریبی نہر سے تالاب تک پانی پہنچانے کی کوشش میں لگے ودیوت منڈل نے کہا: ‘آج سبھی مچھلی دیکھ رہے ہیں۔ لیکن پہلے پکھانجور کیا تھا؟ پرانے لوگ کہتے ہیں کہ یہاں مچھلی تو دور کی بات تھی ایک تالاب تک نہیں تھا۔’

خواب بنتے ہاتھ

چھتیس گڑھ کے اس علاقے کو چاول کا گہوارہ کہا جاتا ہے۔ اس علاقے میں پناہ گزینوں نے سائنسی انداز میں دھان (چاول) کی کاشت کی اور اس علاقے میں چاول کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ نقد فصلیں بھی اگائی گئیں۔ لیکن ماہی گیری نے اس علاقے کی شناخت تبدیل کردی۔

فش فارمنگ کاشتکاروں نے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی۔ ماہی گیری کے میدان میں جو کام پوری ریاست میں کبھی نہیں ہوا اس کا آغازپکھانجور سے ہوا۔

گذشتہ سال کی بات ہے کہ پنگاس نسل کی مچھلی پیدا کرنے کی سرکاری کوشش ناکام ہوگئی لیکن پکھانجور کے بہت سے کسان اپنی ہیچری میں پنگاس مچھلی تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اب وہ اس کا کامیاب کاروبار بھی کررہے ہیں۔

کاپسی کے ودیوت منڈل کا کہنا ہے کہ اگرچہ آج وہ ایک کروڑ پتی ہیں لیکن کبھی وہ گاؤں میں سبزیاں اگاتے اور فروخت کرتے تھے۔ اس کے بعد ایک تالاب میں مچھلی پالنا شروع کیا تھا۔ اس کے بعد ان کا کاروبار سال بہ سال بڑھتا ہی گیا۔

تعلیم چھوڑ کر ڈریگن فروٹ کی کاشت

ان کے بیٹے وکاس منڈل تعلیم ادھوری چھوڑ کر اب اپنی فش فارمنگ ہیچری سے متصل کھیت میں ڈریگن فروٹ کاشت کررہے ہیں۔

وکاس منڈل نے کہا: ‘ابھی پوری توجہ ناریل اور ڈریگن پھلوں کی کاشت پر مرکوز ہے۔ اس سال اچھی فصل ہوئی تھی۔ ہمارے پاس 20 ایکڑ کھیت ہیں۔ اب میں اس رقبے کو بڑھانے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔’

کھیتی باڑی اور ماہی گیری کے علاوہ ان پناہ گزینوں نے دوسرے کاروبار میں بھی اپنا ہاتھ آزمایا۔ کاپسی قصبے میں کھاد اور بیج کی دکان چلانے والے سریش ہلدارکہتے ہیں: ‘پہلے ہر روز میں ایک سائیکل پر دو کوئنٹل سامان لے کر گاؤں گاؤں 90 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتا تھا۔ روزمرہ کی چیزیں، ہلدی، مصالحہ جیسی چیزیں بیچتے تھے۔ کئی بار پانچ پانچ دریا عبور کرنا پڑتے تھے۔ کئی بار دو دو دن تین تین دن تک قبائلی گاؤں میں راتیں گزارنی پڑتی تھی۔

تقریبا 15 سال قبل اس نے کھاد اور بیج کا کاروبار شروع کیا تھا اور رفتہ رفتہ کاروبار چل نکلا۔

کھاد اور بیجوں سے سالانہ لاکھوں کا کاروبار

آج ان کے پاس بڑے کاپسی کی مرکزی سڑک پر تقریبا 1400 مربع فیٹ کی دکان ہے جہاں وہ بیج کھاد اور جراثیم کش ادویات فروخت کرتے ہیں۔

سالانہ کاروبار کے سوال پر وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں: ‘جناب یہ ایک بہت چھوٹی سی جگہ ہے پھر بھی سال کے کاروبار میں 40-50 لاکھ روپے مل جاتے ہیں۔’

سریش ہلدار کی ایک بیٹی اور بیٹا ہے جو رائے پور میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ہلدار چاہتے ہیں کہ ان کے بچے بڑے ہوں اور سرکاری نوکری کریں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کی ترجیح سرکاری نوکری نہیں ہے۔

پی وی 34 کی رہائیشی انجنا دیوناتھ چاہتی ہیں کہ ان کا بیٹا اپنے کاروبار میں قسمت آزمائے۔ انجنا کے شوہر کاشتکاری کرتے ہیں۔ بیٹی نے تعلیم مکمل کر لی ہے اور لڑکے کی تلاش جاری ہے۔ لیکن ان دنوں ان کا پورا کنبہ فش فارمنگ میں مصروف ہے۔

جب انجنا کے 18 سالہ بیٹے نے 12 ویں پڑھائی کے بعد مچھلی کے زیرے کے کاروبار میں جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو پورا خاندان تیار ہو گيا۔

انجنا کا کہتی ہیں: ‘اس سال ہم نے پہلی بار مچھلی کے زیرے کا کام شروع کیا ہے۔ ڈر تو تھا لیکن اس سے بات بننے والی نہیں تھی۔ میں چاہتی ہوں کہ میرا بیٹا اس کاروبار کو بہت اچھے طریقے سے پھیلائے۔’

راستے میں ہماری ملاقات سچن وشواس سے ایک پگڈنڈی پر ہوئی۔

فلسفیانہ انداز میں بہت ہی دلچسپ بات کرنے والے سچن وشواس نے مشرق کی جانب ہاتھ اٹھا کر کہا: ‘ہمارے بابا-پربابا کی جائے پیدائش ادھر ہی تھی۔ ہم وہاں سے آئے تھے۔ اب یہ ہماری سرزمین ہے۔ یہاں بھی ہم نے مشرق جیسی ہی روشنی پھیلا دی ہے۔

پرل کوٹ کا یہ علاقہ کیسے آباد ہوا؟

مرکزی حکومت نے 12 ستمبر 1958 کو مشرقی پاکستان سے آنے والے پناہ گزینوں کے ایک بڑے حصے کو ایک ‘پروجیکٹ’ کے تحت جن علاقوں میں آباد کرنے کا فیصلہ کیا ان میں وسطی مدھیہ پردیش میں بستر اور اوڈیشہ میں ملکانگیری شامل تھے۔

سنہ 60 ور 70 کی دہائی میں گنجان جنگلات کے بستر میں پکھانجور پرل کوٹ کے اس حصے میں مہاجرین کے لیے 133 گاؤں بسائے گئے۔ جنھیں پرل کوٹ ولیج (پی وی) کا نام دیا گیا۔ ان گاؤں کے نام پی وی 1، پی وی 2، پی وی 3 کی طرح ہندسوں پر رکھا گيا۔

لیکن جب لوگوں کی باز آبادکاری شروع ہوئی تو مشرقی پاکستان سے ہندوستان آنے والے لوگوں نے یہاں رہنے سے انکار کردیا۔ تقریبا 80 فیصد خاندان یہاں سے مغربی بنگال چلے گئے۔ مشکل سے انھیں سمجھا کر یہاں واپس لایا گیا۔

پکھانجور کے معمر شخص پربھوناتھ منڈل کا کہنا ہے کہ ‘نہ تو مکان تھا، نہ کھیت۔ پانی، سڑک، دوا، سکول، کچھ بھی نہیں تھا۔’

پانچ اپریل سنہ 1960 کو بنگالی اخبار ‘یوگانتر’ نے ان مہاجرین کی حالت زار پر ‘موت یا نجات’ کے عنوان سے ایک ادارتی مضمون لکھا۔

دراصل یہ علاقہ مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال سے 850 کلومیٹر دور تھا اس لیے برسوں تک پسماندہ رہا اور ترقیاتی پروجیکٹ پر کام سست روی کا شکار رہا۔

گذشتہ 60 سالوں کی پرانی رپورٹوں، پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات اور سرکاری دستاویزات کو دیکھ کر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مشرقی پاکستان (آج بنگلہ دیش) سے بے گھر ہونے والے افراد کی بازآبادکاری میں ہر مرحلے پر لاپرواہی برتی گئی۔ زیادہ تر وعدے فائلوں میں دفن رہے۔ بہت ساری اسکیموں کا فائدہ بھی کاغذات تک محدود رہا۔

پی وی 34 میں رہنے والی شانتی کہتی ہیں: ‘باہر سے لاکر بسائے جانے والے ہم لوگوں نے اسے اپنا مقدر سمجھ لیا اور پھر اسے سنوارنے میں لگ گئے۔ ہم نے محنت میں دن رات ایک کر دیا۔ آج تو پکھانجور پورے ملک میں کھیتی باڑی اور ماہی گیری کے لیے مشہور ہوچکا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp