ٹرمپ کا دورہ بھارت: پاکستان سے دوستی یا بھارتی مؤقف کی تائید


پاکستانی میڈیا نے شہ سرخیوں میں صدر ٹرمپ کا یہ اعلان اپنے قارئین اور سامعین تک پہنچایا ہے کہ ’امریکہ کے پاکستان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں‘۔ یہ پیغام بھارت پہنچنے کے پہلے ہی روز احمد آباد کے ایک شاندار جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے دیا گیا ہے۔ تاہم اسے پاکستان سے دوستی سے زیادہ بھارت کے اس مؤقف کی تائید سمجھنا چاہئے کہ پاکستانی سرحدوں پر دہشت گرد تیار ہوتے ہیں جو بھارت میں بھی تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس تقریر کے بعد پاکستانی حکومت، وزارت خارجہ، وزیر اعظم اور فوج کو مل کر اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ کیا صدر ٹرمپ کی قیادت میں ا مریکہ پاکستان کا دوست اور خیر خواہ ہے یا وہ اسے صرف اپنے مفاد کے لئے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

بھارت کے دورہ سے پہلے صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ کے دوران ڈیوس اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات سے پہلے اور دوران پاکستان نے صدر ٹرمپ کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ فروری میں بھارت کا دورہ کرتے ہوئے تھوڑی دیر کے لئے پاکستان میں بھی قیام کرلیں تاکہ یہ بات واضح ہوسکے کہ امریکہ برصغیر کی دو ایٹمی طاقتوں کو یکساں اہمیت دیتا ہے۔ اس طرح افغان امن معاہدہ کے سلسلہ میں پاکستان کا کردار بھی نمایاں ہوسکے گا اور دونوں ملک ماضی قریب میں پیدا ہونے والی تلخیوں کو بھلا کر خوش گوار تعلقات کا آغاز کرسکیں گے۔ تاہم صدر ٹرمپ نے اس تجویز کو نرمی سے مسترد کردیا اور وزیر اعظم عمران خان کی توصیف کرنے اور انہیں عظیم لیڈر اور اپنا بہترین دوست قرار دینے کے باوجود یہ واضح کردیا کہ وہ دورہ بھارت کے دوران اپنے پروگرام میں پاکستان میں رکنے کا وقت نہیں نکال سکتے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس انکار کو اگر پاکستان کی خارجہ حکمت عملی کی ناکامی نہ بھی کہا جائے تو بھی اس کے بعد پاک امریکہ تعلقات کا ازسر نو جائزہ لینے اور اپنی سفارتی پوزیشن اور آپشنز کو حقیقت پسندانہ طریقے سے دیکھنے کی ضرورت تھی۔ اس کے برعکس پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پہلے تو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے پیرس اجلاس سے پہلے گرے لسٹ سے پاکستان کا نام ہٹانے میں امریکی امداد کی نوید سناتے رہے تاہم گزشتہ ہفتہ کے دوران ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کی بجائے اس سے آئیندہ چار ماہ میں ان تمام شرائط کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جن پر عمل درآمد دہشت گردی کی مالی معاونت کے خاتمہ کے لئے ضروری کہاجاتاہے۔

 اس سفارتی ہزیمت اور امریکی تعاون کا سہارا تلاش کرنے میں ناکام ہونے کے باوجود پاکستانی وزیر خارجہ نے اپنی خوش کلامی اور مبالغہ آمیز پیش گوئیوں کا سلسلہ بند نہیں کیا۔ اس ویک اینڈ پر افغانستان میں جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ ہی ایک طویل بیان میں شاہ محمود قریشی نے افغان امن معاہدہ کے حوالے سے پاکستانی کردار کی کچھ ایسی تصویر پیش کی جس سے یہ تاثر قوی ہوتا ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر امریکہ، افغان طالبان کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت کا سفر طے نہیں کرسکتا تھا۔ بیان کے مطابق پاکستان نے ہی طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ کا سارا ہوم ورک کیا اور اس کا بنیادی ڈھانچہ تیار کرکے دیا۔ یہ بیان خوش فہمی کے علاوہ شاہ محمود قریشی کی ناکام سفارت کاری کا شاہکار کہا جاسکتا ہے۔

اس بیان میں پاکستانی وزیر خارجہ نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کی اس دھمکی کے بعد اقدام کیا تھا کہ اگر وہ امریکہ سے تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے تو اس کا راستہ کابل سے ہوکر گزرتا ہے۔ یعنی امریکہ نے پاکستانی قیادت پر واضح کردیا تھا کہ اگر پاکستان نے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور تشدد سے گریز پر آمادہ نہ کیا تو دونوں ملکوں کے تعلقات خوشگوار نہیں ہوسکتے۔ حالانکہ پاک امریکہ تعلقات کا افغانستان میں امریکی جنگ جوئی اور غلطیوں سے بظاہر کوئی تعلق نہیں ہوسکتا تھا۔

پاکستان ایک دہائی سے زیادہ مدت تک یہ اعلان کرتا رہا ہے کہ اس کا افغان طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران تو شدت سے اس بات پر اصرار کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستانی علاقوں میں طالبان کی حمایت کرنے والے تمام انتہا پسند گروہوں اور ان کے ٹھکانوں کو ختم کیا جاچکا ہے۔ اس دوران پاکستانی لیڈر یہ باور کروانے کی کوشش بھی کرتے رہے تھے کہ افغان طالبان ایک خود مختار طاقت ہیں اور پاکستان کا ان پر کوئی خاص اثر و رسوخ نہیں ہے۔ انہوں نے افغانستان کے وسیع علاقوں پر قبضہ کررکھا ہے جو ان کی آمدنی اور طاقت کی بنیاد ہے۔ ایسے میں پاکستان، طالبان کو مذاکرات یا امن پر آمادہ کرنے کے لئے کوئی قابل ذکر کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہے۔

پھر اچانک یہ حکمت عملی تبدیل ہوگئی اور پاکستان بڑھ چڑھ کر یہ کریڈٹ لینے کی کوشش کرتا رہا کہ اس کی وجہ سے طالبان نے دوحہ میں امریکہ سے براہ راست مذاکرات شروع کئے ہیں۔ اب شاہ محمود قریشی نے یہ بتا کر دنیا کو حیران کردیا ہے کہ 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان جو ممکنہ معاہدہ ہوگا، اس کا بنیادی خاکہ پاکستان نے ہی تیار کیا تھا۔ تاہم اس بیان میں اس وقت شاہ محمود قریشی کی بیچارگی عیاں ہوگئی جب انہوں نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کے حوالے سے بتایا کہ پومپیو نے ان سے کہا تھا کہ اسلام آباد کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کا راستہ کابل سے ہوکر گزرتا ہے۔ اس بیان کے ذریعے شاہ محمود قریشی نے امریکہ کے سامنے یہ عرض داشت پیش کی تھی کہ افغان طالبان کو معاہدے پر آمادہ کرنے میں ہم نے ’خدمت گزاری‘ میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اس لئے اب امریکہ بھی پاکستان کے مفادات کا خیال رکھے۔

امریکہ سے وابستہ پاکستانی مفادات کی فہرست بہت مختصر ہے۔ پاکستان نے اب یہ تسلیم کرلیا ہے کہ بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے امریکی تعلقات اور پاک چین دوستی کے تناظر میں امریکہ اب پاکستان کو مزید عسکری امداد فراہم نہیں کرے گا۔ یہ امداد صدر ٹرمپ نے تین برس پہلے اقتدار سنبھالنے کے بعد بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ البتہ پاکستان، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اور آئی ایم ایف کے حوالے سے امریکی تعاون کا خواہاں ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے حالیہ فیصلہ سے واضح ہؤا ہے کہ امریکہ فی الحال پاکستان پر پوری طرح اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ پاکستان کی دوسری اور سب سے بڑی خواہش یہ رہی ہے کہ امریکی صدر کشمیر کے سوال پر پاکستانی مؤقف کی جزوی حمایت کردیں اور مقبوضہ کشمیر میں لگائی جانے والی پابندیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کوئی نرم سا ہی بیان دے دیں۔ صدر ٹرمپ اس کے برعکس عمران خان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا کر اور کشمیر پر ’ثالث‘ کا کردار ادا کرنے کا اعلان کرکے پاکستان کا دامن امید سے بھر تے رہے ہیں۔

افغان امن معاہدہ کے لئے کردار ادا کرنے پر پاکستان کو بجا طور سے امریکہ سے یہ توقع رکھنی چاہئے تھی کہ صدر ٹرمپ بھارت کے دورہ کے دوران مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر بات کریں گے اور وہاں پر عائد کی گئی پابندیوں کو مسلمہ عالمی قوانین و روایات کے برعکس قراردیں گے۔ اس کے علاوہ اس دورہ کے دوران امریکی صدر بھارتی قیادت سے یہ تقاضہ کرسکتے تھے کہ اسے پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی غیر مشروط پیش کش کو قبول کرنا چاہئے تاکہ دونوں ممالک باہمی اختلافات کا حل تلاش کرسکیں اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کم ہوسکے۔

اس کے برعکس بھارت پہنچنے کے پہلے ہی دن جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے پاکستان سے بہتر تعلقات کی یہ وجہ بتائی ہے کہ پاکستان نے اپنی سرحدوں میں دہشت گردوں اور انتہاپسند گروہوں کے خلاف امریکی ہدایات کے مطابق کارروائی کی ہے۔ اس لئے انہیں امید ہے کہ ان اقدمات سے جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہوگی اور علاقے میں پائیدار امن قائم ہوسکے گا۔ یہ بیان دراصل بھارت کے اس مؤقف کی بالواسطہ تائید کے مترادف ہے کہ پاکستان جب تک دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی بند نہیں کرتا، اس وقت تک اس کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق استوار نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی بات چیت ہوسکتی ہے۔ صدر ٹرمپ کی اس تقریر کے بعد پاکستان کے خلاف بھارتی حکومت کے مؤقف میں زیادہ شدت آسکتی ہے اور وہ ٹرمپ کی تقریر کو دلیل کے طور پر پیش کرسکتی ہے۔

دہشت گردی کے خلاف کارروائی کا حوالہ دینے کے علاوہ امریکی صدر نے پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے خطے میں امن کے لئے پاکستان کی کوششوں کا کوئی ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ نہ ہی انہوں نے افغان امن معاہدہ کے لئے پاکستان کے اس ’عظیم الشان‘ کردار کا کوئی ذکر کیا ہے جس کی تفصیل شاہ محمود قریشی نے دو روز پہلے ہی ایک تفصیلی بیان میں جاری کی تھی۔ احمد آباد میں کی جانے والی تقریر میں ٹرمپ نے شہریت بل کے خلاف ملک گیر احتجاج اور اس قانون کے انتہاپسندانہ اور مذہبی امتیازی پہلو پر بھی کوئی بات نہیں کی حالانکہ عام طور سے یہ امید کی جارہی تھی کہ امریکی صدر اس اہم معاملہ پر تبصرہ کریں گے۔

صدر ٹرمپ نے بھارتی عوام،حکومت اور نریندر مودی کی تعریفیں کرتے ہوئے انہیں امریکی وفاداری کا یقین دلایا ہے اور بھارت کو ڈرون، میزائل سسٹم اور ہیلی کاپٹر فروخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان اس سودے پر شدید تحفظات کا اظہار کرچکا ہے اور اس کا مؤقف ہے کہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑے گا۔ امریکہ کے سرمایہ دار صدر کے لئے البتہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات اور امریکی معیشت کے حوالے سے فیصلےکرنا اہم ہے۔

صدر ٹرمپ منگل کو نئی دہلی سے واپس روانہ ہوجائیں گے۔ یہ ایک دن تجارتی معاہدہ پر اتفاق رائے کرنے اور دیگر رسمی تقریبات میں گزر جائے گا۔ اس دورہ سے پاکستان کی کوئی امید پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی اور نہ ہی کشمیر کا معاملہ عالمی ایجنڈے پر لانے کے لئے ٹرمپ کوئی تعاون کرنے پر آمادہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments