ٹرمپ کا دورہ: انڈیا اور امریکہ میں کیسا تجارتی معاہدہ ہو سکتا ہے؟


انڈیا

امریکی صدر انڈیا کے پہلے دورے پر ہیں اور انڈیا متعدد سیاسی اور تجارتی وجوہات کی وجہ سے اس وقت دنیا کے طاقتور ترین شخص کی میزبانی کرنے پر کافی پر جوش ہے۔

اس دورے کے حوالے سے یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ دونوں ممالک میں تجارتی تعلقات کے لیے کافی اہم ہیں اور 10 ارب ڈالر سے زائد کا ایک تجارتی معاہدہ بھی طے ہو سکتا ہے۔ تاہم میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا ہے کہ امریکہ زیادہ بڑا تجارتی معاہدہ ابھی بچا کر رکھے گا کیونکہ امریکہ انتخابات سے قبل یا بعد میں یہ معاہدہ کرے گا۔

امریکہ کے تجارتی نمائندے رابرٹ لائٹزر نے گذشتہ ہفتے انڈیا کا اپنا دورہ منسوخ کر دیا تھا کیونکہ فریقین میں کچھ معاملات پر اختلافات تھے۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا ’انڈیا نے ہمارے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا تاہم مجھے وزیر اعظم مودی بہت پسند ہیں۔‘

گذشتہ تین برسوں میں انڈیا اور امریکہ کے تعلقات کافی نشیب و فراز نظر آئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

صدر ٹرمپ انڈیا کے دورے سے کیا حاصل کریں گے؟

امریکہ کا انڈیا سے ترجیحی تجارت ختم کرنے کا ’فیصلہ‘

’سٹیل پر ڈیوٹی عائد کرنا امریکہ کے لیے بھی نقصان دہ‘

امریکہ اور انڈیا کے درمیان تجارتی تنازع ہے کیا؟

چین کے بعد امریکہ انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی حلیف ہے۔ دونوں میں باہمی تجارت سنہ 2018 میں ریکارڈ 142.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ امریکہ نے انڈیا کے ساتھ سنہ 2019 میں مختلف اشیا کی 23.2 ارب ڈالر کی تجارت کی۔ انڈیا اس کا نواں بڑا تجارتی حلیف ہے۔

گذشتہ تین برسوں میں انڈیا اور امریکہ کے درمیان تجارت کے معاملے میں کشیدگی بڑھتی نظر آئی ہے۔ اگرچہ انڈیا کا تجارتی خسارہ امریکہ کے چین سے تجارتی خسارہ کے دسویں حصے سے بھی کم رہ گیا تاہم دہلی بھی واشنگٹن کے غصے سے بچ نہیں پایا۔

امریکہ اور انڈیا میں تجارتی جنگ اس وقت بڑھک اٹھی جب ٹرمپ انتظامیہ نے انڈیا سے آنے والے سٹیل پر 25 فیصد اور ایلومونیم پر 10 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی۔ آئندہ چند ماہ میں اس فیصلے پر عمل درآمد تک انڈیا نے کئی بار امریکی حکام سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کی لیکن کوئی جوابی اقدام نہیں اٹھائے۔ امریکی صدر نے سرعام کہا کہ انڈیا امریکہ سے درآمد کردہ چیزوں کو بہت مہنگا فروخت کرتا ہے اور اسے ’ٹیرف کنگ آف دی ورلڈ‘ یعنی دنیا میں سب سے زیادہ محصول لگانے والا کہا۔

انڈیا نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایسی 28 اشیا پر محصولات عائد کر دیں جو امریکہ میں بنائی اور برآمد کی جاتی ہیں۔ یہ 16 جون سنہ 2019 سے لاگو ہیں۔ امریکہ اس معاملے کو عالمی ادارہ تجارت میں لے گیا۔

دونوں ممالک میں تجارتی مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے تو امریکہ نے ای-کامرس پر عدم اتفاق کے بعد انڈیا کے لیے ایچ ون بی ویزہ کے کوٹہ کو بھی 15 فیصد کم کر دیا اور سیکشن 301 کے تحت انڈیا کی جانب سے پیدا کی جانے والی تجارتی رکاوٹوں کے متعلق تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ امریکہ کے مطابق یہ تجارتی رکاوٹیں محصول لگا کر یا پھر بغیر اس کے کھڑی کی جا رہی تھیں۔

13 نومبر سنہ 2019 کو انڈیا کے وزیر برائے تجارت پیوش گوئل اور امریکی تجارتی نمائندہ رابرٹ لائٹزر نے ملاقات کی تاکہ اس کمرشل معاہدے کو شروع کیا جا سکے۔ نومبر کے آخر میں امریکہ سے ایک کمیٹی انڈیا آئی تاکہ اپنے انڈین ہم منصبوں کے ساتھ ایک مجوزہ معاہدے پر بات کر سکے۔

جرمنی سٹیل مل

امریکی تجارتی نمائندہ رابرٹ لائٹزر جو اس تجارتی بات چیت کی قیادت کر رہے تھے اس بار صدر ٹرمپ کے ہمراہ آنے والے وفد کا حصہ نہیں ہیں۔

رواں ماہ کے اوائل میں لائٹزر نے اپنا انڈیا کا دورہ بھی منسوخ کیا حتکہ انڈیا نے امریکہ کے اس کی دودھ اور پولٹری کی مصنوعات تک رسائی کے لیے نئے منصوبے بھی پیش کیے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک میں تجارت اور کاروبار کے حوالے سے اختلافات کس قدر شدید ہو چکے ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے سے قبل امریکہ نے انڈیا کو ایسے ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے خارج کر دیا جنھیں اس چیز سے استثنیٰ حاصل ہے کہ وہ اپنی برآمدات پر ناجائز رعایتی نرخوں کی وجہ سے امریکی صنعت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ امریکہ نے انڈیا کو اس فہرست سے اس لیے نکالا کیونکہ انڈیا جی 20 ممالک میں شامل ہے اور دنیا کی تجارت کا 0.5 فیصد حصہ ہے۔

امریکہ کے اس اقدام سے جی ایس پی (جنرلائزیشنڈ سسٹم آف پریفرنسز) زمرے میں واپس آنے کی انڈیا کی کوششوں کو دھچکا پہنچا ہے۔ اس زمرے میں شامل ممالک کو ترجیح دی جاتی ہے اور دیگر فوائد ملتے ہیں اور اس میں عام طور پر ترقی پذیر ممالک کو رکھا جاتا ہے۔

جی ایس پی انڈیا کے لیے اہم ہے کیونکہ اس کے تحت انڈیا کی کچھ مخصوص مصنوعات امریکہ کی مارکیٹ میں ڈیوٹی فری کے طور پر داخل ہوسکتی ہیں لیکن یہ فائدہ پانچ جون سنہ 2019 سے ختم ہو گیا ہے جبکہ امریکہ کی ڈیری اور طبی آلات کی صنعت کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے لگائے جانے والے تجارتی محصول کے سبب ان کی برآمدات متاثر ہو رہی ہیں۔

انڈیا میں کامرس اور صنعت کی وزرات میں سابق یونین سیکریٹری اجے دوآ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’فریقین کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کی وجہ سے دونوں ممالک میں تلخیاں پیدا ہوئیں ہیں۔ ‘

امریکہ-انڈیا سٹریٹجک پارٹنرشپ فورم کے صدر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر مکیش آگھی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹرمپ کی جانب سے محصولات میں اضافے سے جن اشیا کی تجارت سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے ان میں اپلائنسز، مکینیکل اور الیکٹریکل مشینری، کیمیکلز، سٹیل اور گاڑیوں کے پرزے شامل ہیں جس کی وجہ سے انڈین برآمدات کا امریکی بازاروں تک پہنچنا مشکل ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انڈیا کے ردعمل سے امریکہ سے درآمد کیے جانے والے پھلوں اور میوہ جات کی تجارت سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ کیلیفورنیا سے آنے والے بادام اور اخروٹ اور واشنگٹن کے سیب اس سےمتاثر ہوئے ہیں۔

انڈیا

انڈیا کیا چاہتا ہے؟

انڈیا کی خواہش ہوگی کہ اس کی جی ایس پی والی رعایت بحال کی جائے اور ایچ ون بی ویزہ کے ضوابط کو بھی نرم کیا جائے۔

روئٹرز کے مطابق دوسری جانب امریکہ چاہے گا کہ اسے انڈیا کی ڈیئری کی مارکیٹ تک زیادہ سے زئادہ رسائی ملے۔ وہ چاہتے ہیں کہ نہ صرف طبی آلات پر بھی محصول کم کیا جائے بلکہ ہارلے ڈیوڈسن بائکس پر بھی محصولات کم کیے جائیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر مکیشن آگھی نے کہا ’ایک جزوی معاہدہ آغاز کے لیے اچھا رہے گا تاکہ مستبقل میں آزادانہ تجارت کے لیے پالیسی سازوں کو معیشت میں بہتری لانے کا ایک پلیٹ فارم ملے گا۔ اگر ہم اسے انڈسٹری کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو اس معاہدے سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں بہتری آئے گی۔

آگھی نے کہا کہ کسی بھی پارٹی کی ‘پروٹیکشنزم’ سے نقصان پہنچے گا اور دونوں ممالک نے مل کر اب تک جو ترقی کی ہے وہ رک جائے گی۔

یہ مشکل کیوں ہے؟

امریکہ اور انڈیا کے درمیان متعدد امور پر تصادم ہے ۔ فیڈریشن آف انڈین ایکسپورٹ آرگنائزیشن (ایف آئی ای او) کے ڈائریکٹر جنرل اجے سہائے کا کہنا ہے کہ ‘امریکہ ہارلی ڈیوڈسن بائیک، الیکٹرانک اور آئی ٹی اے کی مصنوعات پر اضافے کے نرخوں، طبی سازو سامان کی قیمتوں پر کنٹرول، ڈیئری مارکیٹ تک رسائی کم کرنے، اور ڈیٹا لوکلائزیشن کے بارے میں فکر مند ہے۔’

امریکہ کے ڈیئری تاجر اپنی مصنوعات انڈیا میں بیچنا چاہتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے جانوروں کو بلڈ فوڈ (خون سے تیار کردہ کھانا) کھلاتے ہیں اور یہ انڈین صارفین کے مذہبی جذبات کے منافی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق ان مصنوعات کی درآمد سے قبل انڈیا امریکہ سے یہ سند چاہتا ہے کہ وہ مصنوعات صاف ستھری ہوں۔

آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے ریسرچ فیلو کشش پرپیانی کا کہنا ہے کہ انڈیا اور امریکہ کے درمیان اس معاملے پر اب تک کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا ہے۔

حال ہی مین نیشنل کسان فیڈریشن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک طرف مرکزی حکومت سنہ 2022 تک کسانوں کی آمدنی کو دگنا کرنے کا دعوی کررہی ہے اور دوسری طرف وہ ایسا تجارتی معاہدہ کرنے کو تیار ہے جس کے اثرات صرف کسانوں پر ہی پڑیں گے۔

اس معاہدے کے نتیجے میں ہرسال 42،000 کروڑ کی زراعتی، ڈیئری اور پولٹری کی مصنوعات امریکہ سے درآمد کی جائیں گی۔’

نیشنل فارمرز فیڈریشن نے امریکہ اور ہندوستان کے مابین تجارتی معاہدے کے خلاف حکومت کو متنبہ کرنے کے لیے 17 فروری کو ملک گیر احتجاج کا انعقاد کیا۔

دو فروری کو پیش کیے جانے والے بجٹ میں مرکزی حکومت نے امریکہ سے درآمد کیے جانے والے طبی آلات پر اضافی فیس عائد کردی ہے جو کہ پہلے ہی دونوں ممالک کے مابین تنازع کی وجہ تھی۔

ایڈوانسڈ میڈیکل ٹیکنالوجی ایسوسی ایشن کے نائب صدر ایبی پریٹ نے اپنے ایک بیان میں طبی آلات پر ٹیکس پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ بجٹ کے اعلانات سے نیا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔

روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت گھٹنوں اور دل کی پیوند کاری میں استعمال ہونے والے آلات پر عائد ‘قیمتوں کےکنٹرول’ کو بھی ہٹانا چاہتی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ٹرمپ نے ‘بڑے تجارتی معاہدے’ پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا تو بھی یہ نہیں ہوسکے گا۔

جلد یا بدیر ہونے والے دس ارب امریکی ڈالر کے تجارتی پیکیج سے دونوں ممالک کے تمام باہمی مسائل حل نہیں ہوں گے۔

تاہم یہ قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں کہ گذشتہ دو تین سالوں کے دوران جو دونوں ممالک کے مابین تلخیاں بڑھی ہیں وہ کم ہوں گی اور ایک ایسی مثال قائم کریں گی جس سے جس سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا۔

آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کی کشش پرپیانی نے کہا کہ ‘زیر التو تجارتی معاہدے سے کچھ فائدہ ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر انڈیا کو جی ایس پی کے فوائد پھر سے دیے جانے کے بدلے میں امریکی زراعت اور آئی سی ٹی مصنوعات کی انڈین منڈیوں تک رسائی زیادہ ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp