عورت مارچ کے خلاف عدالت میں درخواست سماعت کے لیے منظور


2019 عورت مارچ

گزشتہ برس عورت مارچ کے شرکا نے عورتوں کے حقوق کے بارے میں کتبوں پر مختلف نعرے متعارف کروائے

پاکستان میں لاہور ہائی کورٹ نے آئندہ ماہ ہونے والے عورت مارچ کو رکوانے کے لیے دائر درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے فریقین سے جواب طلب کر لیا ہے۔ مقدمہ کی سماعت بدھ کے روز متوقع ہے۔

لاہور کے شہری منیر احمد کی جانب سے دائر کردہ درخواست کے دو حصے ہیں۔

عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وفاقی حکومت اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی یا پی ٹی اے کو سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے حال ہی میں ترتیب دیے جانے والے قانون ‘سیٹیزن پروٹیکشن (اگینسٹ آن لائن ہارم) 2020’ کو باضابطہ لاگو کرنے کا حکم دیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ‘ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے جس کے ذریعے اس قانون پر موزوں اور فوری عملدرآمد ممکن بنایا جائے۔’

ساتھ ہی عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ حکومت پنجاب کو ‘پنجاب ریڈ زون ایکٹ 2018 نافذ کرنے کی ہدایت دے جس کے ذریعے عورت مارچ جیسے مظاہروں پر قابو پایا جا سکے گا۔

درخواست گزار عورت مارچ کیوں رکوانا چاہتا ہے؟

درخواست گزار کے مطابق عدالت سے التجا کی گئی ہے کہ 8 مارچ کو عورتوں کے عالمی دن یا ‘عورت مارچ’ کے موقع پر سینکڑوں خواتین ایک مرتبہ پھر مارچ کریں گی۔ انہوں نے ایسے بینر اٹھا رکھے ہوں گے جن پر درج پیغامات سے ‘انتشار اور فحاشی’ عیاں ہوتی ہے۔

عورت مارچ 2019

درخواست گزار کے مطابق ‘ایسی خواہشات کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہوئے چند عورتیں، مرد اور ہم جنس پرست افراد ایسا ماحول قائم کرنا چاہتے ہیں جو ان پر روایتی اور اخلاقی پابندی نہ لگائے اور انہیں نام نہاد رجعت پسندانہ (اسلامی) اقدار سے آزاد کرے۔’

اپنے وکیل اظہر صدیق کے ذریعے دائر درخواست میں منیر احمد کا کہنا ہے کہ عورتوں کا عالمی دن منانے کا حقیقی مقصد خواتین کے نمایاں کارناموں کو سراہنا اور ان خواتین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنا ہے جو دنیا میں مظالم، امتیاز، جہالت اور گھریلو تشدد کے خلاف جدوجہد کر رہی ہیں۔’لیکن اس دن کا مقصد یہ نہیں کہ تمام تر حدیں عبور کی جائیں یا مردوں کو تنقید اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا جائے۔’

ان قوانین کے نفاذ سے عورت مارچ کیسے رک سکتا ہے؟

درخواست گزار کے مطابق سنہ 2019 کے تجربے سے دیکھا جا سکتا ہے کہ ‘عورت مارچ ایک ریاست مخالف کارروائی ہے۔’ ان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کے علم میں آیا ہے کہ وہ قوتیں آئندہ ماہ کی 8 تاریخ کو ایک مرتبہ پھر ‘عورت مارچ’ منانے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔

‘اس کے لیے بھاری فنڈ بھی جمع کیے جا چکے ہیں جو ان قوتوں کی طرف سے دیے گئے ہیں جن کا خفیہ ایجنڈا ملک کو غیرمستحکم کرنا ہے اور یہ کارروائی سوشل میڈیا کے ذریعے نشر کی جائے گی۔’

اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے درخواست میں لکھا ہے کہ اگر سوشل میڈیا کو ریگولیٹ نہ کیا گیا تو ‘ریاست مخالف دن کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا کو بھر پور طریقے سے استعمال کیا جائے گا۔’

ساتھ ہی اگر پنجاب ریڈ زون 2018 کا نفاذ پنجاب بھر میں کیا جاتا ہے تو اس کے ذریعے ‘عورت مارچ جیسے مظاہروں کو بنیادی آئینی حقوق کے ساتھ ہی قابو کرنا آسان ہو گا۔’

یاد رہے کہ حال ہی میں وفاقی کابینہ نے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے مقصد سے پی ٹی اے کے تحت نئے مجوزہ قوانین کی منظوری دی تھی۔ حکومت کے مطابق ان قوانین کا مقصد سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنا ہے۔

‘فحاشی اور انتشار پھیلانے کی تقریب بن کر رہ گئی ہے’

درخواست گزار نے اپنی دلیل کے حق میں یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ ‘ایسی بہت سی ریاست مخالف قوتیں موجود ہیں جو عورت مارچ کی فنڈنگ کرتی ہیں جس کا واحد مقصد عوام میں انتشار پھیلانا ہے۔

عورت مارچ 2019

‘بادی النظر میں پشتون تحفظ موومنٹ اور ان کے حامیوں کا خفیہ ایجنڈا ہے اور وہ عورت مارچ کے بڑے حصے دار ہیں۔’

درخواست گزار کا یہ بھی کہنا ہے کہ ‘عورت مارچ عورتوں کو برابری کے حقوق دلوانے کی جدوجہد سے ہٹ کر فحاشی اور انتشار پھیلانے کی ایک تقریب بن کر رہ گئی ہے۔’

‘آٹھ مارچ کو بھرپور عورت مارچ ہو گا’

عورت مارچ کی رضاکار آمنہ چوہدری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘وہ آٹھ مارچ کو بھرپور طریقے سے عورت مارچ کرنے کے لیے پُر عزم ہیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ وہ فی الحال اس امر پر بیان نہیں دے سکتیں کہ اگر حکومت نے کسی عدالتی فیصلے کے نتیجے میں انہیں مارچ سے روکا تو ان کا آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔

آمنہ چوہدری کا کہنا تھا کہ ان کے مارچ کو روکنے کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ وہ ایک پرامن مارچ ہے اور ان کا آئینی حق ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں دائر درخواست میں سوشل میڈیا پر ان کی کارروائیوں پر پابندی کے حوالے سے بات کی گئی ہے تاہم وہ اس وقت اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتیں کہ مارچ کے شرکا یا منتظمین میں سے کوئی عدالت میں اس درخواست کی مخالفت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے یا نہیں۔

‘عورت مارچ ایک فرد کا نہیں، سب کا ہے’

عورت مارچ کے شرکا اور رضاکاروں کی طرف سے حال ہی میں ایک پوسٹر بنانے کا مقابلہ منعقد کروایا گیا تھا اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے پوسٹر لاہور کے حسین چوک میں آویزاں کر دیے گئے تھے۔

تاہم اسی روز نامعلوم افراد کی جانب سے وہ پوسٹر پھاڑ دیے گئے تھے۔

آمنہ چوہدری کا کہنا تھا کہ انہوں نے ‘حکام سے باقاعدہ اجازت لینے کے بعد وہ پوسٹر آویزاں کیے تھے۔ تاہم پوسٹر لگانے کے چار گھنٹے کے اندر ہی انہیں پھاڑ دیا گیا تھا۔’

ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود عورت مارچ کے حوالے سے پوسٹر آن لائن موجود ہیں اور جو بھی چاہے وہاں سے لے کر پرنٹ کروا کر اپنی قریبی گلی محلے میں آویزاں کروا سکتا ہے۔

‘عورت مارچ پر کسی ایک فرد کی اجارہ داری نہیں ہے، یہ تمام لوگوں کا اجتماعی دن ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32551 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp