#BalakotAirstrikes: ‘ہماری انڈیا پر کوئی واضح اور دور اندیش پالیسی نہیں‘


مدرسہ

مقامی لوگوں کے مطابق حملے کے بعد سے مدرسہ بند ہے اور اب وہاں کوئی بھی موجود نہیں اور نہ ہی وہاں کوئی سرگرمی ہو رہی ہے

پچھلے سال فروری کی 26 تاریخ کو بالاکوٹ میں انڈیا کی طرف سے کیے گئے فضائی حملوں سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خطرناک حد تک متاثر ہوئے اور معاملات اتنے بڑھ گئے کہ دونوں اطراف موجود سیاسی پنڈتوں نے جنگ کے اعلانات کرنے شروع کردیے تھے۔

بالاکوٹ پر کیے گئے فضائی حملوں کی وجہ بنی تھی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں 14 فروری کو ہونے والے وہ خودکش حملے جس میں چالیس انڈین فوجی ہلاک ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم مسلح گروہ جیشِ محمد نے قبول کی جس کے بعد انڈیا نے اس حملے کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے اپنے طیارے بالاکوٹ بھیجے۔

اس واقعے کے ایک سال بعد یہ سوال ذہنوں میں اٹھتا ہے کہ پاکستان کی انڈیا سے متعلق خارجہ پالیسی کتنی مختلف ہوسکتی تھی؟ اور جس طرح سے پاکستان نے انڈیا کا مختلف بین الااقوامی فورمز پر سامنا کیا وہ صحیح تھا اور اگر نہیں تو پھر مزید کا کیا جاسکتا تھا؟

اس بارے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ جہاں انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کو انتخابات میں بالاکوٹ کے فضائی حملوں کی وجہ سے بھرپور مدد حاصل ہوئی وہیں پاکستان میں پہلی مرتبہ اداروں نے یکجا ہوکر انڈیا کے الزامات کا سامنا کیا اور جواب بھی دیا۔

لیکن ساتھ ہی اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کی انڈیا سے منسلک پالیسی پر اب بھی نظرِ ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

بالاکوٹ حملے اور اس حوالے سے مزید جاننے کے لیے پڑھیے

بالاکوٹ فضائی حملہ: وہ سوال جن کے جواب نہیں مل سکے

مدرسہ تعلیم القرآن اور بالاکوٹ وادی کا گمشدہ استعارہ

بالاکوٹ: جابہ میں ایک برس بعد بھی ان دیکھے خوف کا راج

https://www.facebook.com/bbcurdu/videos/2663739603752236/

‘پاکستان کے تمام ادارے ایک صفحے پر’

انڈیا کے جنگی طیاروں نے نے پاکستان کی بین الاقوامی سرحد پار کرکے خیبر پختونخواہ کے علاقے مانسہرہ کے گاؤں جابہ پر دو فضائی حملے کیے۔

البتہ اس حملے کے نتیجے میں، بقول سابق ڈی جی آئی ایس پی آر، میجر جنرل آصف غفور کے، سوائے ‘ایک بیچارے کوّے اور چند درختوں کے علاوہ’ مزید کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

جابہ

انڈین حملے سے ایک ایکڑ سے زیادہ علاقے کو نقصان پہنچا جہاں چیٹر کے 19 درخت گر گئے

لیکن اس حملے کے فوراً بعد پاکستان کی فوج نے علاقے کا گھیراؤ کرلیا جس کے نتیجے میں حملے کی تفصیلات سامنے آنے میں وقت لگا۔

اس واقعے کے کچھ عرصے بعد بین الاقوامی صحافیوں کو حملے کے مقام پر لے جایا گیا اور انھیں وہاں پر موجود مدرسے کا بھی دورہ کروایا گیا۔

سنہ 1971 کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ انڈیا نے پاکستان پر براہِ راست حملہ کیا ہو۔

بارہ ماہ گزرنے کے بعد انڈیا آج بھی اپنے دعوے پر قائم ہے کہ پاکستان پر حملے کا سبب وہاں پر موجود جہادی ٹریننگ کیمپ ہے، جو کئی برس سے موجود ہے۔

لیکن ان کا دوسرا دعویٰ کہ حملے کے نتیجے میں ‘جہادیوں کی بھاری نفری’ ہلاک ہوئی ہے، آج تک ثابت نہیں ہوسکا اور نہ ہی اس بارے میں انڈیا کی طرف سے کوئی ٹھوس ثبوت پیش کیےگئے ہیں۔

بالاکوٹ حملے کے بارے میں بات کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز سے منسلک سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ‘یہ ہمارے لیے ایک بہترین لمحہ تھا جہاں پہلی بار پاکستان کی فوج، سیاستدان اور پارلیمان سب ایک پیج پر تھے۔’

انھوں نے کہا کہ انڈیا نے ایک ایسے معاملہ پر جس میں پاکستان کا ہاتھ نہیں تھا اُس کو بنیاد بنا کر پاکستان پر سیاسی، سفارتی اور فوجی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔

‘بالاکوٹ پاکستان کی حدود میں شامل ہوتا ہے اور یہ کوئی لائن آف کنٹرول نہیں ہے۔ بلکہ بین الاقوامی سرحد ہے جس کی انڈیا نے خلاف ورزی کی۔ہم نے 24 گھنٹوں کے اندر جواب دیا۔ انڈیا کے دو جہاز گرائے اور ان کے پائلٹ ابھینندن کو پکڑا۔ اور پھر اس کو خیر سگالی کے طور پر انڈیا کے حوالے بھی کیا۔’

بی بی سی

2019 میں حملے کے بعد فوج کی جانب سے غیر ملکی عمائدین کو علاقے کے دورے پر لے جایا گیا تھا

واضح رہے کہ پاکستانی افواج کی جانب سے کہا گیا کہ پاکستان نے انڈیا کے دو جہاز گرائے جس میں سے ایک پاکستانی حدود میں گرا اور دوسرا انڈین حدود میں۔

مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ بالکل اسی طرح 1999 میں کارگل کے تنازعہ کے دوران بھی ہوا تھا جب انڈین ہیلی کاپٹر پاکستان کی طرف سے گرایا گیا تو اُس کو بھی تین دن میں واپس بھیج دیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ اس سے آگے جانے کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کیونکہ دونوں ممالک جوہری ہتھیار سے لیس ہیں’اور اس جنگ سے کسی کا فائدہ نہیں ہوتا۔’

کس ملک کا موقف زیادہ مقبول ہے؟

برصغیر کے بٹوارے کے بعد سے لے کر آج تک پاکستان اور انڈیا کے درمیان نو چھوٹی بڑی جنگیں ہوئی ہیں۔ ان حملوں کے بعد بھی زیادہ تر بحث بعد میں آنے والی تفصیلات کے گرد گھومتی رہیں کہ آیا پاکستان کا مؤقف مانا جائے یا انڈیا کا؟

البتہ مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ بالاکوٹ کے حملے کے بعد یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان کا مؤقف اس طرح منظرِ عام پر آیا اور مقبول ہوا ہے۔

پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ ریاض محمد خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘جہاں انڈیاسینکڑوں ہلاکتوں کا دعوی کرنے کے بعد ثبوت دینے میں پیچھے ہٹا وہیں پاکستان کے موقف کو تقویت ملی جسے بیرونِ ملک جریدوں اور اخباروں نے بھی پیش کیا۔ اب اس سے انڈیا اتفاق کرے یا نہ کرے، لیکن حملے کے بعد سوالات صرف ہم نہیں سبھی اٹھارہے ہیں۔’

اُن کا کہنا تھا کہ کشمیر میں ہونے والے لاک ڈاؤن سے انڈیا کے عزائم مزید نمایاں ہورہے ہیں۔

‘انڈیا نے ان کشمیری سیاستدانوں کو گرفتار کرنا جو شروع سے انڈیا کی حمایت کررہے تھے جیسے کہ محبوبہ مفتی، عمر فاروق یا عمر عبداللہ ، یہ گرفتاریاں اور اس کے پیچھے موجود عزائم کسی سے نہیں چھپ رہے۔ انڈیا میں تو اس سے حمایت حاصل کرلیں گے، لیکن دنیا کو کیا بتائیں گے؟’

مشاہد حسین نے عراق پر 2003 میں ہونے والے امریکی حملے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ‘سچ نہیں چھپ سکتا، اگر (بالاکوٹ میں) سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی تھیں تو لاشیں کہاں ہیں؟ ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کیوں سامنے نہیں آئے؟ اگر کوئی لاشیں ہوتیں تو اُن کی نمازِ جنازہ ہوتی، اُن کو اس طرح چھپایا نہیں جاسکتا تھا۔’

پاکستان کی انڈیا پر ‘ری ایکٹو’ پالیسی

بالاکوٹ حملے کی حقیقت جو بھی ہو، اس واقعے کے دوران پاکستان کے ساتھ ہونے والی چپقلش نے انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی کو انڈیا میں چند ماہ بعد ہونے والے انتخابات میں بھرپور پذیرائی اور ووٹ دلادیے اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ایک بھاری اکثریت سے انتخابات جیت گئی۔

جہاں انڈیا کو ‘منہ توڑ’ جواب دینے کی بات سامنے آتی ہے تو پاکستان اس سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتا۔ لیکن پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان کی انڈیا سے منسلک پالیسی جارحانہ ردّعمل پر مبنی ہے یا اس کے علاوہ بھی کوئی قواعد موجود ہیں؟

اس بارے میں مشاہد حسین نے کہا کہ پاکستان نے انڈیا سے نمٹنے میں دو غلطیاں کی ہیں۔

مودی

‘پہلے تو مودی کے بارے میں پاکستان کے تخمینے یا اندازے غلط نکلے۔ ہم نے مودی کو دوبارہ انتخابات جیتنے پر مبارکباد پیش کی کیونکہ ہمیں لگا کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کریں گے۔ مودی واجپائی (سابق انڈین وزیر اعظم) نہیں ہیں۔ اُن کی سوچ ایک ہندو ریاست قائم کرنے اور اندرونِ ملک مسلمان مخالف قانون سازی کرنے پر مبنی ہے اور خارجہ پالیسی پاکستان مخالف ہے۔’

انھوں نے کہا کہ بطور چیئرمین خارجہ امور کمیٹی، سینیٹ ‘ہماری انڈیا پر کوئی واضح، ٹھوس، دو ٹوک، پائیدار اور دور اندیش پالیسی نہیں ہے۔ ہماری پالیسی لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہے۔’

لیکن دوسری جانب ریاض محمد خان نے کہا کہ پاکستان کی انڈیا پالیسی تین سطحوں پر مشتمل ہونی چاہیے۔

یہ سطحیں کشمیر کے عوام کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی مدد، انڈیا کی عوام کو ‘گینگ آف فور’ سے الگ کرنا اور پارلیمانی ڈپلومیسی شامل ہے۔

گینگ آف فور کی وضاحت کرتے ہوئے مشاہد حسین نے کہا کہ ‘امیت شاہ، اجیت ڈوول، جنرل بپن راوت اور مودی کے گینگ اور انڈین عوام کی سوچ مختلف ہے۔ انڈیا کے شہریوں نے مزاحمت کرکے دکھا دیا ہے کہ وہ پلورلزم پر یقین رکھتے ہیں۔”

انھوں نے کہا کہ گیمبیا چھوٹا سا ملک ہے جو میانمار کی آنگ سانگ سُوچی کو عالمی عدالتِ انصاف لے کر گیا ہے۔

‘ہمیں لڑائی سے زیادہ بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے کی ضرورت ہے۔ان چھ ماہ میں کوئی پارلیمانی وفد انڈیا نہیں گیا۔ جانا چاہیے اور ساتھ ساتھ مزاحمت بھی کرنی چاہیے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp