Iran Pakistan: پاک ایران سرحد پر پھنسے لوگ کہتے ہیں ’اس وقت ایسے ہی ہے جیسے ہم جیل میں ہیں‘


زائرین

پاکستان ہاؤس کے اندر موجود زائرین 20 تاریخ سے یہاں رہ رہے ہیں

پاکستان نے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے اپنے ہوائی اڈوں اور سرحدی راستوں پر سکریننگ کا عمل مزید سخت کر دیا ہے۔

اس وقت 300 کے قریب پاکستانی پاک ایران سرحد پر موجود پاکستان ہاؤس میں بنائے گئے قرنطینہ سینٹر میں موجود ہیں۔ انھیں کہا گیا ہے کہ وہ 14 دن سے پہلے یہاں سے نہیں نکل سکتے تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ ہال ان کے لیے قید خانہ بن چکا ہے۔

ہزاروں زائرین ایران میں بھی موجود ہیں تاہم سرحد سیل کر دی گئی ہے۔ یوں نہ صرف زائرین بلکہ کاروباری افراد اور ڈرائیور بھی سرحد کے اس پار پھنس کر رہ گئے ہیں۔

تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں موجود 370 ایرانی شہریوں کو سرحد پار جانے کی اجازت دے دی گئی ہے تاہم کسی پاکستانی ڈرائیور یا زائرین کو اس جانب نہیں آنے دیا جا رہا۔

بہت سے پاکستانی زائرین ایران سے آگے شام، عراق اور سعودی عرب بھی جاتے ہیں۔ یہ زائرین اس وقت کوئٹہ میں سرحد کھلنے کے منتظر ہیں۔

pakistan house

پاکستان ہاؤس کے احاطے میں موجود زائرین کا کہنا ہے کہ سکریننگ کے بعد کوئی ڈاکٹر کی ٹیم نہیں آئی نہ ہی کوئی ماسک فراہم کیے گئے

یہ پاک ایران سرحد پر زائرین کے لیے موجود پاکستان ہاؤس ہے جسے 2017 میں بنایا گیا تھا۔ اس عمارت میں وسیع ہال ہیں لیکن اس وقت اس کے مرکزی گیٹ کو بند کر دیا گیا ہے اور اسے قرنطینہ سینٹر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اور یہ ٹینٹ بھی اسی کا حصہ ہیں جو حال ہی میں نصب ہوئے ہیں۔

پاکستان ہاؤس میں موجود ایک قافلے کے سالار اور ان کے ساتھ موجود زائر نے بی بی سی کی نامہ نگار حمیرا کنول کو اندر کی صورتحال اور مسائل سے آگاہ کیا۔ جسے انھیں کے الفاظ میں پیش کیا جا رہا ہے۔

پاکستان ہاؤس پاک ایران سرحد

ہم اس وقت ایسے ہی ہیں جیسے ایک جیل میں ہیں۔ انھوں نے باہر تالا لگا رکھا ہے ہم باہر نہیں جا سکتے نہ ہی کوئی اندر آتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر آئیں گے آپ کو چیک کریں گے کھانا آپ کو یہیں ملے گا۔

حالانکہ کہ پہلے جب ہماری سکریننگ ہوئی تو انھوں نے کہا تھا کہ آپ میں سے کسی میں بھی کرونا وائرس کی علامات نہیں ہیں۔

ہم 23 جنوری کو گھر سے نکلے تھے پھر تفتان سرحد کراس کر کے قم میں گئے پھر کربلا گئے پھر شام سے واپس مشہد لوٹے۔ ہم 19 فروری کو واپس پاک ایران سرحد پر تفتان پہنچے۔

یہاں تین سو لوگ اکھٹے ہو چکے ہیں جن میں دو بچے اور تقریباً سو کے قریب خواتین ہیں۔ ایران میں تو ہمیں کسی نے کچھ نہیں بتایا ہم یہاں پہنچے تو ہماری تیاری تھی اگلی صبح گھر واپسی کا سوچ رکھا تھا۔

مزید پڑھیے

کورونا وائرس: تفتان میں 250 افراد قرنطینہ منتقل

تفتان کی سرحد بند، ایران سفر کرنے پر تاحکم ثانی پابندی

بلوچستان: ’کسی چینی کارکن میں کورونا وائرس نہیں پایا گیا‘

یہاں سرحدی حکام نے ہمیں کہا کہ آپ کو ایک دو دن میں یہاں سے نکالا جائے گا لیکن پھر انھوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کی ٹیم آئے گی آپ کو چیک کرے گی ابھی وائرس آیا ہوا ہے۔ آپ کو جانے کی اجازت نہیں مل سکی۔

ڈاکٹرز کی ٹیم تو نہیں آئی ایک ڈاکٹر آیا اور اس نے ہماری سکریننگ کی۔ پھر کہا کہ ابھی آپ کو 14 دن ادھر ہی رہنا ہے۔

پھر حکام نے ہمیں کہا کہ پاکستان ہاؤس کے باہر ڈاکٹر موجود ہیں وہ آپ کو دیکھنے آئیں گے۔ مگر ابھی تک تو کوئی نہیں آیا۔

انھوں نے باہر تمبو(ٹینٹ) لگائے ہیں ان میں دو دو بیڈ بھی لگائے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ اگر زائرین میں سے کوئی بیمار ہوا تو اسے وہاں شفٹ کیا جائے گا۔

ابھی یہاں ایک خاتون دل کی مریضہ ہیں۔ ایک اور مریض کی ٹانگ سوج رہی تھی انھیں ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تو ڈاکٹر نے چھ سات فٹ دور سے انھیں دیکھا اور دوا ان کی جانب دور سے پھینک دی۔ یہ کوئی طریقہ علاج تو نہیں ہے۔

دوسرا مریض ابھی بھی دوا کا منتظر ہے۔

انھوں نے ہم میں سے کسی کو بھی احتیاطی تدابیر کے طور پر ایک ماسک تک نہیں دیا۔

یہ خبریں بھی چل رہی ہیں کہ 100 کے قریب زائرین کو یہاں سے نکال دیا گیا ہے تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔

پہلے دو تین دن تو ہم اپنے پیسوں سے کھانا خرید رہے تھے لیکن پھر کل سے انھوں نے مفت میں کھانا دینا شروع کیا ہے۔

پاکستان ہاؤس پاک ایران سرحد

یہاں سردی کی شدت تو نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم 14 دن یہاں کیسے رہیں گے؟

یہاں ہال موجود ہیں جن میں کارپٹ بچھی ہوئی ہے اور ہم اس پر بستر لگا کر سوتے ہیں۔ بستر ہم نے 50 روپے روزانہ کرائے پر لیے ہوئے ہیں۔

ہمیں وضو کرنے میں پریشانی ہے اور نہانے کا تو ہم سوچ نہیں سکتے کہ بیمار ہی نہ ہو جائیں۔

پاکستان ہاؤس پاک ایران سرحد

زائرین کا کہنا ہے باہر تک پیغام پہچانے کے لیے ہمیں دروازے کے دوسری جانب کھڑے ہو کر بات کرنا ہوتی ہے

ابھی یہاں جتنے بھی لوگ موجود ہیں وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ ہاں ایک دن یہاں زائرین نے شور مچایا احتجاج کیا تھا کہ جانے دیا جائے۔

ابھی ہم نے کوئٹہ کا سفر `10 سے بارہ گھنٹے میں طے کرنا ہے۔ ہم سے کہا گیا ہے کہ اگر آپ نے ایران سے اپنے بعد پہنچنے والوں سے بھی میل جول کیا تو پھر آپ کے 14 دن دوبارہ سے شروع ہو جائیں گے۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ 22 کے بعد بھی بائی ائیر آنے والوں کو تو ملک کے مختلف حصوں میں جانے دیا گیا ہمارے لیے پابندی کیوں ہے۔

’ہم تو دیوار سے صرف سو گز کا فاصلہ طے کرتے ہیں‘

BORDER

سرحد پر کھڑی گاڑیاں اب نہ ادھر جا سکتی ہیں نہ ادھر سے ادھر آ سکتی ہیں

اس سرحدی بندش سے تجارت کا مسئلہ تو ہوا ہے لیکن دونوں جانب سامان لانے لے جانے والے پاکستانی ٹرک ڈرائیور اور مزدور بھی پھنس کر رہ گئے ہیں۔ سرحد کو الگ کرنے والی دیوار سے چند ہی گز دور موجود پاکستانی ڈرائیور بھی شکایات کرتے دکھائی دیے۔

بی بی سی کے نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق فون پر بات چیت میں انھوں نے اپنا احوال کچھ یوں بتایا۔

آج تیسرا دن ہے ہم یہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہم لوگ ایک دن میں ایک پھیرا کرتے ہیں یہ دیوار ہے اس کو کراس کر کے آج جاتے ہیں۔ سو گز کا ہی تو فاصلہ طے کرتے ہیں۔ آگے تو نہیں جاتے ہم۔ سامان اتار کر چلے جاتے ہیں۔ یہ پاکستان اس دیوار سے نظر آرہا ہے۔ انھوں نے گیٹ سیل کر دیا ہے۔ ہمیں تو جانے دیا جائے۔ یہاں نہ روٹی ہے نہ کھانے پینے کا انتظام ہے۔ ہم آتے ہوئے بھی ایران کی جانب سے کلیئر کیا ہوا ہے ہمارا چیک اپ ہوا ہے جو لوگ آگے جاتے ہیں ان کا چیک اپ کیا جائے۔

iran

ایرانی سرحد پر موجود پاکستانی ڈرائیورز اور مزدور

ایرانی حکام پاکستان کو کہہ رہے ہیں کہ اپنے بندے لے لیں ہمارے دے دیں لیکن پاکستانی کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے بندے نہیں چاہیے۔

ہم لوگ تو اس سرحدی گیٹ سے ایک کلومیٹر بھی آگے نہیں گے۔

’یہ نہیں پتہ کہ کتنا انتظار کرنا ہوگا‘

اس وقت سرحد پار تو ہزاروں زائرین موجود ہیں جوب فی الحال پاکستان نہیں لوٹ سکتے لیکن پاکستان کے مختلف علاقوں سے تفتان کی سرحد تک جانے کا سفر طے کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ یہ لوگ کوئٹہ میں سرحد کھلنے کے منتظر ہیں۔

نامہ نگار محمد کاظم سے کوئٹہ میں موجود کچھ زائرین نے گفتگو کی۔

زائرین

لاہور کے رہائشی عمران بھی ان زائرین میں شامل ہیں جو اپنے کنبے کی خواتین اور بچوں کے ہمراہ ایران جانے کی منتظر ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم ٹرین کے ذریعے ایک لمبا سفر طے کر کے یہاں تک پہنچے ہیں راستے میں پتہ چلا کہ راستہ بند ہے۔ ہمارے ساتھ خواتین اور بچے بھی ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وائرس کا مسئلہ تو ہے لیکن ائیر پورٹ پر یا جو گزرگاہ ہے وہاں احتیاطی تدابیر اپنائیں۔ ہم پورا تیار ہو کر آئیں ہیں کہ زیارت کریں۔ فی الحال ہم یہی کہیں گے کہ ہمیں جانے دیا جائے۔ ہم تین چار پانچ دن تک تو انتظآر کریں گے پھر واپس چلے جائیں گے۔

زائرین

کوئٹہ میں بہت سے زائرین ایران جانے کے لیے منتظر ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ دو تین دن مزید انتظار کریں گے

راولپنڈی سے آنے والے مجتبیٰ کہتے ہیں کہ ’منگل کی صبح وہ کوئٹہ پہنچے ہیں۔ ہم پانچ لوگ آئے ہیں۔ ہمیں کہا گیا ہے کہ انتظار کریں اب کتنا انتظار یہ ہمیں نہیں پتہ۔ دیکھتے ہیں ابھی زیادہ انتظار کرنا پڑا تو ہم واپس چلے جاتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp