کرکٹ: کھیل چند کا ہے لاکھوں کے لیے اذیت ناک


انگریز اس خطے میں جہاں اپنی بہت سی اچھی بری یادگاریں چھوڑ کر گیا ان میں ایک کرکٹ بھی ہے۔ کرکٹ جس نے عشروں سے قوم کے اذہان پر قبضہ جما رکھا ہے، اخبارات کی شہ سرخیوں میں بھی جگہ پاتا ہے اور ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی اور بہتری کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ ڈیڑھ سو سال قبل صرف انگریز ہی کرکٹ کھیلا کرتے تھے اور بنیادی طور پر اسے وہاں کے لارڈز کا کھیل سمجھا جاتا تھا۔ برِصغیر میں بھی انگریز کے ساتھ کرکٹ وارد ہوئی۔

بتدریج یہ کھیل لارڈز سے ہوتا ہوا عوام تک پہنچا اور انہوں نے اس میں اس قدر مہارت حاصل کی کہ کئی مواقع پر انگریز کو شکست دی۔ ہندو پاک میں سب سے پہلے یہ کھیل پارسیوں نے کھیلنا شروع کیا کہ تجارت اور کاروبار کے سبب ان کی انگریزوں سے قربت زیادہ تھی۔ 1848 ء میں ممبئی میں اورنٹیئل کرکٹ کلب کے نام سے پہلا کرکٹ کلب قائم ہوا جسے ٹاٹا اور واڈیا جیسے پارسی سرمایہ داروں کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ ایک اہم ذکر کے بعد کرکٹ کی تاریخ کے بعد کو ختم کرتے ہیں کہ کرکٹ صنعتی انقلاب سے پہلے کی ایجاد ہے جب کہ دیگر کھیل جیسے کے فٹبال اور ہاکی صنعتی دور میں پروان چڑھے۔

وطنِ عزیز میں بھی کرکٹ ایک انتہائی پسندیدہ کھیل ہے۔ اس کے کھلاڑیوں کو جو شہرت اور پذیرائی نصیب ہوتی ہے اس سے دیگر کھیلوں کے کھلاڑ ی متعدد بار اولمپک چیمپئین، ورلڈ چیمپئین اور، ایشائی چیمپئین بننے کے باوجود عوام اور میڈیا میں وہ شہرت پذیرائی حاصل نہیں کرسکے ہیں کو کرکٹ کے کھلاڑیوں کو حاصل ہے۔ ہمارے موجودہ وزیراعظم جو اب تک پاکستان کے لیے کرکٹ کا واحد ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان بھی تھے، آج ایک اہم ترین عہدے پر فائز ہیں اور وہ اپنی تقاریر اور انٹرویوز میں بھی تواتر کے ساتھ اپنی اس کامیابی پر پھولے نہیں سماتے ہیں۔

چند سال قبل جب لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا اس کے بعد سے غیر ملکی ٹیموں نے پاکستان کا رخ کرنا بند کردیا تھا۔ لیکن حکومت اور دفاعی اداروں نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی جس میں افواجِ پاکستان اور عوام کے شہداء کی ایک طویل ترین فہرست ہے، جس کے بعد ملک میں موجود کرکٹ اسٹڈیم پھر سے آباد ہوگئے۔

آج کل ملک کے بڑے شہروں میں پی ایس ایل ( پاکستان سپر لیگ) کا پانچواں ایڈیشن برپا ہے اس سے کچھ ہفتے قبل بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم بھی پاکستان کے بڑے شہروں میں میچ کھیل چکی ہے۔ یہاں تک تو معاملہ بالکل ٹھیک ہے، لیکن ان میچوں کے دوران سیکورٹی کی وجہ سے عوام کو جن مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے اس کے تدارک کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات اور تجاویز ابھی تک سامنے نہیں آئی ہیں۔ جس شہر میں بھی یہ میچ منعقد ہوتے ہیں اس شہر کا ایک بڑا حصہ باقی شہر سے کٹ جاتا ہے۔

میڑو بس سروس معطل ہوجاتی ہے، اسکول، دفاتر، بنک اور مارکیٹیں بند کرا دی جاتی ہیں جس سے کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ وہی عوام جو مہنگائی اور بے روزگاری پر واویلا مچاتے بس نہیں کرتے وہ ان میچوں کے مہنگے ٹکٹ خریدنے کے لیے گھنٹوں قطار میں کھڑے رہتے ہیں۔ شہر کے دوسرے حصے میں ٹریفک کا رش اس قدر بڑھ جاتا ہے کے منٹوں کا سفر گھنٹوں پر محیط ہوجاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں زیادہ اذیت اور پریشانی مریضوں کو ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں اربابِ اقتدار اور اختیار نے کیاکبھی غور کیا ہے؟

راقم کی اکثر بڑی صنعتوں کے ارباب ِ اختیار سے ملاقات رہتی ہے۔ ایک تجویز یہ تھی کہ اسٹیڈیم کے اندر ہی فائیو اسٹار ہوٹلز بنا دیے جائیں۔ جس سے ایک تو ملک میں اچھے ہوٹلز کی کمی پوری ہونے کے ساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ کی آمدن میں اضافہ بھی ہوگا اور کھلاڑیوں کو ہوٹل سے اسٹیڈیم تک لانے اور لے جانے کے لیے عام ٹریفک کی روانی کو معطل بھی نہیں کرنا پڑے گا۔ موجودہ حکومت جو پاکستان میں سیاحت کے فروغ کا بھی اگرچہ ارادہ تو رکھتی ہے، جس کے لیے ہوٹل کی صنعت کی وسعت لازمی ہے، اس تجویز پر غور کرنا چاہیے۔

ایک زمانے میں جب ایک جانب بسنت کے دوران دھاتی ڈور کے استعمال سے بے شمار ہلاکتیں ہورہی تھیں اور دوسری جانب ثقافت پر ”مرمٹنے والے“ بسنت پر پابندی کے خلاف تھے تو ایک تجویز یہ دی گئی تھی کہ شہر میں پتنگ بازی پابندی ہونی چاہیے اور شہر سے باہر ایک میدان اس کے لیے مختص کردیا جائے۔ اسی طرح سیکورٹی کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر شہروں کے مرکز میں موجود اسٹیڈیموں کی زمین فروخت کردی جائے اور شہر سے باہر اسٹیڈیم تعمیر کیے جائیں تاکہ کرکٹ کے شائیقن کا شوق بھی ماند نہ پڑنے پائے اور عوام کو بھی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments