بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام : مسلم امہ اور جمہوری دنیا کی خاموشی


وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا یہ انتباہ بروقت اور ضروری تھا کہ دنیا کو نئی دہلی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کا نوٹس لینا چاہئے جن میں آخری خبریں آنے تک دو درجن سے زائد لوگ جاں بحق ہوچکے تھے۔ تاہم دنیا کے لیڈروں سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ بھارتی حکومت کو اس کے فرقہ وارانہ جرائم اور انسانیت کش اقدامات کے لئے ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔

دو روز پہلے شروع ہونے والے فسادات کا آغاز اس وقت ہؤا تھا جب نام نہادمہذب دنیا کے لیڈر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت میں موجود تھے اور احمد آباد میں سفید ٹوپیاں پہنے ہندو انتہا پسندوں کے ’نمستے ٹرمپ‘ کے نعروں پر پھولے نہیں سما رہے تھے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے منظم کی گئی اس استقبالیہ ریلی میں صدر ٹرمپ نے انسانی حقوق، کشمیر میں پابندیوں، عالمی ہیومن چارٹر سے متصادم شہریت ایکٹ یا مودی کی پاکستان دشمن انتہا پسندانہ حکمت عملی پر اظہار رائے کی بجائے بھارتی تہذیب و ثقافت، انسانیت اوردہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی شراکت پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے۔ انہوں نے بالی وڈ فلموں کے نام لے کر اور بھارتی کرکٹ کھلاڑیوں کا ذکر کرکے ہر طرح سے بھارتی حکومت اور عوام کورجھانے کی کوشش کی تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ امریکی اسلحہ خریدنے پر آمادہ ہوجائیں۔ اور ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں چند ہزار مزید آسامیاں پیدا کرنے کا کارنامہ بیان کرکے امریکیوں کے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے۔

پاکستانی حکام اور میڈیا اینکرز امریکی صدر کے اس ایک فقرہ کو کہ ’پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہت اچھے ہیں‘ سیاق و سباق سے الگ کرکے دیکھ کر ہی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ وزیر خارجہ نے ایک پیغام میں ٹرمپ کے بیان کو ’اہم اور خوش آئیند‘ قرار دے کر اپنی سفارتی مہارت کی دھاک بٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ پاکستانی عوام کو یہ بتانے کا حوصلہ نہیں کرسکے کہ یہ توصیفی فقرہ اس اضافے کے ساتھ ادا کیا گیا تھا کہ پاکستانی حکومت اچھے بچوں کی طرح امریکی ہدایات کے مطابق اپنی سرحدوں میں دہشت گردی ختم کرنے کے لئے کام کررہی ہے۔ ٹرمپ نے اس کی وجہ یہ بیان کی تھی کہ انہوں نے برسر اقتدار آنے کے بعد دہشت گردی کے حوالے سے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کی تھی۔ اسی کے نتیجے میں شام میں داعش کو مکمل شکست ہوئی، اس کا لیڈر ابو بکر البغدادی مارا گیا اور پاکستان نے اپنے ملک میں دہشت گردی کے خلاف کام شروع کیا ہے۔ امریکی صدر کی طرف سے انسانیت دشمن دہشت گرد گروہ داعش کے ساتھ پاکستان کا ذکر محض اتفاق نہیں ہوسکتا بلکہ یہ بھارتی قیادت اور عوام کو خوش کرنے کی سوچی سمجھی کوشش تھی۔

صدر ٹرمپ منگل کے روز جس وقت نریندر مودی سے ملاقات میں بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدہ کی شرائط پر اتفاق کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور 3 ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا معاہدہ کیا گیا، اسی دوران ہندو جتھے دہلی کی ریڈ زون سے محض سات آٹھ کلو میٹر کے فاصلہ پر مسلمانوں کو ہلاک اور مساجد اور خانقاہوں پر حملے کرنے میں مصروف تھے۔ کشمیر تو دور کی بات ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کو اس متنازع شہریت قانون کے بارے میں دو لفظ کہنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی جس کے نفاذ کے بعد سے گزشتہ چھ ہفتے کے دوران مرنے والوں کی تعداد پچاس تک پہنچ چکی ہے۔ دو درجن سے زائد افراد گزشتہ تین روز کے دوران دارالحکومت نئی دہلی کے شمالی علاقوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ علاقے غریب مسلمان آبادیوں پر مشتمل ہیں اور حکمران بھارتی جنتا پارٹی کے انتہا پسند ہندو لیڈروں کی شعلہ بیانی کے نشانے پر رہے ہیں۔ سوموار کو دہلی کے جعفر آباد علاقے میں فسادات شروع ہونے سے پہلے بی جے پی کے ایک لیڈر نے پولیس کو متنبہ کیا تھا کہ یا تو شہریت ایکٹ کے خلاف تمام دھرنے اور احتجاج بند کروائے جائیں یا پھر حالات کی ذمہ داری بھی اس پر عائد ہو گی۔

اس چیلنج کا جواب دہلی پولیس نے یوں دیا کہ جب اس انتباہ کے چند ہی گھنٹے بعد ہندو گروہوں نے مسلمان آبادیوں پر دھاوا بولا، لوگوں کو ہلاک و زخمی کیا، املاک کو نذر آتش کیا گیا اور مقدس مقامات کی توہین کرنے کے علاوہ ایک مسجد اور ایک خانقاہ کو آگ لگائی تو پولیس نے بھارت کی حکمران پارٹی کی خواہش کے عین مطابق خاموش رہنے اور بلوائیوں کو من مانی کرنے کا موقع دیا۔ متعدد صحافیوں نے رپورٹ کیا ہے کہ پولیس غیر مؤثر اور اشتعال پھیلانے اور بلوہ کرنے والے گروہوں کو روکنے میں ناکام ہی نہیں تھی بلکہ اس کی طرف سے ایسی کوئی کوشش بھی دیکھنے میں نہیں آرہی تھی۔ ہندو گروہ نہ صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور تشدد کرنے میں مصروف رہے بلکہ ان کارروائیوں کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں سے ان کا عقیدہ پوچھنے اور ’ناپسندیدہ‘ تصاویر اور ویڈیو ضائع کرنے پر بھی مجبور کرتے رہے۔

دہلی کے عوام نے حال ہی میں ہونے والے انتخابات میں نریندر مودی کی بھارتی جنتا پارٹی کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا تھا۔ بی جے پی کے لیڈروں نے مسلمانوں پر حملے کر کے اور دارالحکومت کا امن تباہ کرکے اس کا انتقام لیا ہے۔ وفاقی علاقہ ہونے کی وجہ سے نئی دہلی میں امن و امان کی ذمہ داری وزیر داخلہ امیت شاہ پر عائد ہوتی ہے لیکن انہوں نے ہی نئی دہلی کے انتخابات کے دوران اشتعال انگیز تقریروں اور انتہاپسند ہندو ایجنڈے پر سیاسی مہم چلانے کی سربراہی کی تھی۔ سوموار کو فسادات شروع ہونے کے وقت وہ احمد آباد میں صدر ٹرمپ کے استقبال میں مصروف تھے تاہم ان تقریبات کو چھوڑ کر وہ دہلی روانہ ہوئے اور سیکورٹی اجلاس کی صدارت کی۔ لیکن اس سرگرمی کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہؤا اور بلوائیوں نے شہر کے مسلمان علاقوں میں خوں ریزی اور لوٹ مار کا بازار گرم رکھا۔ وزیر اعلیٰ اروند کیجر وال نے پہلے تو یہ کہا کہ وزیر داخلہ نے پولیس فورس میں اضافہ کرنے اور قتل و غارت روکنے کا وعدہ کیا ہے لیکن جلد ہی انہیں اندازہ ہوگیا کہ یہ آگ خود وفاقی حکومت کے نمائیندوں کی لگائی ہوئی ہے۔ بعد میں انہوں نے ایک ٹوئٹ پیغام میں پولیس کی نااہلی و لاتعلقی کا ذکرکرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ متاثرہ علاقوں میں فوج طلب کی جائے اور لوگوں کی جانیں بچانے کے لئے کرفیو نافذ کیا جائے۔ لیکن یہ پکار کسی وفاقی بااختیار شخصیت کے کانوں تک نہیں پہنچ پائی۔

صدر ٹرمپ سے گزشتہ شب نئی دہلی سے امریکہ روانہ ہوتے ہوئے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا انہیں دہلی میں ہونے والے فسادات کا علم ہے تو انہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں اس بارے میں مطلع کیا گیا ہے لیکن انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اس کا ذکر نہیں کیا۔ اس کی بجائے انہوں نے بھارتی نظام اور جمہوریت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے تشدد کے خاتمہ کی امید کی اور ائرفورس ون میں بیٹھ کر واشنگٹن پرواز کر گئے۔ نریندر مودی کو دارالحکومت میں فسادات کے تیس گھنٹے بعد لوگوں سے یہ اپیل کرنے کا موقع ملا کہ انہیں پرامن رہنا چاہئے۔ اس اپیل کے سوا انہوں نے فسادیوں کو متنبہ کرنے یا شر انگیزی کے خلاف اپنی حکومت کے اقدامات و عزم کا ذکر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

بھارتی سپریم کورٹ نے بھی ان فسادات کے بارے میں دائر درخواستوں پر غیرانسانی سردمہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کا نوٹس لینا اور فیصلہ کرنا دہلی ہائی کورٹ کا کام ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کے ججوں نے حکومت کو شہریوں کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری پورا کرنے کی ہدایت کی اور بزعم خویش فرض منصبی سے عہدہ برآ ہو گئے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتیونیو گوئتریس کے ترجمان نے صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مطالبہ کیا کہ ’نئی دہلی میں تشدد کے لئے نفرت کی فضا پیدا کرنےوالے سیاسی لیڈروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ یہ لوگ نفرت انگیز تقریروں سے بھارت کے دارالحکومت میں فسادات کا سبب بنے ہیں‘۔

جو بات پاکستانی وزیر اعظم سے لے کر انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری تک کو سمجھ آ رہی ہے نریندر مودی اور ان کی ہندو انتہا پسند حکومت اسے سمجھنے یا تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اپنے حجم اور معاشی حیثیت کی وجہ سے امریکہ سمیت دنیا کاکوئی بااثر ملک مودی حکومت کی انسان دشمن پالیسیوں اور انسانی اقدار سے متصادم حکمت عملی، بیانات اور طریقہ کار کو مسترد کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ مقبوضہ کشمیر کے ایک کروڑ سے زیادہ لوگ گزشتہ اگست سے عملی طور سے اپنے گھروں یا علاقوں میں محبوس ہیں۔ مواصلات کے مسلمہ ذرائع تک ان کی رسائی بند کی گئی ہے۔ دنیا کو کشمیریوں اور کشمیریوں کو دنیا کے حالات کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے لیکن انسانی آزادیوں کی حفاظت کے دعوے دار امریکہ کا صدر بھارت کے دورے میں اس بھارتی استبداد کی طرف اشارہ کرنے کا بھی حوصلہ نہیں کرتا۔

گزشتہ 6 ہفتوں سے شہریت بل پر ملک بھر میں احتجاج ہو رہا ہے لیکن حکومت ہی نہیں عدالتیں بھی شنوائی پر آمادہ نہیں ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ متعدد بار تشدد کے عذر پر اس قانون کے خلاف سماعت ملتوی کر چکی ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ دباؤ کے ماحول میں وہ کسی قانون کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔ اب یہ تشدد نسل کشی اور مذہبی فساد کی شکل اختیار کرچکا ہے لیکن بھارتی عدالتیں اب بھی مجبور محض اور خاموش تماشائی ہیں۔

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا لیڈر ہونے کا دعوے دار نریندر مودی بھارت کی راجدھانی میں مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش تماشائی بنا ہؤا ہے۔ ہندو انتہاپسندی کا عفریت ہندوستان میں مسلمانوں کی حفاظت اور بہبود کے لئے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ البتہ مسلمان ممالک اور ان کے اتحاد کی نمائیندہ تنظیم برائے اسلامی تعاون (او آئی سی) بھی مہر بلب ہے کیوں کہ اس کے سرپرست عرب ملکوں کے اقتصادی مفادات بھارت کے ساتھ وابستہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments