دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ایک ’تاریخی معاہدہ‘ ہونے جا رہا ہے


زلمے خلیل زاد اور ملا عبدالغنی برادر

امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد (دائیں) اور دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر (بائیں)

امریکہ اور طالبان کے درمیان ایک تاریخی معاہدے پردستخط سنیچر کو قطر کے شہر دوحہ میں ہونے جا رہے ہیں جسے افغانستان میں امن کے قیام کے لیے بڑی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔

اس معاہدے کو جہاں سراہا جا رہا ہے وہاں اس معاہدے میں کیے گئے فیصلوں اور افغانستان کے زمینی حالات میں اس معاہدے میں کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد کو ایک مشکل اور کٹھن عمل بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

اس معاہدے سے افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے درمیان 20 سالہ جنگ کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا لیکن کیا امریکہ اور طالبان اپنی ماضی کی پالیسیوں میں تبدیلی لا سکیں گے۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع کرانے اور انھیں ایک حتمی فیصلے تک پہنچانے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان نے ان مذاکرات کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ قطر کے حکام نے پاکستان کے وزیر خارجہ کو اس معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شرکت کی دعوت بھی دی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان: امن معاہدے کا مسودہ نہیں دکھایا گیا

افغان امن عمل: خواتین واپس پیچھے نہیں جانا چاہتیں

وہ افغان عورت جس نے طالبان سے مذاکرات کیے

سہیل شاہین

قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق امریکہ سے معاہدے کے تحت طالبان یہ یقین دہانی کرائیں گے کہ ان کی سرزمین امریکہ سمیت کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی

اس تقریب کے لیے تیاریاں جاری ہیں اور کوریج کے لیے پاکستان افغانستان اور دیگر ممالک سے صحافی یہاں دوحہ پہنچ رہے ہیں۔ مختلف ممالک سے اعلی حکام کی شرکت بھی متوقع ہے۔

امکان ہے کہ پاکستان سے وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی دوحہ پہنچیں گے جہاں وہ پاکستانی سفارتخانے کی ایک تقریب میں بھی شرکت کریں گے۔

معاہدے پر دستخط کون کرے گا؟

ایسی اطلاعات ہیں کہ اس معاہدے پر طالبان کی جانب سے امن کونسل کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر دستخط کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے امریکی صدر یا امریکی وزیر خارجہ کو اس معاہدے پر دستخط کرنے چاہییں۔

گذشتہ سال جنوری میں افغان طالبان نے ملا عبدالغنی برادر کو تنظیم کے امیر ملا ہیبت اللہ اخونزاد کا سیاسی امور کے لیے نائب منتخب کیا تھا اور ساتھ ہی انھیں قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کی قیادت بھی سونپی گئی ہے۔ ملا برادر اس وقت سے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے اہم کردار رہے ہیں۔

طالبان کے رہنما ملا عبدالغنی برادر افغانستان میں طالبان کارروائیوں کی نگرانی کے علاوہ تنظیم کے رہنماؤں کی کونسل اور تنظیم کے مالی امور بھی چلاتے تھے۔

افغان طالبان کے سابق امیر ملا عمر اور ملا عبدالغنی برادر ایک ہی مدرسے میں درس دیتے تھے اور 1994 میں قائم ہونے والی تنظیم طالبان کے بانی قائدین میں سے ہیں۔ ملا برادر طالبان دور میں ہرات صوبے کے گورنر اور طالبان کی فوج کے سربراہ رہے ہیں۔

گذشتہ دنوں افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس معاہدے کے چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں:

  • امریکہ طالبان کے قیدی رہا کرے گا اور ان کے پاس جو مقامی قیدی ہیں انھیں رہا کیا جائے گا
  • اسی طرح افغانستان میں جنگ بندی کا فیصلہ بھی کیا جائے گا
  • امریکہ اپنی افواج کو افغانستان سے نکالنے کے بارے میں ایک ٹائم ٹیبل سے آگاہ کرے گ۔
  • بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جائِے گی جس میں پھر مختلف مسائل پر بات چیت ہوگی جس میں افغانستان کے دستور، سکیورٹی اداروں کے کردار اور دیگر معاملات پر فیصلے کیے جائیں گے
طالبان

امریکہ اور طالبان کے درمیان ان مذاکرات اور افغان امور کی کوریج کے لیے دوحہ میں موجود صحافی مشتاق یوسفزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی اطلاع کے مطابق امریکہ کوئی پانچ ہزار افغان طالبان رہا کرے گا اور افغان طالبان کی تحویل میں اس وقت کوئی ایک ہزار ایسے افراد ہیں جن میں افغان سپاہی اور فوجیوں کے علاوہ سرکاری اہلکار ہیں جنھیں رہا کر دیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ طالبان کا یہ کہنا ہے کہ اس کے علاوہ پہلے مرحلے میں امریکہ کم سے کم پانچ ہزار امریکی فوجیوں کو افغانستان سے نکالنے کا اعلان کرے گا۔ ان اعلانات کے بعد عبوری حکومت کے قیام کی باتیں ہوں گی۔ اس کے علاوہ افغانستان کے اندر مذاکرات شروع کرنے اور بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کی بات بھی ہوں گی۔

مشتاق یوسفزئی کے مطابق اصل مرحلہ تو اس معاہدے میں طے کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد کے وقت شروع ہوگا جہاں زمینی حقائق یکسر مختلف نظر آتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت ایک مرتبہ پھر قائم ہو چکی ہے اور افغان حکومت کا اپنا مختلف موقف ہے۔ دوسری جانب صدر اشرف غنی کے مخالف عبداللہ عبداللہ نے حالیہ انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور وہ اپنی حکومت قائم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں طالبان کی اپنی پالیسیاں رہی ہیں جن کی عالمی سطح پر مخالفت کی جاتی رہی ہے جن میں خواتین کو کام کرنے کی اجازت نہ دینا اور لڑکیوں کو تعلیم کے حصول کی اجازت نہ دینا شامل تھیں۔ کیا طالبان اب اپنی پالسیوں میں تبدیلی لا سکیں گے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی افغانستان کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا جب سویت یونین کی افواج کے انخلا کے بعد عالمی برادری نے افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا تھا جس وجہ سے ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ اب ایک مرتبہ پھر امریکی فوجیوں کے انخلا کے معاہدے پر دستخط ہونے جا رہے ہیں، کیا عالمی برادری ماضی کی غلطیوں کو پھر دہرانے جا رہی ہے یا اس مرتبہ مربوط نظام اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ افغانستان میں امن کے قیام کے عمل کو مکمل کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp