منووج شرما اور جمال سیفی نے دلی کے علاقے وجے پارک کو بلوائیوں سے کیسے بچایا؟


وجے پارک

منووج شرما اور جمال الدین سیفی

اتوار کی دوپہر منووج شرما اور جمال الدین سیفی اپنے گھروں کے نزدیک اکھٹے بیٹھے تھے جب اچانک وجے پارک کی طرف جانے والی مرکزی شاہراہ پر ایک مسلح ہجوم نمودار ہوا اور اس نے دوکانوں میں توڑ پھوڑ اور پتھراؤ شروع کر دیا۔

صورتحال کو دیکھتے ہوئے شرما اور سیفی کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ فی الوقت وہاں سے بھاگ نکلیں۔ مگر تھوڑی ہی دیر میں وہ اور دوسرے بہت سے علاقہ مکین اکھٹے ہوئے اور بلوہ کرنے والوں کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔

اس اثنا میں پولیس کی چند گاڑیاں بھی وہاں آن پہنچیں۔

مسلح ہجوم کی جانب سے اس مرکزی شاہراہ پر کی جانے والی کارروائی کھڑکیوں کے ٹوٹے ہوئے شیشوں، جلی ہوئی موٹر سائیکل اور ایک مکمل طور پر تباہ شدہ گاڑی کی شکل میں صاف نظر آ رہی تھی۔

جب ہم اس شاہراہ پر پہنچے تو صفائی کرنے والے اہلکار سڑک سے ملبے کو صاف کر رہے تھے۔

ایک مقامی باشندے عبدل الحمید نے الزام عائد کیا پولیس نے آہنی راڈز اور ڈنڈوں سے مسلح نعرے لگاتے ہجوم کو ’مشتعل‘ کیا۔

لوگوں نے بہار سے تعلق رکھنے والے مبارک نامی مزدور کے متعلق بھی بتایا جو اس موقع پر ہونے والی فائرنگ کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ جبکہ اسی واقعے میں سوریندرا سنگھ راوت شدید زخمی ہوئے۔

جمال الدین سیفی نے بتایا کہ اگرچہ اس روز بلوائی ان کے علاقے میں داخل نہیں ہو پائے مگر اگلے ہی دن (پیر کے روز) انھوں نے ایسا کرنے کی دوبارہ کوشش کی۔

جمال الدین کے مطابق ’پیر کے روز ہم (علاقہ مکین) اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے زیادہ اچھی طرح تیار تھے۔ مرکزی شاہراہ بند تھی اور علاقہ مکین اکھٹے باہر بیٹھے تھے۔‘

وجے پارک

وجے پارک کا علاقہ موج پور میں واقع ہے اور یہ دلی میں تشدد سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے۔

اس علاقے سے متصل موج پور-بابر پور میٹرو سٹیشن کے علاوہ اس علاقے کے گردونواح میں سکیورٹی وجوہات کی بنا پر چار دیگر میٹرو سٹیشن ابھی تک بند ہیں۔ تاہم دلی کے باقی علاقوں میں میٹرو ریل سروس بدستور چل رہی ہے۔

وجے پارک وہ علاقہ ہے جہاں ہندو اور مسلمان مل جل کر رہتے ہیں۔ انڈیا کے ہزاروں دیگر علاقوں کی طرح وجے پارک میں بھی مندر اور مسجد کے درمیان صرف دو گلیوں کا فاصلہ ہے۔

اس علاقے میں کسی بھی نوعیت کی شرانگیزی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے فسادات کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔

پوون کمار شرما ایک ریٹائرڈ پولیس افسر ہیں اور 20 علاقہ معززین پر مشتمل بنائی جانے والی ایک مقامی امن کمیٹی کے سربراہ ہیں۔

کمیٹی کے 20 اراکین میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔ اس واقعے کے بعد کمیٹی کے افراد اس علاقے میں گھر گھر گئے اور مکینوں کو آگاہ کیا کہ وہ افواہوں پر توجہ نہ دیں، اپنے بچوں کو گھر سے باہر نہ جانے دیں اور اپنے اپنے علاقے پر اپنا کنٹرول مضبوط رکھیں۔

پیر کے روز جب بلوائیوں نے وجے پارک کے علاقے میں دوبارہ داخل ہونے کی کوشش کی تو علاقہ مکینوں کی جانب سے امن مارچ کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔

وجے پارک

ذوالفقار احمد بھی اس امن کمیٹی کے رکن ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’علاقہ مکین پوری رات گلیوں کے باہر حفاظت کی غرض سے بیٹھے رہے۔ وہ گلیاں جہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے ان کی حفاظت ہندوؤں نے کی اور وہ علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں حفاظت کے فرائض مسلمانوں نے سرانجام دیے۔‘

ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم دھرم پال کہتے ہیں کہ ’اب پولیس نہیں بھی ہو گی تو کچھ نہیں ہونے دیں گے۔‘

دنوں پر محیط کشیدہ اور پرتشدد صورتحال کے بعد اب وجے نگر میں حالات نارمل ہیں۔

ہندو سبزی فروش گلی کے کنارے کھڑا سبزی فروخت کر رہا ہے۔ دلی میں ہنگاموں کی وجہ سے وہ دو روز تک ریڑھی نہیں لگا سکا تھا۔ دوسری جانب بریانی کی ایک دوکان بھی دوبارہ کھل چکی ہے اور وہاں کاروبار نارمل انداز میں جاری ہے۔

جب مقامی افراد جب بھی اندھی گولی کا شکار بننے والے مبارک کی بات کرتے ہیں تو وہ افسردہ ہو جاتے ہیں۔ جبکہ اسی روز شدید زخمی ہونے والے سوریندرا سنگھ راوت اب بھی ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp