سیالکوٹ کا قدیم شوالہ تیجا سنگھ مندر مذہبی ہم آہنگی کی علامت


مندر

بچپن سے جوانی تک کا سفر بالی وڈ کی فلمیں دیکھ کر طے کرنے والوں کے دلوں میں کہیں نہ کہیں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ ان فلموں میں دکھائے جانے والے مندر آخر حقیقت میں کیسے ہوتے ہوں گے۔ مجھے بھی بچپن سے یہ دلچسپی رہی کہ کبھی کسی مندر میں جا کر دیکھوں کہ وہ کیسا ہوتا ہے اور وہاں عبادت کرنے والے کس طرح سے عبادت کرتے ہیں۔

اور یہ دلچسپی صرف میری ہی نہیں تھی بلکہ میرے ایک درجن سے زائد کزنز بھی اکثر یہی سوال کرتے کہ ہم کب اور کیسے کسی مندر میں جا کر اسے اندر سے دیکھ سکیں گے؟

میرا ذاتی مشاہدے کے مطابق پاکستان میں مختلف مذاہب کے بسنے والوں کے درمیان بین المذاہب رابطے میں کمی ہے۔ حتیٰ کہ گذشتہ 30 برسوں میں پاکستان کے طول و عرض میں دوران سفر یار دوستوں کے ساتھ جہاں کہیں بھی کبھی کوئی مندر یا گرجا گھر نظر آیا تو بے اختیار دل چاہا کہ اندر جا کر دیکھا جائے۔

اسی طرح کی کچھ صورتحال کا سامنا پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں واقع قدیم شوالہ تیجا سنگھ کے مندر کے دورے پر ہوا۔

یہ بھی پڑھیے

’یہ صحیح نہیں کہ تم ہندو بچوں کو پڑھا رہی ہو‘

’مندر میں توڑ پھوڑ دیکھ کر خوف سے زیادہ غصہ آیا‘

کیا مندر پر حیرت انگیز رنگ و روغن غیر قانونی ہے؟

مندر

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں واقع قدیم شوالہ تیجا سنگھ کے مندر کو 72 برس بعد عبادت کے لیے کھولا گیا ہے

شوالہ تیجا سنگھ کا یہ مندر چاروں اطراف سے شہر کے گنجان آباد علاقے میں قائم ہے۔ علامہ اقبال روڈ پر واقع اسلام آباد چوک سے اندر جانے والے محلہ دھارووال میں واقع یہ مندر قدرے اونچائی پر ہے اور چند سیڑھیاں چڑھ کر یہاں پہنچا جا سکتا ہے۔

متروکہ وقف املاک بورڈ (اویکیو ٹرسٹ پراپرٹی بورڈ) کی ویب سائٹ پر موجود ایک رپورٹ کے مطابق شوالہ تیجا سنگھ کا یہ مندر ایک ہزار برس پرانا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد سے اس مندر کو بند کر دیا گیا تھا۔

تاہم 25 اکتوبر سنہ 2019 کو اس مندر کو دوبارہ کھولا گیا اور اب 72 برس بعد 21 فروری سنہ 2020 کو جمعہ کے دن اس مندر میں پہلی مرتبہ مہاشوراتری کی پوجا کی گئی۔

اس مندر کے کھلنے سے قبل مقامی ہندو آبادی نے اپنے گھروں میں چھوٹے چھوٹے مندر بنائے ہوئے تھے جہاں وہ اپنی عبادت کرتے تھے۔ ان میں سے ایک 66 سالہ مقامی رہائشی بملارانی نے اپنے گھر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ہی مندر بنایا ہوا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ’شوالہ تیجا سنگھ کا مندر کھلنے سے پہلے ہم نے اپنے گھر میں بنائے گئے مندر میں ہی پوجا کرتے تھے۔ اب جب مندر پوجا کے لیے کھلا ہے تو ہم سب نے مل کر مندر میں مہاشوارتری کی پوجا کی ہے۔ اب ہم ہر پیر کو بھی مندر میں دل کھول کر پوجا کرتے ہیں، ہمیں اس کی بہت خوشی ہے۔‘

مندر

اس مندر کے کھلنے سے قبل مقامی ہندو آبادی نے اپنے گھروں میں چھوٹے چھوٹے مندر بنائے ہوئے تھے

علاقے کی مسلمان خواتین کا اس حوالے سے کیا رد عمل تھا کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے محلے کے (مسلمان) مرد اور خواتین بھی مندر آئے تھے وہ ہمیں اپنی عبادت کرتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتے بلکہ مہاشوراتری کے موقع پر انھوں نے ہمارے لیے کھانے کا بھی انتظام کیا تھا۔‘

ہندو مذہب کے تہوار مہاشوارتری کی یہ رات کسی چاند رات سے کم نہیں تھی۔ بچوں نے خوبصورت اور نئے لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ خواتین اور مرد خصوصی تیاری کے ساتھ تقریب میں شرکت کے لیے آئے تھے۔

پوجا کے آغاز سے قبل ایک چھوٹی سی تقریب کا بھی انعقاد کیا گیا۔ جس میں صوبائی وزیر اقلیتی امور و بین المذاہب اعجاز عالم آگسٹین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’آج آپ کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ اس مندر کو ایک ہزار برس قبل والی حالت میں بحال کیا جائے گا۔‘

مندر

اس مندر کے پجاری پنڈت بھگت جشپال نے ہمیں بتایا کہ اس محلے کے لوگ اس مندر کے آباد ہونے سے بہت خوش ہیں کیونکہ اس سے پہلے یہ ایک کھنڈر تھا اور یہاں نشے کے عادی افراد کا بسیرا تھا۔

پنڈت جشپال نے مزید بتایا کہ یہ مندر صرف ہندوؤں کے لیے نہیں کھلا بلکہ یہ تمام مذاہب کے لیے کھلا ہے۔ انھوں نے مزید اپنے جذبات کا یوں اظہار کیا:

’ہم جب اس گلی میں سے گزرتے تھے تو ہمارے دل میں ایک خواہش ہوتی تھی کہ کب یہ مندر کھلے گا اور کب ہم یہاں پوجا کر سکیں گے۔ اب اس مندر کے کھلنے سے ہمارا خواب پورا ہوا ہے۔ ہمارے علاقے میں ہندو مسلم محبت،امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں۔ ہم عید اکھٹے مناتے ہیں۔‘

مندر

انھوں نے مزید بتایا کہ ’ہم اذان کے احترام میں پوجا پاٹ روک لیتے ہیں۔ ہم ساتھ مل کر چلتے ہیں اور یہاں پر کسی قسم کا کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا‘

پنڈت جشپال کے والد 82 سالہ بھگت ہری رام نے نے کہا کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل شوالہ تیجا سنگھ مندر میں عبادت ہوتی تھی لیکن آزادی کے بعد جب لوگ انڈیا چلے گئے تب یہاں عبادت کم ہو گئی۔ یہ مندر کچھ ٹوٹ پھوٹ کا بھی شکار ہوا اور اس کی حالت خستہ اور خراب ہو گئی تھی لیکن اب اس کی دوبارہ تعمیر دیکھ ہمیں خوشی ہوتی ہے۔ یہ بہت خوبصورت ہے۔‘

انھوں نے ماضی کی یادوں کا تذکرہ کچھ یوں بیان کیا:

’میرے بچپن میں یہ مندر بہت خوبصورت ہوا کرتا تھا، اس کے اندر بہت سی چیزیں لگی ہوا کرتی تھیں۔ اس کے اوپر لگا ہوا شملہ ہمارے گھر سے بھی نظر آتا تھا۔ جب میں کچھ سات، آٹھ برس کا تھا تو ایک دفعہ ایسے ہی بھاگتا ہوا اس مندر چلا گیا تب وہاں پجاری نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ مقامی گوالوں نے اپنے جانور باندھے ہوتے تھے۔‘

مندر

پنڈت جسپال کے والد 82 سالہ بھگت ہری رام نے اس مندر کے حوالے سے اپنے بچپن کی یادوں کا ذکر کیا

اس مندر میں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں علاقے کے مسلمان افراد سیر و سیاحت کے لیے آتے ہیں جن میں زیادہ تر تعداد بچوں اور خواتین کی ہوتی ہے۔ ان میں کچھ خواتین اور بچوں سے ہم نے بات کی کہ وہ کس وجہ سے اس مندر کی سیر کو آتے ہیں تو زیادہ تر نے یہی جواب دیا کہ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہندو اپنی عبادت کیسے کرتے ہیں اور ان کی عبادت گاہ کیسی ہوتی ہے۔

سکول کے بچوں کی بڑی تعداد بھی مندر کا رخ کرتی ہیں اور اپنے سمارٹ فونز کے ذریعے وہاں کی تصاویر لیتے ہیں۔ محکمہ متروکہ وقف املاک کی طرف سے مقرر کردہ مسلمان چوکیدار کبھی ان بچوں کو منع کرتے ہیں تو کبھی مندر میں داخلے کی اجازت دے دیتے ہیں۔

ایک خاتون جو کہ مندر میں داخلے کی خواہش مند تھی کا کہنا تھا کہ ’یہ مندر بند ہونا چاہیے اور اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ آپ دیکھیں انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور یہاں ہم ان کے مندر آباد کر رہے ہیں۔‘

مندر کی مخالفت کے باوجود مندر میں جانے کی ضد پر انھوں نے کہا کہ انھیں صرف یہ مندر اندر سے دیکھنے کا تجسس ہے۔

اس علاقے کے ایک مقامی مسلمان دوکاندار نے مختصر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ جو مندر کھلا ہے بہت اچھا ہے لیکن آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔‘

سیالکوٹ سے ہی تعلق رکھنے والے 21 سالہ محمد حمزہ کا اس مندر کے آباد ہونے پر کہنا تھا کہ ’ یہ سب کچھ دیکھ کر بہت اچھا لگ رہا ہے کیونکہ ایک تو اس سے علاقے میں مذہبی ہم آہنگی بڑھے گی اور دوسرا لوگ اس مندر کی سیر کو بھی آئیں گے۔ یہاں پر مندر کھلنے سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر امن اور بھائی چارے کے ساتھ رہنا چاہیے۔‘

مندر

شوالہ تیجا سنگھ مندر کے پجاری پنڈت بھگت جشپال نے جہاں ایک طرف اپنی حب الوطنی کا اظہار کیا وہیں وہ انتہائی خوشی کے جذبات سے سرشار نظر آئے۔

شوالہ تیجا سنگھ مندر کے پجاری پنڈت بھگت جشپال نے جہاں ایک طرف اپنی حب الوطنی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسی دھرتی میں پیدا ہوئے اور ان کا جینا مرنا اسی دھرتی کے ساتھ ہے تو دوسری طرف وہ انتہائی خوشی کے جذبات سے سرشار نظر آئے۔ جسپال بہت خوش تھے کہ ان کا بیٹا، ان کے والد اور وہ خود اکھٹے تین نسلیں مل کر ایک ساتھ پوجا کریں گی۔

دوسری طرف ہری رام کی آواز میں موجود کرب کا اندازہ اس وقت ہوا جب انھوں نے سرسری الفاظ میں کہا کہ ان کی پہلی بیوی کو مسلمان کیا گیا تھا اور پھر انھوں نے بات بدلتے ہوئے کہا کہ ’پہلے ان بچوں کو یہ علم نہیں تھا کہ ہم کون ہیں اور ہمارا مذہب کیا ہے؟ اب ان کو اپنے مذہب کا پتہ چل گیا۔ اس سے پہلے کبھی کسی کی بات سنتے تو اس کے ساتھ ہو جاتے اور کبھی کسی کی ساتھ، اب یہ مندر کھلنے سے ان کو واضح طور پر علم ہو گیا ہے کہ ہم ہندو ہیں اور ہمیں ہندو بن کے ہی رہنا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32509 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp