بارہ ہزار سال پرانا ترک ثقافتی ورثہ ڈیم کے پانی کی نذر


جنوب مشرقی ترکی میں دریائے فرات کے ساحل پر روزانہ سینکڑوں افراد اُس عالمی ثقافتی ورثے کے آخری دیدار کو آتے ہیں جو ڈیم کے پانی میں غرق ہونے کو ہے۔

ترکی میں دریائے فرات کے کنارے الیسو ڈیم کی تعمیر جہاں ایک طرف علاقے کے باشندوں کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت دے رہی ہے وہاں دوسری جانب اس شہر کی بارہ ہزار سال پرانی تاریخ کے مٹنے کا خدشہ بھی ثقافتی ورثے سے لگاؤ رکھنے والوں کے لیے گہرے صدمے کا باعث بن رہا ہے۔

دیوہیکل سائز کے الیسو ڈیم سے گرنے والے پانی کی سطح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ پانی کے اس تیز بہاؤ کے سبب آہستہ آہستہ شہر ’حصن کیف‘ ڈوب رہا ہے اورایک ایسے علاقے میں سیلاب آ رہا ہے جسے ہزاروں سال تک انسانوں نے آباد کیا تھا۔

جنوب مشرقی ترکی میں دریائے فرات کے کنارے اس ڈیم کی تعمیر کے منصوبے کو ترک حکومت نے 1997 ء میں منظور کیا تھا۔ اس کا مقصد اس خطے کے لیے بجلی پیدا کرنا ہے۔ تاہم اس سے، تقریباً 80 ہزار افراد کے ٹھکانے جڑ سے اکھاڑ پھینکے جائیں گے جو ارد گرد کے قریب دو سو دیہات میں آباد ہیں۔ الیسو ڈیم کی تعمیر کے منصوبے نے پڑوسی ملک عراق کے حکام کو بھی خوف زدہ کر دیا ہے۔ جنہیں اپنے پانی کی فراہمی پر اس منصوبے کے منفی اثرات سے شدید خدشات لاحق ہیں۔

حصن کیف کی مختصر تاریخ

دنیا کے چند مقامات ایسے ہیں جو انسانی تاریخ کے تمام ادوار سے ایسے جُڑے رہیں گے کہ ان کی ظاہری شکل یا خد و خال مٹ بھی جائے تب بھی یہ ناقابل فراموش یادوں کے سہارے زندہ کہانیوں کی شکل میں ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک جنوب مشرقی ترکی میں دریائے فرات پر واقعے شہر حصن کیف ہے جو نہ صوف ترکی اور آس پاس کے ممالک بلکہ عالمی تاریخ کا ورثہ مانا جاتا ہے۔ اس کی تاریخ بارہ ہزار سال پُرانی ہے جس کا مطلب ہوا کہ اس علاقے نے دنیا کی چند قدیم ترین تہذیبوں کے رنگ اپنے اندر سمیٹے اور یہ کئی سلطنتوں کے مدو جزر سے آشنا ہے۔ تنہا اس کے نام کو متعدد قدیمی زبانوں میں مختلف انداز میں لکھا اور جانا گیا۔ آرامی یا سامی زبان کے علاوہ عربی، ترکی، فارسی، کرد، یونانی اور لاطینی زبان میں اسے مختلف طرح سے لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ اس علاقے کی ثقافت پر ان تمام ثقافتوں کو گہرے اثرات پائے جاتے ہیں۔

حصن کیف کے نوادرات

۔ سن 1116 میں دریائے فرات پر تعمیر ہونے والا قدیم پُل جسے سلطنت ارتوق کے سلطان فخرالدین کارا ارسلان نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ اب ایک کھنڈر بن چُکا ہے۔ اس کے کُچھ حصے چوبی یعنی لکڑی کے تھے۔

۔ ارتوق سلطان کا محل
۔ ایوبی مسجد
۔ چھوٹا ایوبی محل
۔ کھڑی چٹان پر بنی سکونت
۔ زین ال بے کا مقبرہ۔ جو 15 ویں صدی کے حکمران اووزون حسن کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔

الیسو ڈیم کی تعمیر کے اثرات

برسوں کی ناکامیوں کے بعد گزشتہ جولائی میں یہ ڈیم بھرنا شروع ہوا۔ تب حصن کیف اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں پانی کی سطح پہلے ہی قریب پندرہ میٹر بلند ہو چُکی تھی۔

یہ ڈیم ترکی کے جنوب مشرقی علاقے اناطولیہ کے غریب ترین اور معاشی طور پر پسماندہ اور کم ترقی یافتہ علاقے کی ترقی اور فروغ کے منصوبے کے لیے ڈیزائن کیے گئے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔

بیشتر رہائشیوں نے حصن کیف کو چھوڑ کر نزدیک ہی قائم پہاڑی شہر یینی حصن کیف میں سکونت اختیار کر لی۔ ایک بار ڈیم مکمل طور پر تعمیر ہو جانے کے بعد ایک نئی جھیل کے کنارے یہ شہر آباد ہوگا۔ فی الحال وہ اس مقام سے ایک قدیم پل کے پتھر کے ستون دیکھ سکتے ہیں جو کبھی دجلہ، اور اس کی ٹھوس محرابوں کو ایک دوسرے سے جدا کیے ہوئے تھا یہ دونوں ہی آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں۔

جدید پل کے دونوں سرے پر گندگی کا ڈھیر لگا ہے، جو حصن کیف قصبے میں داخلے کا راستہ ہے۔ یہ مقامی باشندوں کو حصن کیف میں داخل ہونے سے روکنے کا کام بھی انجام دے رہا ہے۔ گاؤں کے محافظ اس کے آخری سرے پر تعینات رہتے ہیں۔

تاریخ اہم یا مستقبل

الیسو ڈیم بارہ سو میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا۔ توانائی کی پیداوار کے لحاظ سے یہ ترکی کا چوتھا سب سے بڑا ڈیم ہوگا۔ اُس تاریخی حصن کیف قلعے کے نیچے، جہاں رومی، منگول سلجوق ترک سب ہی کی سلطنتوں کا سورج طلوع و غروب ہوا۔ یہاں سے علاقائی باشندے یا تو لڑائی میں جیت کر ان علاقوں پر اپنا راج قائم کرتے ہوئے یا شکست خوردگی کے بعد کہیں اور جا بسے۔ یہ وہ آبی درہ یا گہری وادی ہے جہاں کبھی سینکڑوں غاروں میں انسان بسے ہوئے تھے۔ اب ان غاروں کو پچاس میٹر اندر تک کنکریٹ سے بھر دیا گیا ہے۔
بشکریہ ڈوئچے ویلے۔

کشور مصطفیٰ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

کشور مصطفیٰ

یہ مضامین ڈوئچے ویلے شعبہ اردو کی سیینیئر ایڈیٹر کشور مصطفی کی تحریر ہیں اور ڈوئچے ویلے کے تعاون سے ہم مضمون شائع کر رہے ہیں۔

kishwar-mustafa has 46 posts and counting.See all posts by kishwar-mustafa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments