”شہر ہو تو ایسا ہو، عاشق ہوں تو ایسے ہوں“


لاہور: شہرِ پرکمال۔
اردو کے تین ممتاز ادیبوں کی لاہور سے محبت کی کہانی۔

”کسی بھی بڑے آدمی کی زندگی کا جائزہ لیں، معلوم ہو گا اسے جن چیزوں نے بڑا بنایا اس میں اس ماحول کا بہت دخل رہا جس میں وہ پروان چڑھا۔ “ کتاب کے آخری صفحات میں درج یہ جملہ اس کتاب کی اشاعت کے محرّک کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ لاہور سے بے پناہ محبت کرنے والے ایک صحافی کی کتاب ہے۔ نام ہے ”لاہور: شہر پرکمال“ اور یہ تذکرہ ہے لاہور کے تین عشاق کی لاہور سے جڑی یادوں کا۔

اردو کے تین قدآورادیبوں کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اور کنہیا لال کپور کو حالات کے جبر کے تحت یہ شہر چھوڑنا پڑا لیکن ان کا دل عمر بھر اس شہر کے محلوں، بازاروں اور گلیوں میں اٹکا رہا۔ وہ رہ رہ کر اس شہر کی فضاء اور اس کے کرداروں کو یاد کرتے اور آہیں بھرتے رہے۔ ان کی آہیں ان کی تحریروں، پرانے دوستوں کے نام خطوط اور ملنے والوں کی یادداشتوں کی صورت میں بکھری پڑی تھیں۔ محمودالحسن نے عرق ریزی سے یہ یادیں ترتیب دے کر ناصرف یہ کہ ایک خوب صورت مرقع تیار کیا بلکہ لاہور اور اردو ادب کے تعلق سے ایک اہم ریفرنس بک تیار کرکے محققوں کے لیے بھی آسانی پیدا کر دی ہے۔

کتاب میں پہلا مضمون کرشن چندر سے متعلق ہے۔ ویسے تو کرشن چندر نے ان گنت بار اس طلسماتی شہر کا ذکر کیا لیکن نقوش میں چھپے ان کے الفاظ میں لاہور کے بارے میں ان کی وارفتگی کا خوب اندازہ ہوتا ہے : ”لاہور میں رہ کر کوئی بوڑھا نہیں ہو سکتا۔ وہ میرا سدا جگمگاتا ہوا فانوس بدن شہر اپنی لافانی جوانی کے لیے مشہور ہے۔ اس شہر میں رہ کر کوئی بوڑھا ہوتا ہے تو بہتر ہے وہ اس شہر کو چھوڑ دے اور منڈی بہاء الدین، بستی چھپڑاں والا اور چک نمبر چار سو بیس میں جا کر سکونت اختیار کر لے، مگر لاہور کے نام کو بٹا نہ لگائے“

کرشن چندر کے افسانوں میں جا بجا اس شہر کے گلی کوچوں اور ان میں رہتے بستے کرداروں کا ذکر ہے۔ ان کی تعلیم اور ادبی جولان گاہ میں قدم رنجہ فرمانے کی کہانیاں بھی ہیں۔ چند اہم خطوط بھی شامل ہیں۔

راجندر سنگھ بیدی کا حال بھی کچھ الگ نہ تھا۔ انہوں نے اس شہر میں پرورش پائی، جوانی میں یہاں کی ہنگامہ خیز سیاست میں بھی سرگرم رہے۔ خود کو منوانے کے لیے بڑے جتن کیے لیکن بقول محمود الحسن ”دل مضطر فکشن لکھ کر ہی سنبھلا“، مضمون میں ان دو بڑوں یعنی کرشن چندر اور بیدی کی پہلی ملاقات کی کہانی کافی دلچسپ ہے۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ بیدی کچھ عرصہ پبلشر بھی بنے، وہ قصہ بھی خوب ہے۔ اس مضمون میں بیدی کے دوست ستیارتھی اور منٹوکی قلمی نوک جھونک کی کہانی بھی خاصے کی چیز ہے۔ لاہور کے بارے میں بیدی کا یہ جملہ کہ ”عشق کے لیے لاہور سے بہتر دنیا میں کوئی اور جگہ نہیں“ کس بلاغت اور اختصار سے اس شہر کی کھلی ڈلی فضاء کو عکس کر دیتا ہے۔

کنہیا لال کپور بھی قتیلِ لاہور تھے۔ اس مضمون کی ابتداء انہی کے الفاظ میں ہوتی ہے کہ ”لاہور کا تصور کرتے ہی دِل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے اور بے اختیار زبان پر ناسخ کا یہ شعر آ جاتا ہے :

وہ نہیں بھولتا، جہاں جاؤں
ہائے میں کیا کروں، کہاں جاؤں؟

اور جب کنہیا لال کپور لاہور سے جا کر بھارتی پنجاب کے علاقے موگا میں آباد ہوئے تو لاہور کی یاد میں دل کے پھپھولے یوں پھوڑتے رہے ”جب تک ہندوستان لاہور کا ثانی پیدا نہیں کرتا میرے لیے ہندوستان کے تمام شہر اور قصبے برابر ہیں“

کنہیا کی ذہنی تشکیل میں پطرس بخاری کا بھی کافی کردار رہا ہے۔ ان استاد اور شاگرد کے تعلق کی کہانی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ بیدی کے ساتھ کنہیا کی پہلی ملاقات بھی کرشن چندر نے کرائی تھی۔ اس کتاب میں تین ان سر بر آوردہ لوگوں کا ذکر ہے جن کا پہلا اور مشترک حوالہ شہر ِلاہور ہے۔ کنہیا لال کپور اکہرے بدن کے آدمی تھے۔ ان کے ہم عصروں نے ان کے بشرے کوبھی ہلکے پھلکے مزاح کا موضوع بنایا، کنہیا بھی کسی سے کم نہ تھے، ان کاجوابی واربھی تیکھا ہوتا تھا۔ کے ایل کپور کے نام سے شائع ہونے والے درسی کتب کے خلاصوں کا ذکر بالکل نئی چیز ہے۔

تقسیم ہند کے ہنگام جب لاہور میں بدترین ہنگامے پھوٹ پڑے تو کنہیا شدید ذہنی کوفت سے گزرے۔ ان کا اپنے گھر کا سامان باندھنے اور باہر رکھ کر با ربار واپس اندرلے آنے کا قصہ عجیب اداس کر دینے والا ہے۔ تصور کیجیے اس شخص کی کیفیت کیا ہو گی جسے حالات ترک سکونت پر مجبور کر رہے ہوں اوروہ دِل کے ہاتھوں مجبور ہو اور اسی شہر میں سکونت پر مصرہو۔ یہی کچھ حال کنہیا لال کپور کا تھا۔ ساحر لدھیانوی نے لکھا: ”فکر تونسوی اور کنہیا لال کپور دو آخری غیر مسلم ادیب تھے جنھوں نے روتے ہوئے لاہور کو الوداع کہا“

تو صاحبو! یہ جھلکیاں ہیں اس کتاب کی جس میں لاہور کے تین نامی عشاق کی یادیں یکجا ہیں۔ کتاب کے دیپاچے میں ممتاز ادیب اور نقادشمس الرحمان فاروقی لکھتے ہیں ”کتنی اچھی بات ہے کہ محمود الحسن نے ان نابغہ روزگار عشاقِ لاہور کو لاہور میں رکھ کر ہمیں دکھا دیا کہ شہر ہو تو ایسا ہو، عاشق ہوں تو ایسے ہوں“

کتاب کے ساتھ اپنا تجربہ یوں بھی منفرد ہے کہ جب اس کا مطالعہ شروع کیا تو گویا تقسیم ہند سے قبل کے لاہور کی فلم سی ذہن کے پردے پر چلنے لگی، اس دور کے مال روڈ، انارکلی بازار، کچہری، ہندو ہاسٹل، عرب ہوٹل، بھاٹی گیٹ، پرانے لاہور کی گلیاں اور ان میں دوڑتی پھرتی زندگی، غرض کیا کیا چشم تصور نے نہیں دیکھا۔ کتاب مکمل ہوئی اور ذہن و دِل پراس شہر پرکمال کا دلکش نقش چھوڑ گئی۔ کتاب ”قوسین“ نے شائع کی ہے جسے ریڈنگز گلبرگ لاہور اور کتاب سرائے غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments