کشمیر میں لاک ڈاؤن: ’انڈیا اور پاکستان دونوں نے ہماری تکلیفوں سے فائدہ اٹھایا‘


ظفر احمد

ظفر احمد پیدائشی طور پر نابینا ہیں

ظفر کہتے ہیں ’میں نے انڈیا کی دیگر ریاستوں میں سیمینارز میں شرکت کرنا تھی لیکن خطے میں پابندیوں اور مواصلاتی نظام میں بلیک آؤٹ کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ سمارٹ فون ان کی زندگی کا اہم جزو ہے کیونکہ وہ اپنے کام کی نوعیت کے لحاظ سے جی پی ایس اور دیگر ایپلیکیشنز پر انحصار کرتے ہیں۔

’لیکن جب سے انڈین حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کیا ہے میرے حالات تباہ کن ہیں میں چار ماہ سے گھر میں محدود ہو کر رہ گیا ہوں۔ کیونکہ میں انٹرنیٹ پر پابندی کی وجہ سے راستوں سے آگاہی یا دوستوں سے رابطے کے بغیر گھر سے نہیں نہیں نکل سکتا۔

ظفر 80 لاکھ کی آبادی میں موجود چار فیصد افراد میں شامل ہیں جو کسی معذوری میں مبتلا ہیں۔ یہاں مکمل طور پر نابینا یا ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے کہ جو جزوی طور پر بینائی کھو چکے ہیں اس کی وجہ انڈیا مخالف مظاہروں کے دوران پیلٹ گن سے ان پر حکومتی فوج کی جانب سے ہونے والی فائرنگ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

آرٹیکل 370: کشمیری ہو، مکان خالی کر دو

کشمیر ڈائری: کیا شناخت چھینی یا مٹائی جا سکتی ہے؟

ظفر بین الاقوامی برادری پر زور دیتے ہیں کہ وہ معذور آبادی کے ساتھب ہونے والی ان ان ناانصافیوں کا نوٹس لے۔

ارسلان ریاض

ارسلان ریاض

ارسلان ریاض بارہویں جماعت کے طالبعلم ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ رات گئے پیراملٹری فورسز کی سری نگر کی گلیوں میں پیٹرولنگ کے دوران ان کی جانب سے برے سلوک سے بچنے کے لیے اکثر اپنے امتحان کی تیاری موم بتی کی روشنی میں کرتے تھے۔

ارسلان کہتے ہیں کہ انھیں پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں رہی جب تین ماہ پہلے حکومت نے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا اور ہمیں دو یونینز میں تقسیم کر دیا۔

ان کے والد بینک میں ملازمت کرتے ہیں اور وہ ارسلان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ آئندہ امتحان کے لیے تیاری کرے لیکن وہ کہتے ہیں کہ والد کی باتیں انھیں مزید پریشان کرتی ہیں۔

حتیٰ کہ جب حکومت نے جزوی طور پر مواصلاتی نظام بحال کر دیا اور کرفیو میں نرمی کی گئی اور سکول و کالج کھولنے کا حکم دیا تب بھی ارسلان فوری طور پر سنبھل نہیں پائے۔

سید احمد رفیع ایک ایسی جگہ پر کھڑے ہیں جہاں موجود پل سے عوامی نقل و حرکت ممنوع ہے اور وہاں خار دار تاریں لگی ہوئی ہیں

سید احمد رفیع ایک ایسی جگہ پر کھڑے ہیں جہاں موجود پل سے عوامی نقل و حرکت ممنوع ہے اور وہاں خار دار تاریں لگی ہوئی ہیں

سید احمد رفیع شعبہ صحافت کے طالبعلم ہیں۔ وہ سری نگر کالج میں زیر تعلیم ہیں اور وہ صحافت میں ماسٹرز کرنے کے بعد براڈکاسٹنگ کے شعبے میں جانا چاہتے ہیں۔

سید کا خیال ہے کہ اس ہنگامہ خیز وقت کے دوران کشمیریوں کو کچھ بھی نہیں ملا، چاہے وہ انڈیا ہے یا پاکستان دونوں نے ہماری تکلیفوں سے فائدہ اٹھایا۔

احمد کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع نہیں جب وہ لمبے عرصے تک محصور ہوئے ہوں۔

وہ کہتے ہیں ’اس سے پہلے سنہ 2016 میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد عوام کے احتجاج کو حکومت نے اسی طرح ختم کیا تھا جیسے سنہ 2019 میں کشمیر کی خودمختاری کے ختم ہونے پر کیا گیا۔‘

احمد سوال کرتے ہیں کہ اگر اقوام متحدہ اس وادی میں فعال ہوتی تو کم سے کم ہمیں بنیادی حقوق تو ملتے جیسا کہ انٹرنیٹ اور اظہار رائے کی آزادی۔

مدثر 24 سال کے ہیں۔ وہ بزنس کے شعبے میں پوسٹ گریجوایٹ کر رہے ہیں اور سری نگر کی ایک این جی او میں رضاکارانہ طور پر کام کر رہے ہیں۔

مدثر، کشمیر

مدثر نے چار ماہ گھر میں انٹرنیٹ کے بغیر کام کیا

مدثر نے بتایا کہ ایک بار انھوں نے اندرون شہر کی گلیوں سے دفتر جانے کی کوشش کی لیکن پابندیوں کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو سکا۔

وہ کہتے ہیں آف لائن کام نہ کرنے کے باوجود ان کے کام کا مکمل انحصار انٹرنیٹ پر ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ گھر میں بیٹھ کر کا کام کرتے تھے لیکن وہ مواصلاتی طور پر رابطوں کے بلیک آؤٹ کی وجہ سے کام سے متعلق ریکارڈ نہیں رکھ سکتے تھے۔ مدثر نے بتایا کہ ہم چار ماہ تک اپنے گھروں میں محدود رہے۔

’یہ میرے لیے شدید ترین پریشانی کی صورتحال تھی کیونکہ کمیونکیشن کے بلیک آؤٹ کی وجہ سے میں نہ کوئی نمبر ملا سکتا تھا نہ انٹرنیٹ پر سرچ کر سکتا تھا۔‘

پرسکون کمرے میں اپنے لیپ ٹاپ پر جس پر انٹرنیٹ موجود نہیں، کام کرتے ہوئے مدثر نے کہا کہ وہ شاپنگ بھی آن لائن کرتے ہیں تاکہ وہ مارکیٹ میں جا کر اپنے چھوٹے قد کی وجہ سے لوگوں کی توجہ اور گفتگو کا حصہ نہ بنیں۔

اداس لہجے میں مدثر نے کہا ’میں عموماً انٹرنیٹ پر ای شاپ ویب سائٹ سے شاپنگ کرتا ہوں لیکن پانچ اگست سے انٹرنیٹ کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے میں پرانے کپڑے پہننے پر مجبور ہوں اور گھر میں محدود ہوں۔‘

مصدق احمد (جن کا نام ان کی حفاظت کے پیش نظر تبدیل کر دیا گیا ہے) کہتے ہیں کہ انھیں قانون کی اعلیٰ تعلیم کے لیے سینٹرل یورپین یونیورسٹی کے فل سکالر شپ کی پیشکش ہوئی تھی لیکن وادی کی صورتحال کی وجہ سے وہ اپنے ویزے کی اپلیکشن کے بارے میں نہیں جان سکے۔

وہ سفارتخانے سے یہ چیک کرنے کے لیے بھاگ کر دلی پہنچے کیونکہ وہ کشمیر میں بیٹھ کر رابطہ نہیں کر سکتے تھے لیکن تب تک یونیورسٹی کی ڈیڈ لائن گزر چکی تھی۔

اب ان کے پاس ایک ہی راستہ بچا تھا اور وہ یہ تھا کہ وہ دوبارہ اپلائی کریں اور مدت بڑھانے کے لیے درخواست دیتے۔

مصدق کہتے ہیں ’ویزے کے لیے دوبارہ اپیل کرنے کے لیے مجھے کہا گیا ک کچھ دستاویزات لے کر آئیں۔ بلیک آؤٹ کی وجہ سے میں اپنے خاندان سے بات نہیں کر سکا اور دوسری ڈیڈ لائن بھی گزر گئی۔ میں نے اپنا تعلیمی سال اور ایک بہت بڑا موقع گنوا دیا۔‘

عظمیٰ جو کہ صحافت کی طالبہ ہیں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں یہ صورتحال عام ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں کرفیو، شٹ ڈاؤن، قتل اور تشدد کو دیکھتے ہوئے بڑی ہوئی ہوں۔

عظمیٰ

عظمیٰ

وہ کہتی ہیں کہ ہم نے حکومت سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا لیکن کم ازکم مجھ جیسے متوسط طبقے کے طلبا و طالبات کو حکومت کو بنیادی حقوق کو دینے چاہیے۔

عظمیٰ کہتی ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد جب کچھ دن بندشوں میں گزرے تو ہم یہ امید کر رہے تھے آگے چل کر ہم آزادی سے باہر نکل سکیں گے اپنے خاندان، دوستوں اور رشتہ داروں سے رابطہ کر سکیں گے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ یہاں تک کہ سخت پابندیوں مواصلاتی رابطوں میں بلیک آوٹ کے چار ماہ گزر گئے۔

وہ کہتی ہیں جو بتدرین صورتحال میں نے اپنے اردگرد دیکھی وہ بہت سے خاندانوں میں ان کے پیاروں کی موت کی خبر تھی جو انھیں تب ملی جب فون کی سروس بحال ہوئی۔ وہ کہتی ہیں ’یہ ایسا ہی تھا جیسے ہم اپنے آبا و اجداد کے دور میں جی رہے ہوں۔‘

عظمیٰ کہتی ہیں کہ پانچ اگست کے بعد سے اب چھ ماہ سے اوپر ہو گئے ہیں لیکن انٹر نیٹ کی سروس کی بحالی ہمارے گمان سے کہیں دور ہے۔ وہ کہتی ہیں ’کشمیر کو پتھر کے دور میں واپس پہنچا دیا گیا ہے۔‘

آخر میں عظمیٰ نے طنزیہ انداز میں کہا کہ کشمیر جو کہ پہلے ہی دنیا کا سب سے بڑا فوجی علاقہ ہے میں انٹرنیٹ کی طویل ترین بندش کی تاریخ رقم کرنے کے لیے حکومت نے ہمارے خوابوں کو پامال کیا ہے اور ہماری امیدوں کو مار ڈالا ہے۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp