#PSL2020: سمیع چوہدری کا کالم ’اس دن عاقب جاوید کس کے لیے کھیلیں گے؟‘


عاقب جاوید

قلندرز ہر سال جیت کی خواہش میں پورا سیٹ اپ بدلتے ہیں۔ ہر سال کپتان بدلا جاتا ہے، ڈرافٹ میں مہنگے بلے باز اٹھائے جاتے ہیں مگر نہیں بدلتی تو ہیڈ کوچ کی کرسی نہیں بدلتی

فارسی کی ایک مشہور کہاوت ہے ’قلندر ہر چہ گوید، دیدہ گوید‘ یعنی قلندر جو بھی کہتا ہے، دیکھ کر کہتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ قلندر وہ ہوتا ہے جو چشمِ زدن میں ہزاروں سال آگے دیکھ سکتا ہے۔ قلندر عام انسانوں کے برعکس وقت اور خلا جیسی طبعی حدود و قیود سے ماورا اپنا ایک وجود رکھتا ہے۔

گو کہنے سننے میں شاید عجیب سا لگے مگر لاہور قلندرز کا بھی معاملہ کچھ یونہی ہے کہ یہ زمینی حقائق اور تمام تر طبعی حدود و قیود سے ماورا کوئی اپنا ہی وجود رکھتے ہیں۔

وگرنہ کون بدنصیب ہو گا کہ پانچ سال پہلے 25.1 ملین ڈالر کی فرنچائز خریدی ہو اور پھر ہر سال کروڑوں کا گھاٹا اٹھاتا چلا آ رہا ہو۔

اس کے باوجود ہر سیزن کے اختتام پر کپڑے جھاڑ کر، مسکراتا ہوا اٹھ کھڑا ہو اور پنجابی تھیٹر کی مشہور جگت کی طرح دنیا کو بتائے کہ ’میں اترتا ہی ایسے ہوں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’دن بدل گئے، سال بدل گیا، نہ بدلا تو قلندرز کا نصیب‘

’مگر پی سی بی جیت گیا۔۔۔‘

پاکستانی ٹیم میں جگہ کے لیے پی ایس ایل کتنا ضروری؟

پہلے سیزن میں قلندرز نے اکتیس کروڑ روپے کا خسارہ اٹھایا۔ دوسرے سیزن میں مزید ترقی ہوئی اور سیزن کا خسارہ بیالیس کروڑ روپے تک جا پہنچا۔ اب تک پی ایس ایل کی منعقدہ تمام سیرنز میں قلندرز کبھی بھی پوائنٹس ٹیبل کے آخری دو خانوں سے اوپر نہیں جا پائے۔

رانا فواد

اس دوران قلندرز نے کرس گیل جیسے مہان بلے بازوں کی خدمات بھی حاصل کیں، اے بی ڈی ویلیرز کو بھی زحمت دی، کپتان پر کپتان بدلے۔ یہ واحد فرنچائز ٹھہری جو لگ بھگ ہر سال کپتان بدلتی رہی اور سہیل اختر چھٹے سیزن میں اس فرنچائز کے ساتویں کپتان ہیں۔

ملتان کے علاوہ یہ واحد فرنچائز ہے جس نے ابھی تک پی ایس ایل سے خسارے کے سوا کچھ نہیں کمایا۔ یہ اعدادوشمار فرنچائز کی آن فیلڈ کارکردگی پر تو سوالات اٹھاتے ہی ہیں لیکن آف فیلڈ بزنس ماڈل کو بھی معمہ سا بنا چھوڑتے ہیں۔

یہ بھاری خسارے اٹھا کر بھی قلندرز کی فرنچائز پی ایس ایل کے سبھی سٹیک ہولڈرز میں سے واحد ہے جو ہر سال ٹیلنٹ ہنٹ پروگراموں پر کروڑوں بہاتی ہے۔ بگ بیش کے ساتھ معاہدوں کے طفیل حارث رؤف ایسے پلیئرز پر بھی خوب پیسہ لگاتے ہیں مگر نہ تو کبھی جیت پاتے ہیں اور نہ ہی کوئی نیک نامی کماتے ہیں۔

تاریخی طور پہ لاہور ہمیشہ سے کرکٹ کا گڑھ رہا ہے۔ پاکستان کے پہلے ٹیسٹ کپتان عبدالحفیظ کاردار اسی زرخیز شہر کے باسی تھے۔ اسی شہر نے سعید انور، عامر سہیل، ثقلین مشتاق اور وسیم اکرم جیسے نابغے پیدا کیے مگر قلندرز کی فرنچائز نے تو گویا اس ساری درخشاں تاریخ کا پہیہ الٹا گھما دیا۔

انگریزی میں مشہور کہاوت ہے reinventing the wheel یعنی پہیے کو پھر سے ایجاد کرنا۔ اب تک کی تمام تر قلندرانہ پرفارمنسز کو دیکھا جائے تو گماں ہوتا ہے کہ شاید یہ لوگ بھی پہیے کو پھر سے ایجاد کرنا چاہ رہے ہیں۔

کوئی بھی اچھی کرکٹ ٹیم بنانے کا دیرینہ فارمولہ ہے کہ آپ اپنے پانچ بہترین بلے باز چنتے ہیں، ایک اچھا وکٹ کیپر، ایک اچھا آل راؤنڈر اور چار بہترین بولر شامل کر کے ایک زبردست ٹیم تشکیل دے سکتے ہیں۔

قلندرز اس کے برعکس کچھ اور سوچتے ہیں۔ کیا سوچتے ہیں، کچھ یقینی طور سے کہا نہیں جا سکتا، بس اندازے اور تخمینے لگائے جا سکتے ہیں کہ آخر یہ چاہتے کیا ہیں۔

پی ایس ایل

لاہور زندہ دلوں کا شہر ہے جو کرکٹ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، وہ ہر سال ماضی کو بھلا کر نئے سرے سے ٹیم کی پشت پناہی کا تہیہ کرتے ہیں

حیران کن امر یہ ہے کہ قلندرز ہر سال جیت کی خواہش میں لگ بھگ پورا سیٹ اپ بدل دیتے ہیں۔ ہر سال کپتان بدلا جاتا ہے۔ ڈرافٹ میں مہنگے سے مہنگے بلے باز اٹھائے جاتے ہیں، کوچنگ ٹیم بھی ساری کی ساری بدل دی جاتی ہے مگر نہیں بدلتی تو ہیڈ کوچ کی کرسی نہیں بدلتی۔

ہیڈ کوچ کی کرسی پر عاقب جاوید ہیں جو زمانۂ قدیم سے براجمان ہیں۔ بطور بولر، ان کی پاکستان کے لیے بے شمار خدمات ہیں مگر بطور کوچ ان کے کریڈینشلز بہت زیادہ قابلِ فخر نہیں رہے۔

پاکستان ٹیم کے ساتھ بولنگ کوچ اور اسسٹنٹ کوچ کے دو تین مختصر ادوار کے علاوہ نہ تو انھوں نے انٹرنیشنل کرکٹ میں کبھی ایسوسی ایٹ لیول سے اوپر کوچنگ کی ہے نہ ہی کوئی خاص کامیابی ان کے نام ہوئی ہے۔

فرنچائز کرکٹ میں تمام تر تکنیکی فیصلے اور تزویراتی پہلو ہیڈ کوچ کی جانب سے طے کیے جاتے ہیں۔ ہیڈ کوچ ہی طے کرتا ہے کہ ڈرافٹ پر کس کس پلیئر کو لیا جائے گا، کپتان کون ہو گا، ٹیم کمبینیشن کیا ہو گا اور بحیثیتِ مجموعی فرنچائز کی اپروچ کیا ہو گی۔

قلندرز کبھی یہ طے ہی نہیں کر پائے کہ اس ٹورنامنٹ میں ان کی بنیادی اپروچ کیا ہے۔ کیا وہ جیتنے کے لیے کھیلتے ہیں؟ یہی سوال ایک غیر رسمی ملاقات میں عاقب جاوید سے میں نے پوچھا تو ان کا جواب خاصا حیران کن تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جیتنا تو کوئی مسئلہ نہیں، چار تگڑے فارن پلیئرز کھلا کر آسانی سے جیت سکتے ہیں، ہم تو لوکل ٹیلنٹ کو ایکسپوژر دے رہے ہیں، اس لیے ہار ہمارا مقدر بنتی ہے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ قلندرز نئے ٹیلنٹ کی سرپرستی کے لیے بہت جوکھم اٹھا رہے ہیں اور فخر زمان، حارث رؤف جیسے کھلاڑی بھی قومی ٹیم کو دیے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ٹورنامنٹ کی کامیاب ترین فرنچائز اسلام آباد یونائیٹڈ نے دو ٹائٹل جیت کر بھی لاہور سے زیادہ پلیئرز قومی ٹیم کو دیے ہیں۔ شاداب خان کی مثال لیجیے، حسین طلعت کو دیکھ لیں یا رمان رئیس ہی۔

اسی پیرائے میں دیکھا جائے تو پشاور نے بھی حسن علی جیسے کھلاڑی قومی ٹیم کو دیے ہیں۔

اب تک کی تمام کارگزاری دیکھیے تو سمجھ نہیں آتا کہ جب ہر ٹیم کا کوچ سٹریٹیجک ٹائم آوٹ میں ٹیم میٹنگ کا مرکزی کردار ہوتا ہے تو عاقب جاوید آج تک ہمیں ایسی میٹنگز میں نظر کیوں نہیں آئے۔

قلندرز کے کوچنگ سیٹ اپ میں رہے سابق کرکٹر عتیق الزماں بھی اس بارے کھل کر بول چکے ہیں۔ وہ تو یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ برینڈن میکلم ٹیم میٹنگز میں شرکت ہی نہیں کرتے تھے۔

مگر اس سارے گھمسان میں ایک چیز ہے جسے یہ فرنچائز اور مینیجمنٹ یکسر بھلا بیٹھی ہے کہ یہ شہر زندہ دلوں کا شہر ہے جو کرکٹ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور جیت کی بھوک بھی بہت رکھتے ہیں۔ وہ ہر سال ماضی کو بھلا کر نئے سرے سے ٹیم کی پشت پناہی کا تہیہ کرتے ہیں۔

فرنچائز کرکٹ کی خوبی ہی یہ ہے کہ یہ ہوم گراؤنڈ کی سپورٹ سے پھلتی پھولتی ہے۔ اگر قلندرز کی کارکردگی کا یہی عالم رہا تو بعید نہیں کہ کسی روز قذافی سٹیڈیم میں لاہور قلندرز کا میچ ہو اور سٹیڈیم ایسے خالی ہو جیسے ایک بار ڈیرن سیمی کے ٹیم سے اخراج پر ویسٹ انڈیز انڈیا ٹیسٹ کے پانچوں دن ایک بھی شائق سینٹ لوشیا کے سٹیڈیم میں داخل نہ ہوا تھا۔

اس دن عاقب جاوید کس کے لیے کھیلیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32541 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp