اللہ عورت مارچ پر عورت کو بچائے


عورت مارچ ہونے والا ہے اور عورتیں پھر سڑکوں پر اپنا حق مانگنے نکل رہی ہیں۔ دراصل عورت کا استیصال ہوتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم بحیثیت معاشرتی عورت کے حقوق ادا نہیں کرتے۔ عورت اپنے فیصلوں میں قطعاً خودمختار نہیں حتیٰ کہ بنیادی انسانی فیصلوں میں بھی نہیں لیکن عورت کا استیصال ایک طبقے کے استیصال سے مملو ہے اور وہ ہے محنت کش طبقہ۔ محنت کش خواتین یا متوسط طبقہ کی خواتین جنسی، جذباتی اور نفسیاتی استئیصال کا زیادہ شکار ہوتی ہیں اور یہ تمام استئیصال معاشی تفریق کا شاخسانہ ہیں۔

معاشی آزادی بہت حد تک معاشرتی آزادی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوں میں بھی بیسیوں صدی کے شروع میں کہیں عورتوں کے حقوق ملنا شروع ہوئے۔ وراثت میں حصہ ملا اور یورپی عورت کی آزادی بھی معاشی آزادی کے نتیجے میں عمل میں آئی۔ ہماری عورت جب عورت مارچ کرتی ہے اور، ”میرا جسم میری مرضی“ جیسے اوٹ پٹانگ نعرے لگا کر اپنے تشخص کا اظہار کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو مجھے بہت ترس آ تا ہے کیونکہ میں ان واہیات لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو عورت کے جسم کو اس کی مرضی کے عین مطابق ٹٹول کر کہہ دیتے ہیں امی نہیں مانتیں۔

ایسے باسز ہیں جو خواتین کی مرضی کے عین مطابق آفس کے بعد ون آن ون میٹنگ کرتے رہتے ہیں اور خاتون اس میٹنگ کے بدلے میں کچھ مراعات یا باقی کولیگز پر رعب داب کا استحقاق حاصل کر لیتی ہیں۔ ایسے بنک برانچ اور بینک مینیجرز ہیں جو جھٹ پٹ ٹارگٹ پورا کر لیتے ہیں اور خواتین کے ٹارگٹ بھی پورے کروا دیتے ہیں۔ عورت بے چاری کیا کرے۔ صنف نازک ہے۔ جذبات کی رو میں بہہ جاتی ہے۔ کسی سے محبت کرے تو وہ کھیل کر پتلی گلی سے نکل جاتا ہے۔

یہاں یہ نعرہ کہ ”میرا جسم میری مرضی“ کی بجائے ہونا چاہیے، ”میری عقل میری مرضی“۔ یہاں عورت کا استئیصال صرف جنس کی حد تک رہ جاتا ہے۔ یہاں عورت کی آزادی کے تمام نعرے اس کی جنسی آزادی تک محدود ہوتے ہیں اور پھر شکایت یہ کہ عورت کو ایک شے تصور کر لیا گیا ہے جب کہ عورت ایک بالکل مختلف نوع ہے۔ میرا خیال ہے عورت کی معاشی آزادی کے لئے آواز اٹھانی چاہیے اور ہر طبقے کی محنت کش عورت کے لئے بولنا چاہیے۔ صرف آ ٹھ مارچ کو تماشا لگانے کی بجائے نرسوں، اساتذہ اور گھر میں کام کرنے والی عورتوں پر جبر کے خلاف بھی کندھا سے کندھا ملانا چاہیے لیکن یہ سب اس وقت ممکن ہو گا جب خود عورتیں بھی کچھ عہد کریں گی ورنہ عورتوں کازیادہ استئیصال تو خود عورتیں کرتی ہیں چاہے وہ معاشی ہو جنسی یا جذباتی۔ میرا خیال ہے عورت مارچ میں شریک عدد عورتوں کو یہ عہد بھی کرنے چاہییں۔

1۔ مجھے دوسری بیوی بننا قبول نہیں۔

2۔ میں کس بھی کام کا مرد کے کام جیسا معاوضہ لوں گی۔

3۔ میں صنف نازک ہونے کے لئے مراعات نہیں چاہتی۔

4۔ میں آرمی چیف بننا چایتی ہوں اور مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔

5۔ میرا دل میری مرضی۔

6۔ تم روزی کماتے ہو تو میں نسل سنوارتی ہوں

7۔ میں باس کو رجھانا نہیں چاہتی۔

8۔ میں شادی کے بعد فون نمبر نہیں بدلوں گی۔

9۔ میں طلاق کے بعد سماجی تعلق نہیں چھوڑوں گی۔

10۔ میرا نام میری مرضی۔ میں اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام ضروری نہیں سمجھوں گی۔

11۔ میں شادی شدہ مردوں کے ساتھ ڈیٹنگ نہیں کروں گی۔

12۔ میں بچوں کو سسرال کے خلاف نہیں بھڑکاؤں گی۔

13۔ میں شوہر کے رشتوں کی بھی ایسے ہی قدر کروں گی جیسے اپنے رشتوں کی۔

14۔ میں اپنے منہ پر اپنی تعریفیں سننا پسند نہیں کروں گی۔

15۔ میں مشاعروں اور محفلوں کی زینت بننے کے لئے نہیں بلکہ اپنے تشخص کے اظہار کے لئے بیٹھوں گی۔

16۔ میں بھائی یا دیور کا رشتہ دیکھتے ہوئے لڑکی کے دانت نہیں گنوں گی۔

17۔ میں کام کرنے پر زیادہ اور کان بھرنے پر کم توجہ دوں گی۔

18۔ میں گھر میں کام کرنے والی محنت کش بچیوں کو استریاں نہیں لگواؤں گی۔

19۔ میں عقل و خرد میں نام کماؤں گی لطف و مستی کا استعارہ نہیں بنوں گی۔

20۔ میں ہمدردیاں بٹور کر نہیں بلکہ ہمت اور محنت سے ترقی کروں گی۔

اللّٰہ عورتوں کو بچائے۔ وہی بچے گی جو خود بچنا چاہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments