برنی سینڈرز کا امریکہ


یہ دو ہزار تیرہ کی ایک اداس شام تھی جب میں برنی سینڈرز کی سٹیٹ ورمونٹ کے ایک شہر بریٹلبرو پہنچا۔ سفر سے کبھی خوف نہیں آیا البتہ گھر سے دوری کے باعث طاری ہونے والی اداسی سے کبھی پیچھا نہ چھڑا سکا۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کا ایک بے پناہ شعر ہے

وہ اعتماد ہے مجھ کو سرشت انساں پر
کسی بھی شہر میں جاؤں غریب شہر نہیں

فلاڈلفیا سے روانہ ہوکر نیویارک، کینٹکی اور کئی دیگر ریاستوں سے ہوتے بالآخر جب ورمونٹ کے قریب پہنچا تو شام کے بڑھتے سایوں سے دل میں ایک قسم کا خوف اتر آیا۔ اپنے میزبان یونیورسٹی کا نمبر ڈائل کیا تو کوئی جواب نہیں ملا۔ جلدی سے لیپ ٹاپ کھول کر ٹریننگ کے لئے انے والے ساتھیوں کے گروپ میں پوسٹ کیا۔ فورا جواب آیا کہ آپ بالکل فکر نہ کریں ہم ٹرین اسٹیشن پر آپ کے منتظر ہیں۔ ٹرین سے اتر کر ایک خوبرو دوشیزہ ایک نوجوان کے ساتھ میرے قریب آئی، نام پوچھا اور گاڑی میں سوار کرا کر چل دیں یونیورسٹی کی طرف۔ شام کی اداسی دل کو مکمل طور پر اپنے گرفت میں لے چکی تھی کہ ستر سالہ جینا سے ملاقات ہوئی۔ اگلے چند دنوں میں دنیا کے ہر خطے سے آئے ہوئے درجنوں دوست بن گئے جن میں ایک جسٹن بیبی ہیں۔ جسٹن دوستی سے ایک قدم آگے بڑھ کر میرے بھائی بن چکے ہیں۔

لگ بھگ ایک مہینے کا یہ عرصہ میری تمام زندگی پر بھاری ہے، اس عرصے میں بنی آدم کا وہ روپ دیکھا کہ اس کے احسن تقویم ہونے کا یقین آگیا۔ اس ایک مہینے پر میں پوری کتاب لکھ سکتا ہوں اور مجھے واقعی لگتا ہے کہ مجھے یہ کام کر گزرنا چاہیے۔ آج البتہ برنی سینڈرز کے متعلق لکھنا ہے۔ برنی کی سٹیٹ (ورمونٹ) کے اداروں اور لوگوں سے مل کر احساس ہوا کہ جہاں اس دنیا کو تباہ و برباد کرنے والے بہت سے لوگ ہیں وہاں لوگوں کی ایک قابل ذکر تعداد اس کو بچانے اور اسے درحقیقت جنت نظیر بنانے کے لئے بھی اپنی زندگیاں وقف کرچکے ہیں۔ امریکہ کی پروفیسر پالا گرین، نیوزی لینڈ کے پروفیسر کیون، جاپان کے پروفیسر ٹیٹ جیسے درجنوں لوگوں کو نہ صرف دنیا کے مسائل کے جڑوں کا ادراک تھا بلکہ ان مسائل کے قابل عمل حل بھی ان کی جیب میں موجود تھے۔

بریٹلبرو کے باسی مجھے اس وقت بتاتے تھے کہ سٹر کچرڈ وائلنس کیا ہے اور اس نے کیسے امریکہ کو اپنی گرفت میں لیا ہے۔ برنی سینڈرز نے جن باتوں سے آج پورے امریکہ میں ہلچل مچا رکھی ہے دراصل ہم دو ہزار تیرہ میں سنتے آئے ہیں۔ پاکستان کے الیکشن انجینیئرڈ ہوتے ہیں یہ تو ہمارے ملک کا بچہ بچہ جان گیا ہے لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہمیں وہاں کے تھنک ٹینکس نے بتایا کہ امریکہ میں کبھی بھی شفاف الیکشن نہیں ہوئے اور یہ کہ امریکہ کے منتخب نمائندگان عوام کے منتخب کردہ نہیں ہوتے بلکہ ارب پتی لوگوں اور کارپوریشنز کے کارندے امریکی صدارت پر قابض ہوتے ہیں۔

ارب پتی افراد انتخابات میں دونوں امیدواروں پر اربوں ڈالرز خرچ کرتے ہیں، اس لئے جو بھی امریکی صدر منتخب ہوتا ہے درحقیقت امریکی عوام کا نہیں بلکہ ارب پتیوں کا نمائندہ ہوتا ہے۔ بریٹلبرو کے باسیوں نے اس انقلاب کی بنیاد یوں رکھی کہ اپنے شہر کو کارپوریٹ سرمایہ داروں کے چنگل سے آزاد کرایا، اس شہر میں آپ کو میکڈونلڈ اور کے ایف سی کی کوئی دکان نہیں ملے گی بلکہ وہاں کے لوگ خود ہی اپنی ضروریات کی اشیاء پیدا کرتے، بناتے اور فروخت کرتے ہیں۔ جس سے ایک تو عام آدمی کو روزگار ملتا ہے، مہنگائی کنٹرول ہوتی ہے، پیسہ عام آدمی کے پاس رہ جاتا ہے، معیشت کا پہیہ مقامی طور پر چلتا ہے اور یوں کارپوریٹ ورلڈ ان سے پیسے کماکر ان کے الیکشن چرانے میں استعمال نہیں کر پاتا۔

برنی سینڈرز ورمونٹ سینٹ کے منتخب آزاد رکن ہیں۔ پچھلے انتخابات میں ہیلری کلنٹن سے ہار گئے تھے کیونکہ کارپوریٹ ورلڈ کا سارا پیسہ اور میڈیا ہیلری کے پلڑے میں تھا اور برنی کے خیالات کو ریڈیکل یا دوسرے لفظوں میں دیوانے کا خواب بنا کر پیش کیا گیا تھا۔ ہیلری سے ہارنے کے بعد برنی اپنی دیوا نگی سے باز نہیں آیا اور پورے چار سال اپنے خیالات کے پرچار میں لگا رہا۔ امریکہ کے طاقتور طبقات کو مسلسل اپنے نشانے پر رکھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ برنی امریکہ میں ایک نہ تھمنے والا طوفان بن چکا ہے۔ آئیوا میں پاپولر ووٹ جیت چکا، نیو ہمپشائر میں بھی برنی کی جیت ہوئی اور نیواڈا کاکس میں تو تقریبا سب کو وائٹ واش کر دیا۔

برنی سینڈرز کے مقابلے میں ایک طرف اگر بلوم برگ جیسے ارب پتی میدان میں ہیں تو دوسری جانب سابقہ امریکی نائب صدر جو بائڈن اور ساؤتھ بیڈ انڈیانا کے میئر پیٹ بٹیگیج کے کیمپین میں علی الترتیب چوالیس اور انتالیس ارب پتی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ برنی سینڈرز واحد امیدوار ہیں جنہوں نے بلیئنرز سے اپنی کیمپین کے لئے رقم لینے انکار کر دیا ہے اور عام امریکیوں سے مدد کی اپیل کی ہے۔ حیرت انگیز طور پر برنی تقریبا تیس ملین ڈالرز اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوا ہے جس میں ایک امریکی کا اوسط حصہ اٹھارہ ڈالر ہے۔

برنی پورے امریکہ میں صحت اور علاج کی سہولیات مفت دلوانے اور اجرت آٹھ ڈالر فی گھنٹہ سے بڑھا کر پندرہ ڈالر فی گھنٹہ کرنے کے عزائم کا اظہار کر رہے ہیں۔ ماحولیاتی خطرات کو سنجیدگی سے لینے کی باتیں کر رہے ہیں۔ برنی کے مخالفین یعنی امریکی اسٹیبلشمنٹ جس میں ریپبلیکن اور ڈیموکریٹکس دونوں شامل ہیں برنی پر وہی پرانی تنقید کر رہے ہیں کہ ان کے باتیں خیال و خواب کی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں اور قابل عمل نہیں۔ برنی مضبوط اعصاب کے مالک ثابت ہوئے ہیں، وہ امریکی عوام کو قائل کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں جب وہ ان سے کہتے ہیں کہ ارب پتی طبقات کی ہوس زر ان خیالات کی راہ میں رکاوٹ ہے، امریکہ کے تین امیر ترین افراد کے پاس پچاس فیصد امریکنوں سے زیادہ دولت ہے یعنی لگ بھگ سترہ کروڑ امریکیوں سے زیادہ دولت صرف تین لوگوں کے پاس ہے تو برنی کے خیالات واقعی ناقابل عمل لگتے ہیں لیکن جب حکومت ٹیکس کی مد میں امیر لوگوں کو ریلیف دینے کے بجائے ان پر اور زیادہ ٹیکس لگائے گی تو یہ چیزیں خود بخود قابل عمل ہوجائیں گی۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ آج کے امریکہ میں ایک فیصد طبقے کے ساتھ ننانوے فیصد لوگوں سے زیادہ وسائل ہیں۔ دولت کی اس غیر منصفانہ تقسیم سے امریکی طلبہ قرض کے بوجھ تلے دب چکے ہیں۔ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد ان طالب علموں کی ساری عمر تعلیمی اخراجات کے لیے لئے گئے قرضوں میں گزر جاتی ہے۔ عام امریکیوں کو صحت کے وہ سہولیات میسر نہیں جو امریکہ کے بارڈر پر آباد ملک کینیڈا کے لوگوں کو حاصل ہیں۔

برنی کی پکار امریکی عوام کے دلوں میں گھر کر چکی ہے اس لئے برنی کی انتخابی مہم ایک حقیقی انقلاب کی شکل اختیار کر چکی ہے جس میں روز بروز شدت آتی جا رہی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ برنی سینڈرز یہودی ہیں لیکن امریکی مسلمان انہیں سپورٹ کر رہے ہیں، بر نی کے میڈیا انچارج ایک پاکستانی ہے۔ برنی پر ایک پاکستانی مسلمان کو اپنے کیمپین انچارج بنانے پر جب تنقید ہوئی تو اس کا جواب مختصر اور مدلل تھا ’ہم لوگوں کو ان کے ملک، مذہب، نسل یا رنگ کی وجہ سے نہیں لیتے بلکہ ان کی اہلیت کے بناء پر منتخب کرتے ہیں۔‘

برنی سینڈرز کا انتخاب، سعودی عرب اور بڑی حد تک انڈیا کے لئے ڈراؤنا خواب ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ برنی کا ٹریک ریکارڈ انسانی حقوق کے حوالے سے انتہائی شاندار ہے اور اس حوالے سے وہ کوئی سمجھوتہ کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتے۔ برنی سینڈرز اگر اسی طرح آگے بڑھتے رہیں تو ٹرمپ اور برنی میں گھمسان کا رن پڑے گا کیونکہ دونوں کے خیالات میں انتہائی تضاد ہے، ایک انسانی حقوق کو اپنی زندگی کا نصب العین سمجھتا ہے جبکہ دوسرے کو انسانی حقوق سے کوئی عرض نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments