#SyriaConflict جنگِ شام: ترکی کا کہنا ہے کہ ہزاروں پناہ گزیں یورپ میں داخل ہو گئے ہیں
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے کہ ترک سرحد کھولے جانے کے بعد 18 ہزار پناہ گزیں یورپ میں داخل ہو چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں یہ تعداد 25 ہزار سے 30 ہزار تک پہنچ جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ترکی، شام سے بھاگ کر آنے والوں کا مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔
یونان نے کہا ہے کہ اس نے ترکی سے غیر قانونی طور پر آنے والے ہزاروں تارکین وطن کا راستہ روک دیا ہے۔
یونانی حکام نے اپنی سرحد پر جمع ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی۔
ترکی نے یہ فیصلہ گزشتہ ہفتے شام کے شمال میں اپنی فوج پر شام کی سرکاری فوجوں کے ایک ہلاکت خیز حملے کے بعد کیا ہے۔
ادلِب میں ہونے والے اس حملے میں 33 ترک فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔ اس شامی صوبے کے بیشتر حصے پر اب بھی باغیوں کا قبضہ ہے۔
شام کی سرکاری افواج، جنھیں روس کی حمایت حاصل ہے، ادلب کو جہادی گروپوں اور ترک نواز باغیوں کے قبضے سے چھڑانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ترکی میں اس وقت 37 لاکھ شامیوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ اس کے علاوہ وہاں افغان پناہ گزیں بھی موجود ہیں۔ ترکی نے یورپی یونین کے ساتھ امداد کے بدلے ایک معاہدے کے بعد ان پناہ گزینوں کو اپنی سرحد کے اندر محدود کر دیا تھا تاکہ وہ یورپ نہ جا سکیں۔
لیکن صدر اردوغان نے یورپی یونین پر اپنے وعدوں سے پھرنے کا الزام لگایا ہے۔
انھوں نے سنیچر کو استنبول میں کہا: ’ہم نے انھیں مہینوں پہلے بتا دیا تھا کہ اگر ایسا ہی چلتا رہا، تو ہمیں اپنے دروازے کھولنا پڑیں گے۔ انھیں ہماری بات پر اعتبار نہیں تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ سنیچر کی صبح 18 ہزار پناہ گزینوں نے ’دروازوں کو دھکیلا اور دوسری جانب‘ چلے گئے۔ تاہم انھوں نے اس تعداد کے شواہد فراہم نہیں کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم آنے والے دنوں میں یہ دروازے بند نہیں کریں گے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ کیوں؟ یورپی یونین کو اپنے وعدے نبھانا ہوں گے۔ ہم اتنے سارے پناہ گزینوں کا خیال نہیں رکھ سکتے، انھیں نہیں کھلا سکتے۔‘
انھوں نے کہا کہ برسلز نے 2018 میں ترکی اور یورپی یونین کے درمیان پناہ گزینوں سے متعلق طے پانے والے معاہدے کے مطابق امداد فراہم نہیں کی ہے۔
یونان کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی سرحدوں میں داخلے کی چار ہزار کوششوں کو ناکام بنایا ہے۔ سنیچر کے روز یونانی پولیس اور پناہ گزینوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔
سرکاری ترجمان کا کہنا تھا کہ ’حکومت اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہر ممکنہ اقدام کرے گی۔‘
ترک صدر کا کہنا تھا کہ انھوں نے شامی صدر بشار الاسد کے قریبی اتحادی روسی صدر پوتین سے بھی کہا ہے کہ وہ اس معاملے سے الگ رہیں اور ترکی کو شامی حکومت سے نمٹنے کے لیے ’جو ضروری ہو‘ کرنے دیں۔
روس اور ترکی اس خانہ جنگی میں متحارب دھڑوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ترکی بشار الاسد کا مخالف اور باغیوں کا حامی ہے۔
- مرنے سے قبل چند افراد کو اپنے وہ پیارے کیوں دکھائی دیتے ہیں جو پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں؟ قریب المرگ افراد کے تجربات - 18/04/2024
- یوکرین جنگ میں 50 ہزار روسی فوجیوں کی ہلاکت: وہ محاذِ جنگ جہاں روسی فوجی اوسطاً دو ماہ بھی زندہ نہیں رہ پا رہے - 18/04/2024
- دنیا کے دوسرے مصروف ترین دبئی ایئرپورٹ کی کہانی: ’یہاں حالات بدترین نہیں بلکہ خطرناک ہیں، ہمیں جانوروں کی طرح رکھا گیا ہے‘ - 18/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).