انقلاب ِ پاکستان اصول پسندی اور انا پسندی کی زد میں


(تنویر احمد حسینی)

\"tanveer-ahmed-hussaini\"

بات شروع ہوتی ہے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور عمران خان صاحب کی 2014؁ء میں لندن میں ہونے والی ایک اہم ملاقات سے جسے بعد اذاں ـــ“لندن پلان“بھی کہاگیا۔ یہ ملاقات بہت سی وجوہات کو لیکر اہم تھی۔ ان وجوہات کا تذکرہ پھر کبھی سہی۔ اس ملاقات کے بعد پاکستان کے دو اہم ترین راہنماؤں کا ایک پیج پر آجانا اہلِ پاکستان ، حقیقی تبدیلی کے خواہشمندوں اور روایتی سیاست سے تنگ عوام کے لئے آکسیجن سے کم نہ تھا۔ اور کچھ نہ بھی سہی تو بعد میں یہ اتحاد، یہ مشترکہ جدوجہد پاکستانی عوام کو وہ شعور ،وہ آگئی، وہ بیداری دے گیا جسے نہ صرف پاکستانی عوام نے بلکہ پوری دنیا نے سراہا۔

اس ملاقات کے نتیجے میں یہ طے پایا کہ آئندہ آنے والے وقت میں پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف مل کر حکومت مخالف تحریک چلائیں گے۔ اس ملاقات کے دوران پاکستان عوامی تحریک لیڈر شپ کی طرف سے منتخب کردہ تاریخ 14اگست پر دلائل کے ساتھ تحریک انصاف لیڈر شپ کو رضا مند بھی کر لیا گیا۔

اس ملاقات کے بعد دونوں پارٹیوں نے اپنی اپنی تیاری زور شور سے شروع کردی۔ یہ اور بات کہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کے ہاں پہلے دھرنے (اسلام آباد لانگ مارچ) کے بعد سے ہی یہ سننے کو ملتا رہا کہ بہت جلد وہ ایک کروڑ نمازیوں کی جماعت کے ساتھ اس پورے So Called نظام کو سمندر برُد کرنے کے لئے نکلیں گے۔الیکشن کے فوراً بعد سے ہی دھندلی کے الزام میں چار حلقے کھولنے کا عمران خان صاحب کا مطا لبہ بھی مبنی برانصاف تھا۔

یہاں اس بات کا تذکرہ نہایت ہی ضروری ہے کہ عمران خان صاحب اور طاہر القادری صاحب وہ واحد پاکستانی لیڈر ہیں جو دوسرے بہت سے نامور سیاستدانوں کے بر عکس (جن کا سیاست کے علاوہ کوئی کام دھند ا نہیں) اپنے آپ کو پوری دنیا میں اپنے اپنے میدان میں منوانے کے بعد سیاست میں آئے ہیں۔ اور حقیقتاً یہ ہی بات اس اتحاد کے دیر پا ہونے کے کئی دفعہ آڑے بھی آچکی ہے۔

غرورِ عشق ہمیں، غرورِحسن انھیں
وہ آ نہیں سکتے ہم جا نہیں سکتے

بہر حال بات لندن ملاقات کے بعد احتجاجی تاریخ کے اعلان پر ہو رہی تھی۔ یہاں عمران خان صاحب نے وعدہ کے برعکس اپنے کچھ ـــ“سٹیٹس کو ـــ“ کے پروردہ مشیروں کے کہنے پر ”آزادی مارچ“ کا اعلان قبل ازوقت ایک جلسہ عام میں کردیا ۔

یہاں اس بات کو بھی نظر انداز کر نا بد دیانتی ہو گی کہ اس احتجاج میں حکومت کو اصل خطرہ ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کی جماعت سے تھا۔ کیونکہ حکومت بخوبی آگاہ تھی کہ عمران خان کے اردگرد بہت سارے وہی لوگ تھے جو اس \’سٹیٹس کو\’ کے نظام کی پیداوار اور اس نظام کے Beneficiary تھے۔ جاوید ہاشمی اس کی ایک مثال کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں۔ اور پھر عمران خان ـ“سنگل پوائنٹ انتخابی دھاندلی“ کا ایجنڈا لے کر نکلے ہوئے تھے۔

جبکہ ڈاکٹر طاہر القادری پورے نظام کی اصلاح کی بات کے ساتھ ساتھ سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسے اہم ایشو کو بھی لیکر نکل رہے تھے۔ پھر حکومت پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کی استقامت وجرأت کا مظاہرہ PPP دور میں اسلام آباد لانگ مارچ میں کرچکی تھی۔

چونکہ حکومتی حلقے عمران خان صاحب اور طاہر القادری صاحب کے ایک ساتھ نکلنے سے بخوبی آگاہ تھے۔ لہذا عمران خان صاحب کے جلسہ عام میں اور قبل ازوقت احتجاجی تاریخ کا اعلان کرنے سے پاکستان عوامی تحریک کا سارے کا سارا پلان حکومتی حلقوں کی سمجھ میں آجانا کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی ۔ اب طاہر القادری صاحب کے لئے احتجاج سے پہلے ہی مشکلات کا ایک انبارلگ چکا تھا۔ 17جون سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد 23 جون کو طاہر القادری صاحب کی فلائٹ کو اسلام آباد سے لاہور بھیجا جانا تو ابتدائیہ تھا۔

اس اعلان کے قبل از وقت ہونے کی و جہ سے بعد ازاں پاکستان عوامی تحریک کو شہدائے ماڈل ٹاؤن کے چہلم کا انعقاد کرنا پڑا اور اس کے لئے کارکنان کو لاہورماڈل ٹاؤن بلوانا پڑا۔ اسکے ساتھ ساتھ یہ اس لیے بھی تھا کہ کارکنان کے کثیر تعداد میں ہونے سے حکومت کو یہ جرأت نہ ہو کہ پاکستان عوامی تحریک لیڈر شپ کی گرفتاری عمل میں لا سکے۔ یہ اس لیے بھی تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرز پر دوبارہ متوقع سانحہ کا بھرپور طریقے سے جواب دیا جا سکے اور ایک بڑے قافلے کیصورت میں ”انقلاب مارچ“کے لئے نکلا جا سکے۔

10اگست کے اس چہلم شہدائے ماڈل ٹاؤن میں آنے والے قافلوں کے ساتھ ریاستی دہشت گردوں نے جو کیا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس چہلم میں آنے والوں کو ماڈل ٹاؤن کے سانحہ کی طرح ایک دفعہ پھر شہادتیں دینی پڑیں۔

اور ا س دفعہ کی مشکلا ت کے پیدا کرنے میں عمران خان صاحب کے جلسہ عام میں قبل از وقت مارچ کے اعلان نے کلیدی کردار ادا کیا تھا ۔ اور یہ بات پاکستان عوامی تحریک لیڈر شپ کو بخوبی سمجھ آ چکی تھی لیکن تب ایک بڑے مقصد کے لئے چھوٹی بد عہدی کو بھلا کر ساتھ نکلنے کو ترجیح دی گئی ۔ الغرض مارچ ہوا اور اسلام آباد پہنچ کر اپنے اپنے اسٹیج سج گئے ۔ لیکن پہلے ہی دن عمران خان صاحب کا کارکنان کو کھلے آسمان تلے چھوڑ کر بنی گالہ چلے جانا بھی کسی دھچکے سے کم ثابت نہ ہوا۔

بعد ازاں دھرنا روٹین سے چلتا رہا اور خلاف توقع طوالت بھی پکڑتا گیا ۔ 30 اور 31 اگست کی رات حکومتی دہشت گردی اور ریاستی جبر و تشدد کا لاجواب مقابلہ صرف پاکستان عوامی تحریک کے ورکروں نے کیا اور ایک دفعہ پھر شہادتیں دیں اس کے مقابلے میں عمران خان صاحب تحریک انصاف کی باقی لیڈر شپ کے برعکس پوری رات پاکستان عوامی تحریک کے ورکروں کے ساتھ کھڑے رہے اور پاکستان عوامی تحریک ورکروں کے معترف بھی ہوئے۔

آگے چل کر پاکستان عوامی تحریک نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا جسے دھرنا پورے ملک میں پھیلانے کا تاثر دیا گیا ۔ پاکستان عوامی تحریک کے اس فیصلے سے تحریک انصاف اور اس تحریک کو زبردست دھچکا لگا گو کہ تحریک انصاف لیڈر شپ اور بذات خود عمران خان صاحب کو ون ٹو ون ملاقات میں طاہر القادری صاحب نے پیشگی آگاہ کر دیا تھا ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی لازم ہے کہ طاہر القادری صاحب کا بوجہ انٹرنیشنل مصروفیات بیرون ملک چلے جانا بھی اس تحریک کا دم خم ختم کرنے کا سبب بنا۔

چونکہ پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف فطرتی، قدرتی اتحادی ہیں اس لئے دوبارہ 2016؁ء میں تحریک انصاف نے پانامہ لیکس کے بعد ”تحریک احتساب“ اور پاکستان عوامی تحریک نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے لئے ”تحریک قصاص“ کا آغاز کیا اور اپنی ابتدا کے ساتھ زبردست کامیابی بھی سمیٹی ۔ ایک دفعہ پھر دونوں راہنما ایک ساتھ تھے لیکن اچانک پھر عمران خان صاحب کی طرف سے یکطرفہ رائے ونڈ مارچ کا اعلان اور طاہر القادری صاحب کے چاہنے کے باوجود ملاقات سے انحراف اور ”رشتہ لینے“ والے بیان نے پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے درمیان ایک حد فاصل قائم کر دی۔

پاکستان عوامی تحریک چونکہ پہلے بھی وعدہ شکنیوں سے کافی دلبرداشتہ تھی تو اس پر عمران خان صاحب کے بیان ”میں رائے ونڈ کوئی رشتہ لینے تو نہیں جا رہا“ (جو کہ ایک صحافی کے اس سوال کے جواب میں دیا گیا کہ آپ نے طاہر القادری اور دیگر کو دعوت کیوں نہیں دی) نے جلتی پر تیل کا کا م کیا ۔ اور اس کا فائدہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ”سیٹس کو“ کو ہوا ۔

بحر حال یہ اصول پسندی اور انا پسندی اس سے پہلے کہ ”انقلاب پاکستان“ کو لے ڈوبے، قوم کے وسیع ترمفاد کی خاطر، حقیقی تبدیلی کے خواہشمندوں کی خاطر، پاکستان کی نسلوں کی خاطر اور خود پاکستان کی خاطر دونوں راہنماؤں کا ایک ساتھ چلنا نا گزیر ہے ۔

اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف الگ الگ پاکستان میں حقیقی تبدیلی ”مصطفوی انقلاب“ اور ”نئے پاکستان“ کا تو سوچیں بھی ناں ۔۔۔۔۔۔۔

تحریر : (تنویر احمد حسینی)
موبائل نمبر :0303-8002223
ای میل :mt.hussaini92@gmail.com


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments