نکلنا فیس بک کے جہاں سے اور آنا حقیقی دنیا میں


\"husnain

کچھ عرصے پہلے ایک ویڈیو دیکھی جس میں فیس بک اور حقیقی دنیا کا فرق دکھایا گیا۔ ایک شخص ہر کسی کو پکڑ پکڑ کر اپنی تصویریں دکھا رہا ہے، آنے جانے والے کو کہتا ہے اسے لائک کرو، میری تصویر پر کوئی تبصرہ کرو۔ کوئی اس کی تصویر کی فوٹو کاپی کروا کے اسے پلے کارڈ کی طرح شئیر کر رہا ہے، کوئی اسے غصیلا سا منہ بنا کر دیکھ رہا ہے، کوئی مذاق اڑا رہا ہے۔ پھر وال پوسٹ کا دکھایا کہ وہ صبح اٹھ کر گھر سے باہر نکلتا ہے تو سامنے والی کالی دیوار پر محلے بھر نے اپنے کمنٹس لکھے ہوئے ہیں، وہ چاک اٹھا کر ہر کمنٹ کے نیچے جواب لکھتا رہتا ہے۔ لکھتے لکھتے پاگل ہو جاتا ہے، اور بال نوچنے لگتا ہے۔ اسی طرح سٹیٹس اپ ڈیٹ کے بارے میں ایک ویڈیو دیکھی کہ عام زندگی میں اگر کوئی دوست اپنے دکھڑوں کا اظہار کرے اور ہم صرف لائک والا انگوٹھا دکھا کر آگے چلے جائیں تو ہماری کیا گت بنے گی۔ کئی مرتبہ ہمارا دل لمبی بات چیت میں الجھنے کو نہیں چاہتا اور ہم کسی قریبی رشتے دار کی پوسٹ کو اگنور کر کے آگے چلے جاتے ہیں، یہی اگر حقیقی زندگی میں ہو جائے تو کیا کیا فساد برپا ہوں؟ فیس بک اور حقیقی زندگی کے یہ تضاد بہت دل چسپ ہیں اور ان پر نہ جانے کیا کیا کچھ لکھا جا سکتا ہے۔

فیس بک کو بہت سی گالیاں بھی دی جاتی ہیں کہ سارا وقت کھا گیا، بندہ کسی اور کام کا نہیں رہا، بچے دن رات اسی سے چپکے رہتے ہیں، لوگ تنہائی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، انسان سائیکلوجیکل مسائل کا شکار ہو رہا ہے، نئی نسل غائبانہ موجودگی پر یقین رکھنے لگی ہے، بجائے کسی سے ملنے کے، گھر پر بیٹھے بیٹھے دنیا سے بات کرتے رہتے ہیں، اسی پر شاپنگ، اسی پر ہنسی مذاق اسی پر آرڈر کر کے کھانا منگوا لیا اور بس صبح کرتے ہیں شام کرتے ہیں، عمر یونہی تمام کرتے ہیں۔ یہ تمام باتیں درست ہیں۔

مسئلہ صرف ایک ہے۔ کسی چیز کو استعمال کیسے کیا جائے۔ دیسی گھی، بادام، اخروٹ، پستہ اور گندم سے بنا سوہن حلوہ بھی اگر ایک وقت میں ایک کلو کھایا جائے گا تو بدہضمی یقینی ہے، یہی معاملہ فیس بک کا ہے۔ قسمت کہہ لیجیے یا شوق کا عالم کہہ لیجیے کہ فقیر اس لکھنے لکھانے کے دھندے میں یہیں سے آیا۔ یہیں استاذی عقیل عباس جعفری بھی ملے، یہیں مرشدی وجاہت مسعود کے چرن چھوئے، یہیں محترم آصف فرخی سے نیاز حاصل ہوئے اور اسی جگہ پر صدیقہ آپا نے دعوت دی کہ بیٹے کل بک کلب کی پہلی میٹنگ ہے تو تم نے بھی آنا ہے اور داستان سرائے آنا ہے۔ اللہ اللہ، ایک ایسا انسان جو لکھنا بھی نہیں جانتا اور ایسے شفیق لوگ مل جاتے ہیں جو ہاتھ پکڑ کر لکھنا سکھا دیں اور اپنے کندھوں پر بٹھا کر دنیا کی سیر کرا دیں، کہاں ملتے، کیسے ملتے، کوئی اور راستہ تھا؟ نہیں تھا!

اسی ورچوئل دنیا میں آ کر معلوم ہوا کہ استاد اینٹ اٹھاؤ تو بلاگر ملے گا اور پتھر کھسکاؤ تو شاعر برآمد ہو گا لیکن یہ کوئی بری بات نہیں، یہ تو زبان کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔ اردو کے مستقبل کا رونا روتے روتے اچانک ہم نے دیکھا کہ نئی نسل کو فیس بک نے کیسے اردو ٹائپ کرنا سکھایا۔ وہ نسخ جو صدیوں سے معتوب تھا اسے کیسے ایک دم سب نے قبول کر لیا اور خود سے لکھنا بھی شروع کر دیا۔ یہ سب فیس بک کی کرامات تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے کتنے آن لائن پورٹل بنے جو صرف اردو بلاگ چھاپتے تھے اور سب کو ستر سے اسی فی صد ٹریفک یہیں فیس بک سے ملتی تھی۔ پھر انہیں بلاگنگ سائٹس سے نئی سائٹس بنیں اور یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔

یہ جو فرنود عالم ہے یہ اصل میں بھی ایسا ہی تیکھا ہے؟ یہ جو خاکوانی صاحب ہیں، کیا بات چیت میں بھی ایسے ہی اسلامسٹ ہیں یا ہم آپ جیسے ہیں؟ یہ سارتر صاحب کیا موجود ہو کر بھی نہیں ہوتے، کون ہیں، کیسے ہیں، کہاں ہوتے ہیں؟ رعایت اللہ فاروقی صاحب اصل زندگی میں بھی ایسے ہی جلالی ہیں؟ رامش فاطمہ کیا دو سو لوگوں میں بھی ویسے ہی پراعتماد رہتے ہوئے موقف کا دفاع کرتی ہیں، جیسا لکھتی ہیں؟ بھائی مجاہد حسین کیسے دکھتے ہیں؟ انعام رانا بات چیت میں بھی ایسا ہی یار دوست ہے یا جھینپ جاتا ہے؟ ثاقب ملک اتنا بڑا پنگا لے رہا ہے، یہ مینیج کیسے کرے گا؟ سجاد خالد کیا ویسے ہی دھیمے اور محبتی ہیں جیسے فیس بک پر ہوتے ہیں؟ حافظ صفوان کیا آف لائن بھی اتنے ہی شفیق اور محبتی ہیں؟ عاصم اللہ بخش کیا اتنے ہی متوازن اور معتدل مزاج عام بات چیت میں بھی ہوں گے؟ عامر مغل کا کیمرہ کیسا ہو گا، عام سا یا فل ٹائم پروفیشنل؟ سہیل اکبر کی زلفیں کیا اتنی ہی پریشان ہیں جیسی تصویروں میں نظر آتی ہیں؟ یہ سب سوال اپنے دلوں میں چھپائے کتنے ہی لوگ ثاقب کی وجہ سے اکٹھے ہوئے اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق جواب لے کر واپس گئے۔

فیس بک کی دنیا کے کیسے کیسے پیارے دوست وہاں اکٹھے تھے، خدا جانے کہاں کہاں دور دراز سے آئے تھے اور محبتوں کی پھوار میں بھیگے جاتے تھے۔ غلام فرید تھے، خرم بھائی تھے، فرخ حمید تھے، فہد تھے، حسنین تھے، زرقا اظہر تھیں، بلال تھے، انور مہر تھے، امجد خان تھے، عطا حسین اور نور شمس تو چترال سے تھے، زبیر تھے، عبدالطیف تھے، اور کتنے ہی دوست یار تھے جنہیں کل سے پہلے صرف دو ضرب دو انچ کی تصویر میں دیکھا تھا، آج وہ لائف سائز پریزینٹیشن میں تھے اور سب ایسے گھلے ملے ہوئے جیسے برسوں کا یارانہ ہے۔ تو یہ محفل بڑی دوست نواز قسم کی محفل تھی، فاروقی صاحب ایسے مزے سے گپ شپ لگا رہے تھے، ان کی شفقت سے فقیر بھی مستفید ہوا، بڑی عمدہ اور سیر حاصل گفتگو رہی۔ خاکوانی صاحب کے نیاز حاصل ہوئے، چار لوگوں میں انہوں نے ایسے تعریف کی کہ چھپنے کو جگہ نہیں ملتی تھی پھر انہیں کی شفقت تلے ڈیرا لگا لیا۔ ثاقب کا خلوص اور پرسکون انداز میں مینیجمنٹ دل لے گئے۔ حافظ صفوان ایسے مزے سے ملے، زبردست گپ شپ ہوئی۔ فرنود اور رامش تو اپنے ہی ساتھ بیٹھے تھے، فل ٹائم تفریح پروگرام، پھر فرنود سٹیج پر بولا اور سمجھ نہیں آئی کہ یار یہ بندہ نام خدا کس قسم کی مخلوق ہے، یہ عمر اور یہ اعتماد، بڑا پیار آیا اپنے یار پر، زندگی میں پہلی بار اسے بولتے سنا، صدقے قربان ہوتے رہے۔ عامر بھائی نے بہت مدلل طریقے سے بات کی، اپنی پوری کہانی سنائی کہ وہ کیسے کوچہ صحافت میں آئے، بڑی مزے کی کہانی تھی، احمد پور شرقیہ کا ایک نوجوان جنگ میں کالم بھیجتا ہے اور اگلے دن اسے چھپا ہوا پاتا ہے اور پھر چل سو چل۔ فاروقی صاحب نے لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی پوری زندگی کا تجربہ اور پاکستانی جنگی جنون کا تجزیہ پیش کر دیا جس سے اکثر کو اتفاق تھا۔ انعام رانا آن لائن مخاطب تھے اور بہت عمدہ بولے، سوال جواب میں کافی شغل لگا، وہاں انعام رانا ایک مدبر تھے، رانگڑ کہیں دور پڑا سوتا تھا۔ اسرار یوسفزئی تلاوت کرتے تھے، احمد حماد شاعری سناتے تھے، ایک موقع پر تو عوام کو باقاعدہ باجماعت سونے کا موقع بھی فراہم کیا گیا، وہ بھی الگ ہی کہانی ہے، کچھ ایسا تو ہو جسے باقی دوست سنائیں۔ ثاقب ملک شہزادہ لگا تھا، تھکن کا نام و نشان نہیں اور ذہنی طور پر انتہائی چستی سے معاملات دیکھ رہا تھا اور چار بجے شام کے بیٹھنے والے رات ایک بجے تک سیٹوں سے چپکے بیٹھے رہتے تھے۔

کل ملا کر بہت ویل آرگنائزڈ اور زبردست پروگرام تھا۔ تمام مقررین دل جمعی سے بولے، سوال جواب کے جاندار سیشنز ہوئے، خریدنے والوں نے کتابیں خریدیں، فقیر کو بھی نصیر الدین شاہ کی آپ بیتی کا اردو ترجمہ ہاتھ لگ گیا، موجاں ای ہو گیاں گے! چائے پانی، کھانا، اس سب کا بندوبست بھی فٹ تھا۔ سیک سیمینار کا یہ دوسرا پروگرام تھا، پہلا کیسا ہو گا، کہہ نہیں سکتے، دوسرا جو تھا تو مزے دار تھا!

سال چھ ماہ میں ایک دفعہ ایسے پروگرام ہر شہر میں ہوتے رہیں تو کیا ہی کہنے۔ لوگ لوگوں سے ملیں، بات چیت ہو، ایک دوسرے کا موقف جانیں، ایک دوسرے کا احترام پیدا ہو، مکالمہ ہو، دلیل ہو، ہم سب ہوں، اور کیا چاہئیے بابا!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments