سینوفوبیا: کورونا وائرس نے کس طرح چین سے خوف کو مزید عیاں کیا


کورونا وائرس

کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد چین اور چینی باشندوں کے خلاف نسل پرستی اور ناپسندیدگی کا اظہار پوری دنیا میں مختلف طریقوں سے ہو رہا ہے

کچھ ٹھیک نہ ہونے کا احساس سامی یانگ کو اس وقت ہوا جب وہ برلن میں ایک ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لیے گئیں مگر انھیں ہسپتال کی عمارت میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔

کلینک آنے والے دوسرے مریض دروازے سے اندر باہر آ جا رہے تھے جبکہ چین سے تعلق رکھنے والی میک اپ آرٹسٹ سامی یانگ کو جنوری کی یخ بستہ سردی میں باہر کھڑے ہونے کی زحمت برداشت کرنا پڑ رہی تھیں۔

پھر ان کی ڈاکٹر کلینک کے دروازے پر تشریف لائیں اور یہ الفاظ ادا کیے ’یہ آپ کی ذات سے متعلق نہیں ہے مگر۔۔۔‘

سامی یانگ کے مطابق ڈاکٹر نے کہا ’ہم کورونا وائرس کی وجہ سے چینی مریضوں کو داخل نہیں کر رہے ہیں۔‘

سامی نے بتایا ’مجھے اپنی یہ وضاحت دینے کا موقع بھی نہیں ملا کہ میں صحت مند ہوں۔‘

یہ بھی پڑھیے

حاملہ چینی نرس کی ویڈیو پر اشتعال انگیز ردعمل کیوں؟

کورونا وائرس کے لگنے والی بیماری کو باقاعدہ نام مل گیا

’کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے امکانات کم ہو رہے ہیں‘

سامی یانگ نے ماضی قریب میں چین کا سفر بھی نہیں کیا تھا۔

چین میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد چین کے شہریوں اور مشرقی ایشیائی ممالک کے باشندوں جیسے نظر آنے والے بہت سے دیگر افراد سے متعصبانہ رویہ برتنے کی کہانیاں سامنے آئی ہیں۔

اگرچہ چینی ڈاکٹر لی ویلیانگ کی کورونا وائرس سے ہلاکت کے بعد لوگوں میں وبا کا شکار چینی افراد کے لیے ہمدردی بڑھی ہے تاہم چین کے باشندوں اور دیگر ایشیائی اقلیتوں کے افراد کا کہنا ہے کہ وائرس کے پسِ منظر میں نسل پرستی اور ناپسندیدگی بڑھی ہے۔

چین اور چینی لوگوں کے خلاف تعصب کچھ نیا نہیں ہے۔ ’سینو فوبیا‘ یعنی چینی لوگوں سے ڈر یا ناپسندیدگی صدیوں سے چلا آ رہا ایک رجحان ہے۔

لیکن کورونا وائرس کے بحران کے دوران مختلف طریقوں سے اس کا اظہار دنیا کے چین کے ساتھ موجودہ پیچیدہ تعلقات کو ظاہر کرتا ہے۔

کورونا وائرس

مغرب میں ناواقفیت، مشرق میں بہت زیادہ شناسائی

وائرس سے متعلق نفرت کا اظہار پوری دنیا میں مختلف طریقوں سے ہوا ہے۔

یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا سمیت وہ ممالک جہاں ایشیائی افراد ایک واضح اقلیت ہیں وہاں چین اور چینی باشندوں کے لیے پہلے سے موجود ناپسندیدگی ان دقیانوسی خیالات کے باعث مزید بڑھی ہے کہ چینی گندے اور غیر مہذب ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر چینی افراد کو ’وائرس‘ کہنا بہت عام ہے، ایشیائی اقلیتوں کو عوامی مقامات پر خوش آمدید نہیں کہا جاتا یا انھیں نسل پرستانہ حملوں اور طنز کا نشانہ بنایا گیا۔

فرانسیسی اور آسٹریلین اخبارات میں یہ شہ سرخیاں بھی چلیں کہ ’پیلا خطرہ‘ یا ’چینی بچے گھر رہیں۔‘

یہ خبریں سامنے آنے کے بعد کہ کورونا وائرس جنگلی جانوروں کی ایک منڈی سے نکلا یا اس وائرس کی افزائش چمگادڑ کے ذریعے ہوئی، چینی افراد کے حوالے سے یہ لطیفے بنائے گئے کہ وہ ہر ذی روح چیز کھا جاتے ہیں۔

اگرچہ ایشیا میں بھی اسی طرح کے تبصرے منظر عام پر آئے ہیں اور یہاں چین مخالف بیانات نے بھی گہرا اور ممکنہ طور پر زیادہ سخت لہجہ اختیار کیا ہے۔

ایک مشترکہ موضوع یہ شبہ ہے کہ چینی آبادی مقامی ایشیائی آبادی کو وائرس سے متاثر کر رہی ہے۔

سنگاپور اور ملائیشیا میں ہزاروں افراد نے ایسی آن لائن پیٹیشنز کو سائن کیا ہے جس میں تقاضہ کیا گیا ہے کہ چینی افراد کے ان کے ممالک میں داخل ہونے پر پابندی عائد کی جائے۔ جواباً ان دونوں ممالک نے چینی افراد کے اپنے اپنے ممالک میں داخل ہونے پر کسی نہ کسی نوعیت کی پابندی لگا دی ہے۔

جاپان میں چند افراد نے چینیوں کو ’بائیو ٹیررسٹ‘ یعنی حیاتیاتی دہشت گرد کا لقب بھی دیا ہے جبکہ انڈونیشیا اور دوسرے مسلمان ممالک میں بھی یہ نظریات پائے جاتے ہیں کہ چینی افراد ان ممالک کی مقامی آبادیوں کو متاثر کر رہے ہیں۔

ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈونلڈ لُو کہتے ہیں ’مغرب میں چین کو بہت دور دراز کا ملک تصور کیا جاتا ہے اور یہاں چینی افراد سے ناپسندیدگی کا عنصر زیادہ جان پہچان نہ ہونے کے باعث ہے۔ مگر ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں ناپسندیدگی کا یہ عنصر (چین اور اس کے باشندوں کو) بہت زیادہ جاننے کی وجہ سے پیدا ہوا۔‘

گذشتہ کئی دہائیوں سے ایشیا میں چین کا قد کاٹھ بہت بلند ہوا ہے اور اس کی وجہ علاقائی تنازعات، تاریخی شکایات اور چینیوں کی نقل مکانی ہے۔ حال ہی میں چین کی جانب سے چین کے جنوبی سمندر پر استحقاق جتلانے اور اویغور مسلمانوں کو قید کرنے کی وجہ سے بہت سے مسلمان ممالک میں غصہ پایا جاتا ہے، خاص کر جنوب مشرقی ممالک میں جہاں مسلمان اکثریت میں پائے جاتے ہیں۔

خطے میں چین کے پیسے اور سرمایہ کاری کی ریل پیل کا خیر مقدم کیا جاتا ہے مگر اس کی وجہ سے خطے میں چین کے معاشی غلبے، مقامی لوگوں کا استحصال اور مقامی معیشتوں کو ہونے والے بہت کم فائدے کے باعث شبہات نے بھی جنم لیا ہے۔

یہاں تک کہ ہانگ کانگ اور سنگاپور جیسے معاشروں میں بھی چین مخالف جذبات میں تیزی آئی ہے اور اس کی بڑی وجہ چینی امیگریشن اور شناخت کے بارے میں دیرینہ لڑائیاں اور ان ممالک میں بیجنگ کا اثر و رسوخ ہے۔

’خوف اور نفرت‘

کورونا وائرس

کچھ لوگوں کا خیال ہے ’سینو فوبیا‘ کی اس موجودہ لہر کی بڑی وجہ موجودہ بحران اور حالیہ برسوں میں عالمی سطح پر چین کا اپنا برتاؤ کیا ہے۔

پروفیسر لو کہتے ہیں ’چینیوں کے ساتھ ایک عمومی رویہ ’خوف اور نفرت‘ کا مجموعہ رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ چند لوگ چین کی اس بات پر تعریف کر رہے ہیں کہ انھوں نے کتنی جانفشانی سے اس وائرس کو روکا اور یہ کہ چند ہی روز میں ہسپتال تعمیر کیے گئے۔ ’لیکن جنگلی حیات کی تجارت اور اس معاملے میں شفافیت سے نمٹنے میں ناکامی پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔‘

حکام نے اعتراف کیا ہے کہ اس وبا کے پھیلاؤ کے بعد ابتدائی ردعمل انتہائی سست تھا جبکہ چینی ڈاکٹر لی ویلیانگ کے ساتھ برے سلوک کا الزام بھی چین پر عائد کیا گیا۔ ڈاکٹر لی نے سب سے پہلے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے اپنے ساتھیوں کو متنبہ کیا تھا مگر ایسا کرنے پر انھیں پولیس تفتیش کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

چین کے صدر شی جن پنگ چین کو مضبوط اور پراعتماد ظاہر کرنا چاہتے ہیں اور یہ پیغام ہے کہ چین ایک ذمہ دار ملک ہے جو دنیا بھر کے ملکوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرتا ہے۔

لیکن چین اپنا آپ دیکھانے کا کوئی موقع ضائع کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتا۔ جیسا کہ امریکہ چین تجارتی جنگ کے دوران چین کے ریاستی میڈیا کی بیان بازی، چین کی جانب سے بہت وسیع پیمانے پر ریاستی جاسوسی کا پروگرام اور متنازع علاقوں کے حوالے سے وقفے وقفے سے اپنے دعوؤں کا سلسلہ جاری رکھنا۔

پروفیسر لو کہتے ہیں ’وہ (چین) چاہتے ہیں کہ ان سے محبت کی جائے مگر وہ اپنا ڈر بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔‘

چینیوں کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا اظہار دنیا بھر میں چینی سیاحوں اور طالبعلموں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی صورت میں بھی ہو رہا ہے۔ ان کے ناروا رویے کی خبروں کے ساتھ ساتھ اس نوعیت کی دقیانوسی باتیں بھی بڑھ رہی ہیں کہ چینی سیاح انتہائی بور ہیں یا امیر کبیر چینی طالبعلم اپنی دولت کی نمائش کرتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری دنیا میں ایسے مقامات بھی ہیں جہاں چین اور چینیوں کے حوالے سے اس طرح کے شبہات کا اظہار نہیں کیا جاتا جیسا کہ مغربی یورپ، امریکہ اور ایشیا میں پایا جاتا ہے۔ پیو سینٹر فار ریسرچ کے مطابق جنوبی امریکہ، افریقہ اور مشرقی یورپ میں انھیں مثبت انداز میں دیکھا جاتا ہے۔

چند ماہرین اور چینی حکومت کا کہنا ہے کہ چین کے حریف ممالک بھی ’سینو فوبیا‘ کے بڑھاؤ میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔

ہانگ کانگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے منسلک پروفیسر بیری ساٹمین کہتے ہیں کہ گذشتہ چند برسوں میں چین کی کردار کشی کی مہم کا بڑا حصہ امریکہ سے آیا ہے، خاص کر ٹرمپ انتظامیہ کے دور اقتدار میں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ کی اپنی تاریخ ’سینوفوبیا‘ کے واقعات سے اٹی پڑی ہے خاص کر سنہ 1882 میں آنے والا چائنیز ایکسکلوژن ایکٹ جس کے تحت چینی مزدوروں کی امیگریشن پر پابندی عائد کی گئی اور اس حوالے سے حالیہ لہر کی بڑی وجہ امریکہ اور دیگر ممالک میں موروثیت کے نظریے کا فروغ ہے۔

وہ کہتے ہیں ’اب چین کو امریکی برتری کے خلاف خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور چین کی حکومت کے ہر اقدام اور پہلو کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں بہت سے لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں اور یہ سب تاریخی طور پر پائے جانے والے عنصر سینوفوبیا کے پسِ منظر میں کیا جاتا ہے۔‘

’چین کو اس وقت دبانا جب وہ مشکل میں ہے‘

کورونا وائرس

چند ماہرین اور چینی حکومت کا ماننا ہے کہ چین کے حریف ممالک بھی ‘سینو فوبیا’ کے بڑھاؤ میں برابر کے ذمہ دار ہیں

چین اپنے لوگوں پر ہونے والے حملوں کو آسان نہیں لے رہا۔

گذشتہ چند ہفتوں میں چین کے ریاستی ذرائع ابلاغ نے چند اس طرح کے اداریے لکھے ہیں جن میں چین کے خلاف سامنے آنے والی نسل پرستی اور تعصب کی مذمت کی گئی ہے۔ یہ اداریے خاص طور پر انگریزی میں تحریر کیے گئے ہیں جن کا مقصد عالمی سامعین پر اثرانداز ہونا ہے۔

چین کی حکومت نے بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ یہ معاملہ بھی اٹھایا ہے جس میں بین الاقوامی میڈیا نے کورونا وائرس پر چین کی حکومت کے ردعمل پر تنقید کی۔ چین نے ایسی رپورٹس کو ’غلط رپورٹنگ‘ کہا ہے یا اسے چین کی خلاف متعصب اور غیر منصفانہ کہا ہے۔

چین کے ریاستی ٹی وی سی جی ٹی این کے اینکر لیو ژن نے اس تمام صورتحال کا تجزیہ یہ کہتے ہوئے کیا ہے کہ یہ ایسا ہی ہے کہ چین کو ایسے وقت میں دبایا جائے جب وہ پہلے ہی مشکل میں ہے۔

حکومتی سطح پر چین نے ایسے ممالک، خاص کر امریکہ، کو یہ کہتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ چینی باشندوں پر ’غیر ضروری‘ سفری قدغنیں لگا کر (یہ ممالک) ’ڈر بنانے اور اسے پھیلانے‘ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

دریں اثنا چونکہ کورونا وائرس کا اختتام ابھی دور تک نظر نہیں آ رہا اسی لیے بیرون ممالک مقیم چینی اور ایشیائی اقلیتوں کے لیے امتیازی سلوک اور مایوسی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

چین کی میک اپ آرٹسٹ سامی یانگ کہتی ہیں ’میں خوفزدہ محسوس کر رہی ہوں۔‘ انھوں نے منصوبہ بنایا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں تک باہر نکلنے سے گریز کریں گی۔

اور ایسا معاملہ صرف سامی یانگ کو ہی درپیش نہیں ہے۔ ان کے ایک ایشین نژاد جرمن دوست کو مقامی ٹرین سٹیشن پر ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ اپنے گھر واپس جاتی ایک چینی خاتون کو بری طرح مارا پیٹا گیا۔ برلن میں پولیس نے اس واقعے کو نسل پرستی سے متعلقہ حملے کے طور پر درج کیا ہے۔ اس چینی خاتون نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا ہے انھیں ’وائرس‘ کہا گیا اور جب انھوں نے جواب دیا تو ان کے ساتھ مار پیٹ کی گئی۔

سامی کہتی ہیں ’میں ایسے لوگوں سے لڑنا نہیں چاہتی جو مجھے وائرس کہتے ہیں۔ وہ صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا انھوں نے اخبارات میں پڑھا ہے، آپ ان کا ذہن تبدیل نہیں کر سکتے۔‘

’یہ بات کوئی حیثیت نہیں رکھتی کہ میں ان کو اپنا ویزہ دکھا دوں یا بتاؤں کہ میں یہاں کی مستقل شہری ہوں کیونکہ وہ جو کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ میرا چینی چہرہ ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp