حیض اور سماجی حساسیت


حیض قدرتی و فطری امر ہے، جو خواتین کے ساتھ منسلک ہے، حیض کے بارے میں ایشیا میں مختلف توہمات وابستہ تھے اور ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے پورے ایشیا خاص کر بھارت اور پاکستان میں خواتین کو ان توہمات سے نجات دلانے کے لئے باقاعدہ مہمات چلائی گیئں جن میں خاطر خواہ کامیابی ہوئی۔ خواتین کو حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کرنا اور خود کو صحت مند رکھنا سکھایا گیا، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ڈاکٹرز ٹیمز کے ذریعے خواتین میں سینٹری پیڈز کی تقسیم اور درست استعمال بھی بتایا گیا۔

المیہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں سوشل میڈیا کو آزادی اظہار رائے کا ذریعہ تو سمجھا جاتا ہے لیکن ہر فرد صرف خود کو یہ آزادی دینا چاہتا ہے، دوسرے فرد کو نہیں، پاکستان کے سوشل میڈیا پر جب بھی اس موضوع پر بات ہوتی ہے، مذاق اور طنز کے پیرائے میں ہوتی ہے، اگر خواتین یہ مطالبہ کریں کہ سینٹری پیڈز کی قیمت کم ہونی چاہیے تو یہ مطالبہ بے جا نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک انسانی ضرورت کی چیز ہے اور سماج کی ہر خاتون کو اس کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے قیمت مناسب ہونی چاہیے تا کہ ہر خاتون بہ آسانی خرید سکے۔ سینٹری پیڈز کی دستیابی عام ہونی چاہیے، تا کہ جب کوئی لڑکی یا خاتون خریدنا چاہے، بلا جھجھک خرید سکے، نہ کہ اس کو انتظار کرنا پڑے کہ گھر کا کوئی مرد اس کو لا کر دے گا تب وہ استعمال کر سکے گی۔

اگر خواتین یہ مطالبہ کریں کہ حیض کو شرم و حیا سے مزین، مذاق سے وابستہ شے نہ سمجھا جائے بلکہ ایک فطرت انسانی کے طور پر سمجھا جائے تو یہ مطالبہ بھی ہرگز بے جا نہیں ہے۔

مہینے کے تیس دنوں میں سے سات یا آٹھ دن ایک خاتون کے لئے ہارمونل ڈس بیلنس، تھکاوٹ، کمزوری اور درد کے ہوتے ہیں، ہمارے معاشرے میں مرد حضرات عموما مذاق اڑاتے ہیں، مختلف جملے کسے جاتے ہیں کہ ان کو تو یہ ہو گیا ہے، یا ہوتا ہے، ان کو گرمی چڑھ گئی، فلاں فلاں، کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ ایک خاتون اس حالت میں بھی گھر کے امور سر انجام دیتی ہے، اگر ورکنگ لیڈی ہے تو کام پر بھی جاتی ہے، سر چکراتا ہے پھر بھی شکایت نہیں کرتی، چپ چاپ اپنے روز مرہ فرائض انجام دیتی رہتی ہے، تاوقتیکہ کوئی اس کو پسڈ آف نہ کر دے، اور خاتون پسڈ آف ہو جاتی ہے جب وہ اپنی فطری ضرورت کے لئے سینٹری پیڈز تک نہ خرید سکے، کیونکہ جب وہ خریدنے جاتی ہے تو اس کو معنی خیز نظروں اور اشاروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ورکنگ لیڈیز کو دوران رمضان المبارک روزہ رکھنے کی مصنوعی اداکاری بھی کرنی پڑتی ہے، بلکہ بعض اوقات تو بھوکا پیاسا بھی رہنا پڑتا ہے، کہ کچھ کھایا تو اردگرد کے لوگ ہنسیں گے، کہ اس کو حیض آئے ہوئے ہیں، اسی برتاؤ کے رد عمل کے نتیجے میں پوسٹر بنتے ہیں، جن کا مضحکہ اڑایا جاتا ہے، یا شدید غصہ کیا جاتا ہے، کہ یہ پوسٹر کیوں لکھا گیا، حتیٰ کہ کچھ خواتین بھی ناراض ہوتی ہیں، کہ یہ چھپانے والی بات ہے اس کو چھپانا چاہیے، جب کہ اللہ کی کتاب میں اس کا ذکر ہے۔ ایام حیض میں ہماری دادی ہم کو اللہ تعالی کے ناموں میں ایک نام پڑھنے کے لئے کہتی تھیں،” المتعال“۔ اس اسم کے معنی بہت فصیح و بلیغ ہیں، کیونکہ رب کائنات بہت عظیم ہے اور اس کی بنائی کائنات لامحدود ہے، اور ہمارے سماج کے انسان صرف اس فکر میں ہیں کہ عورت کو حیض ہوتے ہیں تو کسی طرح اس پر طنز کیا جائے، اس پر لطیفے بنائے جائیں، مذاق کیا جائے، جب کہ انسانی، مذہبی اور سماجی اخلاقیات کا تقاضا ہے، کہ عورت کی تکلیف کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا خیال رکھا جائے۔

سماج کے عمر رسیدہ افراد کو نوجوانوں کے سامنے اس قدرتی عمل کا ذکر حقارت اور مزاحیہ پیرائے میں کرنے کے بجائے سکھانے کا ہوناچاہیے کہ ایسا ہونا فطری امر ہے لہذا اس دوران خواتین کا خیال رکھیں، وہ ذہنی و جسمانی تکلیف سے گزرتی ہیں، ان کی کیئر کریں، شادی شدہ ہیں تو ان کے ساتھ اس حالت میں سیکس نہ کریں کہ آپ کی اور ان کی صحت اور ہائی جین کا مسئلہ ہے، کسی قسم کی دل آزاری یا طنزیہ گفتگو کے بجائے چپ رہنے میں بھلائی سمجھی جائے، بری بات کہنے سے خاموش رہنابہتر ہے، یہ شاید ہماری مذہبی شخصیت کا قول ہے، لیکن ہم نے صرف مذہب کا پرچار کرنا ہے، اس پر عمل نہیں کرنا، جب کہ ہمارے دین کی بتائی اخلاقیات دوسری اقوام کے لوگ سیکھ رہے ہیں لیکن ہم ابھی تک بنیادی اخلاقیات نہیں سیکھ پاتے ہیں، کوئی خواتین کے بنیادی انسانی حقوق کے متعلق بات کرتا ہے تو کرنے دیجئے، آپ کو شرم آتی ہے توچپ رہیے، کوئی پوسٹر بنایا جائے تو بنانے دیجئے، پوسٹر بنانا واٹس ایپ پر فحش لطیفے بھیجنے سے بہتر ہے، امید ہے سوشل میڈیا کے سنجیدہ افراد اس موضوع پر سنجیدہ بات ہی کریں گے۔

اور آئندہ کے لئے نوجوان نسل کو اچھی بات ہی بتائیں گے، کچھ تو سوچیئے کہ ہم اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں، ایک کثیف لطیفہ یا ایک اچھی اور دوسرے انسان کی عزت کرنے والی بات۔ ہمارے اکثر احباب بہت پیار سے اپنی ماؤں کی تصاویر، بیٹیوں، بھتیجیوں یا بھانجیوں کی تصاویر اپ لوڈ کرتے ہیں، جب وہ پیدا ہوتی ہیں، ان کے لئے دعا دو تو خوش ہوتے ہیں، بس یہی رویہ اس نو عمر بچی اور نوجوان لڑکی کے لئے بھی رکھئیے جو اپنے کسی بھی مطالبے کا پوسٹر لئے کھڑی ہے، یہ سوچیئے کہ اس کو ایسا پوسٹر کیوں لکھنا پڑا، آپ کو آپ کا رویہ بتانے کے لئے اس نے لکھا، کیونکہ آپ کا رویہ برا ہے، پوسٹر کا مذاق نہیں بنایئے، اپنے آپ کو اور اپنے برتاؤ کو دیکھئے، کہ دوسرا انسان آپ کے سلوک سے اس قدر پسڈ آف ہے کہ اس کو سڑک پر آ کر کھڑے ہونا پڑا، سماج کی نوجوان بچیوں کو اپنی ہی بیٹیاں بھتیجیاں اور بھانجیاں سمجھیئے، ان کے مطالبات مانیے، ان کو بولنے دیجیے تا کہ آئندہ آنے والی بیٹیوں بھتیجیوں اور بھانجیوں کے لئے معاشرہ اچھا ہو، ان کو پوسٹر لکھنے کی ضرورت پیش نہ آئے، وہ انسانی معاشرے میں سانس لے سکیں، بات کر سکیں۔

ہمارے ایک بلاگر دوست نے اپنے آڈیو ویڈیو کالم میں کہا کہ خواتین پوسٹر بنائیں کہ میں ”آرمی چیف بننا چاہتی ہوں“ ان سے کہنا ہے کہ انشا اللہ کسی ایک دن کوئی خاتون آرمی چیف بھی بن جائے گی، اور وہ آرمی چیف جنگ کرنے یا مارشل لاء لگانے کے لئے نہیں بنے گی بلکہ امن قائم کرنے کے لئے آرمی چیف بنے گی، اس لیے آپ فکر نہ کریں۔ آج کی خاتون اچھی طرح جانتی ہے کہ اس کو کیا بننا ہے۔ آپ بس اپنا برتاؤ مہذب رکھئے اور خواتین کے متعلق دل نرم رکھئیے جیسا کہ دینی و اخلاقی تقاضا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments