بچپن کی لگی ہوئی گرہیں کھولنے کی طرف پہلا قدم


فیملی کلچرل فیسٹیول میں ڈی جے لائٹس کی چکا چوند روشنی اور بلند آواز پاپ میوزک ننھی زیمل کے قدموں کو رکنے نہیں دے رہے تھے اور وہ مسلسل اپنے با با سے ضد کر رہی تھی کہ اسے سٹیج پہ جانا ہے۔ اس کے بابا اس معصوم پری کو اپنے تئیں بہلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن زیمل اپنے بابا (انجم) کا ہاتھ تھامے اپنی توتلی زبان میں کہہ رہی تھی ”بابا تلیں۔ بابا تلیں۔ بابا آو تلیں“ انجم کی بیوی نے جب اپنی تین سالہ بیٹی کی معصوم سی خواہش کو طول پکڑتے دیکھا تو اس نے بھی اپنے خاوند سے کہا کہ ”وہ بچی کو دو منٹ کے لیے لے جائیں جب بچی تھوڑا بہل جائے تو واپس لے آئیں۔ “

انجم کی بیوی ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تھی۔ کمپیئرنگ کرنا، بحث و مباحثہ کے مقابلہ جات میں حصہ لینا، مضمون نویسی کے امتحانا ت میں شمولیت کرنا اس کے لیے معمول کی بات تھی۔ دوسری طرف انجم اگرچہ اب ایم فل کر چکا تھا لیکن اس کی پرورش نسبتاً کم تعلیم یافتہ اور گھٹے ہوئے ماحول میں ہوئی تھی۔ شاید اسی لیے وہ چاہتے ہوئے بھی اسٹیج پہ جانے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا ”نہیں۔ ادھر ہی ٹھیک ہے۔ وہاں جا کر بھی تو یہی اچھل کود کرنی ہے اس چڑیل نے۔ “ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر اس نے اپنی بیوی سے آنکھیں چرا لیں۔ اور دوسری طرف دیکھنے لگا لیکن زیمل کہاں ماننے والوں میں تھی۔ وہ میوزک کی آواز پر گراؤنڈ میں اچھل کو د رہی تھی اور اپنے ننھے ہاتھوں سے اپنے بابا کے بازو کو پکڑے مسلسل کھینچے جا رہی تھی۔

ننھی پری کی ضد کے آگے تقریباً ہار مانتے ہوئے انجم نے اپنی بیوی سے اپنے خدشے کا اظہار کیا۔ ”ماریہ یار اسے سمجھاؤ! دیکھو مجھے اس طرح اسٹیج پہ جانا اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ کوئی بھی تو نہیں ہے اسٹیج پہ۔ ایسے میں میں اسے وہاں لے جاؤں۔ مجھے عجیب لگتا ہے۔ “ اور کچھ لمحات کے توقف کے بعد بولا ”ایویں انتظامیہ میں سے کسی نے کچھ کہہ دیا تو بلاوجہ بے عزتی ہوجائے گی۔ “

انجم کی بیوی نے بڑی محبت اور اپنا ئیت کے ساتھ اپنے خاوند کا ہاتھ تھاما اور پر اعتماد انداز میں بولی ”کچھ نہیں ہوگا۔ آپ ایک با ر سٹیج پر جائیں۔ یہ فیملی فنکشن ہے۔ سب ہماری معصوم سی گڑیا کی ’ڈانسی‘ کو انجوائے کریں گے۔ “ لیکن انجم خامو ش رہا۔ میوزک اسی طرح بلند آواز میں چل رہا تھا۔ زیمل جو کافی دیر سے اپنے بابا کا ہاتھ پکڑے ضد کر رہی تھی۔ اب قریب ہی اپنی مستیوں میں گم تھی۔

ماریہ نے انجم کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا ”دیکھیں پتہ نہیں کتنے ہی لوگ آپ کی طرح سو چ رہے ہوں گے۔ شاید آپ جائیں تو وہ بھی اپنے بچوں کو اسٹیج پر لے آئیں۔ انجم نے قدرے غصے سے کہا“ دیکھو یار تھوڑا انتظار کرلو۔ اگر کوئی اور جائے گا تو میں بھی زیمل کو لے جاؤں گا۔ یہ انتظامیہ والے بڑے بد تمیز قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ کسی نے کچھ کہہ دیا تو اتنے سارے لوگوں کے سامنے مذاق بن جائے گا۔ ”

معمولی سی بات پہ اس طرح غصے میں آنے کا ایک ہی مطلب تھا کہ آج پھر کوئی انجانی رکاوٹ انجم کا راستہ روکے کھڑی تھی۔ ماریہ نے اپنے شوہر کو نفسیاتی اور جذباتی سپورٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ ”دیکھیں! اگر آپ اپنے بچپن میں ایک کام نہیں کر سکے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ سے آج بھی نہیں ہو سکے گے۔ “ ماریہ نے اپنے شوہر کاہاتھ تھامتے ہوئے کہا ”آج آپ کو تھوڑی سی ہمت دکھانی ہوگی۔ آپ کی تھوڑی سی ہمت سے ہماری بیٹی کو اس کی خوشی مل جائے گی۔ آپ بس زیمل کی خوشی کو دیکھیں۔ آپ نے ہمیشہ اس کی ہر خوشی کا خیال رکھا ہے اس لیے اس کے بابا آج بھی اس کی خوشی کی خاطر قدم اٹھا ئیں۔ “

نا چاہتے ہوئے بھی انجم نے زیمل کا ہاتھ پکڑا اور اسٹیج کی جانب چل پڑا۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ اس کے پاؤ ں بہت بھاری ہوگئے ہیں۔ اسٹیج تک دو قدم کا فاصلہ طے کرنا اس کے لیے مشکل ہو رہا تھا۔ دل کی دھڑکن بے قابو ہورہی تھی۔

دوسری طرف زیمل جس کی درینہ ضد پوری ہوئی تھی اس کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ اسٹیج کی طرف بھاگے جا رہی تھی۔ اسٹیج پہ جیسے ہی ننھے منھے ہاتھ پاؤں حرکت میں آئے پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ چند ہی منٹو ں میں زیمل کی عمر کے بہت سارے بچے اور بچیاں اسٹیج پر آنے لگے۔ کچھ چھوٹے بچوں کے والدین تو خود اپنے بچوں کو اٹھا اٹھا کر لا رہے تھے۔

اب والدین بچوں کی تصاویر بنا رہے تھے۔ ویڈیوز بن رہی تھیں۔ حاضرین میں سے کچھ مرد حضرات تو اپنے بچوں کے ساتھ مل کر ڈانس بھی کر رہے تھے اور انجم دل ہی دل میں خوش تھا کہ اس نے بچپن کی لگی ہوئی گرہیں کھولنے کی طرف پہلا قدم بڑھا لیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments