کپتان، شہباز کے پیچھے چل پڑا؟


تھل کے اہم ضلع لیہ کا وزیراعظم عمران خان کا دورہ اہمیت کا حامل یوں تھا، عوام کو توقعات تھیں، تبدیلی کے ثمرات سمیٹینے کے لئے عوام منتظر تھے، عوام اتنے جذباتی کیوں تھے، اس کے پیچھے بھی کہانی تھی، وہ یہ تھی کہ لیہ قومی اسمبلی کی دونوں نشتوں پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے، ادھر لیہ صوبائی اسمبلی کی نشتوں پر پاکستان تحریک انصاف وہ مینڈیٹ تو نہیں مل تھا جوکہ قومی اسمبلی کی نشتوں پر ملا تھا لیکن لیہ سے کامیاب ہونیوالے آزاد صوبائی امیدوار پہلی فرصت میں ہی امیر ترین کے جہاز کے سوار ہوگئے تھے۔

یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ وزیراعلی عثمان بزدار کے وزیر اعلی بنوانے میں ان کا مرکزی کردار تھا۔ یوں لیہ کی سیاست میں تحریک انصاف اکثریت میں آگئی تھی اور تخت لاہور سے تخت اسلام آباد تک بلے بلے ہوگئی تھی۔ اس طرح لیہ کے عوام اب کی بار یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ وزیراعظم عمران خان لیہ میں آکر ترقیاتی منصوبوں کے چھکے چوکے ماریں گے جبکہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار جوکہ ان کا وسیم اکرم پلس ہے، وہ پہلے اوور میں ہی باونسر پہ باونسر مار کر ترقیاتی سکمیوں کا میچ لیہ کے عوام کے نام کردے گا لیکن کیا ہوا؟

دلچسپ صورتحال ہے، اس دورے کے بعد ایک بڑی بحث چھڑ گئی ہے۔ راقم الحروف بھی وزیراعظم عمران خان اور پھر وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے دورہ پر بات کرنے سے پہلے یہ بات یاد کروانا چاہتا ہے کہ لیہ ایک وقت میں صوبائی حیثٰیت کا مالک تھا، پھرکشمنری تھا۔ اپنے وسائل سے مالا مال لیہ ایک خاص حیثیت کا مالک تھا، اس کے وارث زندہ تھے، جو اس بات سے واقف تھے کہ اس کے وسائل اور حقوق کا مقدمہ کیسے لڑنا ہے۔ جی لیہ اتنا لاوارث پہلے کبھی نہیں تھا جتنا کہ اب ہوچکا ہے اور اس کے سیاسی وارث بننے کے دعویدار ارکان اسمبلی وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے سامنے لیہ کا مقدمہ پیش کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئے۔ ایسے لگا کہ وہ شرماہٹ، گھبراہٹ یا پھر کمزوری کا شکار ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں لیہ کی محرومیوں کا مقدمہ سرے سے پیش ہی نہیں کرسکے ہیں۔

تاریخی حوالوں سے یہ بات ثابت ہے کہ لیہ کو مختلف ادوار خاص طور غزنوی، سلاطین، مغل، سکھ اور انگریز دور میں اپنے جغرافیہ اور وسائل کی بدولت خاص مقام حاصل رہا ہے۔ منگول اور افغان سرحد سے ملتان پر حملہ آوروں کو لیہ، بھکر، کوٹ ادور اور منیکرہ میں قائم دفاعی حصار کا سامنا کرنا پڑا اور مشکل سے دوچار ہوتے رہے۔ انگریزی راج کے قیام کے بعد مرتب کی گئی باضابط تاریخ کے مطابق 22 جنوری 1849 ء میں ملتان کو فتح کرنے کے بعد برطانوی سامراج نے 1850 میں لیہ کو کمشنری کا درجہ دے کر کرنل راس کو پہلا کمشنر مقررکیا۔

لیہ کمشنری کی نگرانی میں ڈیرہ غازی خان سے ڈیرہ اسماعیل خان، کوٹ ادو، لیہ، بھکر، منیکرہ اور ٹانک کا علاقہ شامل تھا۔ میجر باسک نے بھی قائم مقام کمشنر کے فرائض سرانجام دیے۔ انگریزوں نے 1901 میں شمال مغربی سرحدی صوبہ کو قائم کرکے لیہ کی کمشنری کو ختم کرکے ڈیرہ اسماعیل خان کے نئے صوبہ کا حصہ بناتے ہوئے میانوالی کو ضلع کا درجہ دے کر لیہ کو میانوالی کی تحصیل بنادیا۔ پھر 1909 لیہ کو میانوالی سے الگ کرکے ضلع مظفرگڑھ کی تحصیل بنادیا گیا اس طرح لیہ 73 برس تک مظفرگڑھ کی تحصیل رہا۔

اور پھر یکم جولائی 1982 ء میں تھل کے مرکزی ضلع بھکر کے ساتھ لیہ کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ اب اندازہ کریں لیہ جوکہ صوبہ تھا، پھرکمشنری تھا، اس کو ادھر سے ادھر اور پھر وہاں سے یہاں مطلب میانوالی سے مظفرگڑھ تک کے چکر لگوانے کے بعد بھی صوبائی حثٰیت تو چھوڑیں کشمنری کا درجہ آج تک نہیں مل سکاہے جبکہ قیام پاکستان کو 72 سال مکمل ہوگئے ہیں۔ یوں لیہ کے معروف صحافی ملک مقبول الہی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ لیہ 117 بعد بھی چھینا گیا مقام دوبارہ نہیں دیا گیا ہے۔

لیہ کے عوام کی وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے دورہ لیہ سے بڑی امیدیں تھیں لیکن مایوسی کے علاوہ کچھ نہٰیں ملاہے۔ اور یہ لیہ کے عوام کے ساتھ پہلی بار نہیں ہو رہا ہے بلکہ پچھلے اداور میں بھی ایسا سلوک لیہ کے ساتھ ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اور مذاق اس حدتک کیا گیا کہ رہے نام اللہ کا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے لیہ میں پچھلے ادوار میں خاص طورپر نواز لیگی دور میں تھل سمیت لیہ ڈویثرن کی باتیں چلتی رہیں۔

نوازلیگی ارکان صوبائی اسمبلی نے لیہ کے عوام کو ڈویثرن کے ایشو پر یوں ماموں بنایا کہ لیہ ڈویثرن کے قیام کے نام پر وزیراعلی پنجاب شہبازشریف کے شکریہ بینر لگوادیئے کہ لیہ ڈویثرن منظور ہوگیا، وغیرہ وغیرہ لیکن ساری کہانی تھی، جھوٹ تھا، سیاسی شعبدہ بازی تھی اور لیہ کے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا مقصودتھا، یوں پانچ سال نکال کر بتایا کہ وہ جی اگلی بار، نواز لیگی لیڈر شہبازشریف نے اسی طرح کا وعدہ کرلیا ہے، جیسے پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں صدر آصف علی زرداری نے ملتان میں گیلانی ہاؤس میں بیٹھ کر سرائیکی صوبہ کے لئے اکثریت نہ ہونے پر کہانی ڈالی تھی اور پھر سرائیکی بنک بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن آج تک لوگ ایک دوسرے سے سرائیکی بنک کا ایڈریس پوچھ رہے ہیں۔

اسی طرح نوازلیگی دور میں جس میں شہبازشریف پنجاب کی انگلی پر سارے کام ہوتے تھے، اس میں یونیورسٹی آف ایجوکیشن لیہ کے اعلان اور کاغذی کارروائی کے بعد غائب ہوگئی تھی۔ آج تک میرے جیسے لوگ پوچھتے ہیں کہ لیہ کے نام پر سب کچھ کرنیوالے نواز لیگی یونیورسٹی آف ایجوکیشن لیہ کا پتہ تو بتائیں جہاں لیہ کے طالب علم داخلوں کے لئے اپلائی کرسکیں۔ لیکن چاروں اطراف خاموشی ہے۔ تھل کا مرکزی روٹ مظفرگڑھ میانوالی روڈ جوکہ آئے روز حادثات کی وجہ سے قاتل روڈ کی پہچان پا چکاتھا، ا س کو موٹروے چھوڑیں، دورویہ بنانے کا وعدہ بھی نوازلیگی قیادت نے پورا نہیں کیا تھا۔

اسی طرح لیہ میں میڈیکل کالج، انجئینرنگ یونیورسٹی سے لے کر ٹیچنگ ہسپتال، بہاوالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان، اسلامیہ یوینورسٹی بہاولپور اور پنجاب یونیورسٹی لاہور جیسا کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ہے۔ لیہ کی مختلف قبصے جیسے کوٹ سلطان اور چوک اعظم تحصیل بننے کے معیار پر پورے اترتے ہیں، ان کو وزیراعلی پنجاب شہبازشریف کے دور میں تحصیل کا درجہ دینے کا لولی پاپ تو دیا جاتارہالیکن عملی طورپر کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے۔

لیہ جیسے ضلع جس کی اوقاف کی سو ایکٹر اراضی پر سمرا نشیب ٰمیں سیاسی قبضہ مافیا قابض ہے، اسی ضلع لیہ کے کوٹ سلطان میں کامرس کالج گیارہ مرلے زمین پر قائم ہے۔ اس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ لیہ کہاں کھڑا ہے اور اس کے ساتھ کیا سیلبس روا رکھا گیاہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی عثمان بزدارنے بھی اسی طرح کا سلوک لیہ کے عوام کے ساتھ کیا ہے جوکہ نوازلیگی دور اور پھر اس سے بھی پہلے کا چلا آ رہا ہے۔ اور پھر ارکان اسمبلی نے لیہ کا مقدمہ پیش نہ کرکے عوام کو مزید مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments