چُک بال گیم میں بال چھیننا فاؤل ہے


یہ 14 سال پہلے کی بات ہے میرے سکول کے ڈائریکٹر سپورٹس سر اعمانویل اسد نے مجھے کہا کہ میں ایک گیممتعارف کروا رہا ہوں جس کا نام چُک بال ہے۔

میری کوتاہی ملاحظہ ہو کہ اٹھارہ سال سے ملی ہوئی دعوت کو میں سال دوہزار انیس کے آخر میں پورا کر پایا۔ باسکٹ بال یا تھرو بال کی طرز پر اس گیم کا کورٹ ہوتا ہے اور دونوں طرف ٹیموں میں سات، سات کھلاڑی ہوتے ہیں

میں سر اسد کی دعوت پر کریسنٹ سپورٹس کلب پہنچا تو انتہائی خوبصورت وردیوں میں ملبوس خواتین پلیئرز کھیل کے لئے تیار تھیں، سر اسد نے بتایا کہ چک بال واحد ایسی گیم ہے جس میں مخالف کھلاڑی سے بال چھیننا فاؤل ہے، میں حیران رہ گیا میں نے کہا سر کھیل کا اصل لطف ہی یہ ہے کہ مقابلہ ہو کہ کھلاڑی اپنی طاقت اور مہارت کا مظاہرہ کرے اور مخالف کھلاڑی کو پچھاڑتا ہوا اپنی ٹیم کے لیے پوائنٹ حاصل کرے۔ یہ کیسی گیم ہے کہ کھلاڑی مخالف کھلاڑی کے ہاتھ میں بال کو دیکھتا رہے اور اس سے چھین بھی نہ سکے؟

سر اسد کہنے لگے، ابھی آپ خود دیکھ بھی لو گے چک بال تیز ترین کھیل ہے اور پندرہ منٹ کا ایک ہاف کھیلنے کے لئے سپر فٹنس چاہیے، اور 28 میٹر لمبے اور 16 میٹر چوڑے میدان میں کھلاڑی اتنی تیزی سے حرکت کرتے ہیں اور مخالف کھلاڑی کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر اپنی ٹیم کے لئے پوائنٹ حاصل کرتے ہیں

سر اسد نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بال اتنی تیزی کے ساتھ حرکت کرتی ہے کہ ہر کھلاڑی بال پر نظر جمائے حرکت کرتی ہوئی بال کے ساتھ حرکت کرتا ہے، اتنی دیر میں سر اسد کے ہونہار فرزند اور پاکستان چک بال فیڈریشن کے جوائنٹ سیکریٹری فیصل اسد نے مجھے دو کتابچے تھما دیے، جو چک بال کے قواعدوظوابط اور پاکستان چک بال فیڈریشن کے تعارف پر مبنی ہیں۔

میں نے پڑھا کہ سویٹزر لینڈ کے ما ہرِ حیاتیات ڈاکٹر ہرمن برانڈ نے 1970 مٰیں اس سوچ کے ساتھ چک بال متعارف کروائی کہ ہر کھیل میں کھلاڑیوں کی چھینا جھپٹی سے بہت سارے کھلاڑی زخمی ہوتے ہیں اور بعض تو عمر بھر کے لئے معذور ہو جاتے ہیں اس لئے ایک ایسا کھیل متعارف کروایا جائے جس میں کھلاڑی کو چوٹ لگنے کا کم سے کم اندیشہ ہو، چک بال کا کھیل باسکٹ باک، ہینڈ بال اور والی بال کی طرز کا ہے۔

میں ابھی یہ پڑھ ہی رہا تھا کہ ریفری کی وسل سنائی دی میں نے میدان کی طرف دیکھا تو میدان کے دونوں اطراف دو میٹر چوڑے اور دو میٹر لمبے نیٹ نصب تھے، کھیل شروع ہوا تو ایک ٹیم کے کھلاڑیوں نے ایل دوسرے کو ہاس دینا شروع کیے، مخالف کھلاڑی ان کے راستے کی رکاوٹ تو نہیں بن رہے تھے تاہم وہ بال کے ساتھ ساتھ حرکت کرتے تھے کہ اس ٹیم کے کھلاڑیوں سے یا تو کوئی فاؤل ہو یا پھر بال نیجے گرے تو وہ بال اپنی گرفت میں لے سکیں، بال بہت تیزی کے ساتھ مخالف کھلاڑیوں کی سائیڈ پر لگے نیٹ کی طرف گئی اور ایک کھکاڑی نی اچھل کر پوری قوت کے ساتھ بال نیٹ میں ماری جس سے ایک مخصوص آواز نکلی، اور بال باؤنس ہوئی۔

اب اگر باؤنس ہوئی بال مخالف کھلاڑی کو ٹچ کر جائے لیکن وہ اسے پکڑنے میں ناکام رہے یا پھر بال گراؤنڈ سے باہر چلی جائے یا مخالف کھکاڑی کو ٹچ ہو کر زمین پر گر پڑے۔

اور یہ سب اتنی تیزی سے ہوتا ہے کہ میں نے سوچا کہ کتابچے میں تحریر یہ بات کہ چک بال ستر سال تک کے لوگ کھیل سکتے ہیں محض میرے جیسے چالیسئیے کی حوصلہ افزائی کے لئے لکھی گئی ہے، میں نے اپنے ساتھ بیٹھے سر اسد کے چھوٹے صاحبزادے شرجیل اسد سے پوجھا کہ چک کس زبان کا لفظ ہے تو اس نے بتایا کہ چُک کسی زبان کا لفظ نہیں بلکہ بال کو نیٹ میں مارنے سے جو آواز آتی ہے وہ چُک جیسی ہے اس لئے اس کھیل کا نام چُک بال ہے۔

اتنی دیر میں پہلا پیریڈ مکمل ہوا، مردوں کی ٹیم کے تین پیریڈ ہوتے ہیں ہر پیریڈ پندرہ منٹ کا جبکہ خواتین ٹیموں کے میچ بارہ بارہ منٹ کے تین پیریڈپر مشتمل ہوتے ہیں پاکستان چُک بال فیڈریشن ا ب پاکستان سپورٹس بورڈ کے ساتھ منسلک ایک آفیشل آدارہ ہے، اور چاروں صوبائی تنظیموں کے ساتھ آزاد کشمیر، گکگت بلتستان اور فاٹا کے علاقوں کی اپنی تنظمیں ہیں جو پاکستان چُک بال فیڈریشن کے تحت پورا سال اپنی سرگرمیاں جاری رکھتی ہیں۔

میچ چل رہا تھا اور کھلاڑی پسینے میں شرابور اپنی اپنی ٹیم کے لئے پوائنٹس بنانے کی جدوجہد کر رہے تھے، سر اسد بتانے لگے کہ جب چُک بال کا آغاز کیا تو بہت مشکلات آئیں لیکن ہماری ٹیم نے اپنا کام جاری کر کھا اور ؤج باسط شکیل ہاشمی اور محسن جمیل بیگ جیسے لوگ پاکستان چُک بال فیڈریشن کے سربراہ ہیں، میں نے پوچھا سر کیا ہماری نیشنل چُک بال ٹیم نے کوئی بین الاقوامی ٹورنامنٹ بھی کھیلا ہے تو سر اسد نے بتایا کہ پاکستان کی چُک بال ٹیم نے دو ہزار پندرہ میں ہوئے ورلڈ کپ میں پہلی دفعہ شرکت کی اور پانچویں پوزیشن حاصل کی

اس کے علاوہ انڈیا اور ملائیشیا میں انٹرنیشنل میچ کھیل چکے ہیں، سر اسد کہنے لگے کہ پاکستان بھر میں تعلیمی اداروں اور محکمعں میں چُک بال کی ٹیمیں موجود ہیں، اتنی دیر میں ریفری کی وسل بجی اور میچ کا اختتام ہو گیا، میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا کھلاڑیوں کے پاس چلا گیا اور ایک کھلاڑی جو ہنجاب کی سطح پر چُک بال کھیلتی ہیں ان سے پوچھا کہ کیا چُک بال کھیلنا پرلطف تجربہ ہے ت وہ بتانے لگیں کہ میں ہینڈ بال کھیلا کرتی تھی، جب سے طچُک بال شروع کی ہے، پتہ چلا ہے کہ کیسے مخالف کھلاڑی کو گرائے اور بال چھینے بغیر گیم کی جا سکتی ہے اور ایک صحتمند سرگرمی کی جا سکتی ہے، میں نے پوچھا کیا یہ آسان گیم نہیں؟

وہ کہنے لگیں کہ کوئی بھی کھیل ہو اس میں پریکٹس اور محنت کر کے ہی کھیلنا پڑتا ہے اور چُک بال ایک بہت تیز کھیل ہے اس کے لئے بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ میں نے بہت دیر بعد ایسی کسی صحتمند سرگرمی میں شرکت کی تھی اور اس کے لئے میں سر اسد کا مشکور ہوا۔ چُک بال جیسے کھیل ہی ہمارے میدانوں کو آباد اور نوجوانوں کی صحت مند اور معیاری نشونما کر سکتے ہیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments