بھارت: ہندو مسلم فسادات، وہی قاتل وہی منصف


بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کا برپا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 1947ء میں آزادی کے بعد سے پچھلے 73سالوں میں ملک کے طول و عرض میں 58400فسادات پھوٹ پڑے ہیں۔ بڑے فسادات جہاں 50یا اس سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے کی تعداد لگ بھگ 110 کے قریب ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2008ء سے 2018ء کے دس سالوں کے وقفہ کے درمیان کم و بیش 8ہزار فسادات ریکارڈ کئے گئے ہیں۔یعنی ایک طرح سے ملک میں ہر روز دو فسادات ہوئے ہیں۔

ان سبھی فسادات میں پولیس کا رول حالیہ دہلی میں رونما ہوئے فسادات کی طرح ہمیشہ سے ہی جانبدارانہ رہا ہے۔ بجائے فسادات کو کنٹرول کرنے وہ بلوائیوں کا ساتھ دیکر مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں یا بس خاموش تماشائی بن جاتے ہیں۔ بقول ایک سابق سینئر پولیس افسر وبھوتی نارائین رائے، جنہوں نے 1989ء میں اتر پردیش کے میرٹھ شہر میں ہاشم پورہ اور ملیانہ قتل عام کی ابتدائی تحقیقات کی تھی، بھارت میں پولیس اور مسلمانوں کا رشتہ ہمیشہ سے ہی معاندانہ رہا ہے۔فسادات پر رائے نے کئی تحقیقی مقالے لکھے ہیں۔

بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہوئے فسادات کے تناظر میں ہندی زبان میں ان کی ناول’ شہر میں کرفیو‘ خاصی مشہور ہوگئی تھی۔ ان کی تحقیق کے مطابق مسلمان فسادات کے دوران پولیس کو دشمن سمجھتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے جہاں مسلمانوں کو ہی فسادات میں اکثر بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے ،و ہ پولیس کے قہر کا نشانہ بھی بن جاتے ہیں۔ فسادات سے نپٹنے کے نام پر ان کے ہی نوجوانوں کو پولیس حراست میں لیتی ہے۔ پھر فسادیوں کے ساتھ تصفیہ کرواکے رہا کراتی ہے۔

1984ئکے دہلی کے سکھ مخالف اور 2002ئکے گجرات کے مسلم مخالف فسادات کے علاوہ شاید ہی کبھی فساد برپا کرنے والے بلوائیوں یا ان کے لیڈران کو عدالت کے کٹہرے میں لاکر سزا دی گئی ہو۔ میں نے اپنے جرنلزم کیریئر کی ابتدا ہی ایک ہندو ۔مسلم فساد کو کور کرنے سے کیا۔ نوے کی دہائی کے اوائل میں دہلی کے وسط میں نظام الدین کے علاقہ میں ہندو ۔مسلم فساد پھوٹ پڑے تھے۔ میں ایک نیوز و فیچر ایجنسی میں بطور انٹرن کام کر رہا تھا۔ حکم ہوا کہ فساد کور کرنے کیلئے اپنے ایک سینئر کا ساتھ دینے کیلئے اس علاقہ کی طرف کوچ کروں۔

اس علاقہ میں ایک نالہ مسلم اور ہندو علاقوں کو جدا کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ کرفیو نافذ کردیا گیا ہے اور چار افراد پولیس کی گولیوں سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ پریس کا کارڈ چیک کرکے پولیس والے آگے جانے دے رہے تھے۔مسلم علاقوں سے گذرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ تبلیغی جماعت کی بنگلہ والی مسجد اور مزار غالب کے سامنے والی سڑک پر تازہ خون کے نشانات تھے ۔ درگاہ حضرت نظام الدین، امیر خسرو، عبد الرحیم خان خاناں، مغل بادشاہ ہمایوں کی آرام گاہوں کی شکل میں مسلمانوں کی شان و شوکت کی علامت یہ علاقہ کسمپری کی دہائی دے رہا تھا۔

درگاہ کی طرف جانے والے راستہ پر مکانوں کی ادھ کھلی کھڑکیوں کے پیچھے خوف و ہراس سے پر آنکھیں ہمیں تک رہی تھیں۔ بستی کے اطراف وقف کی خاصی زمین ہے، جس پر قبرستان، کئی مساجد اور درگاہیں موجود ہیں۔چونکہ بستی کے ہندو مکینوں کو مردے جلانے کیلئے خاصی دور دریائے جمنا کے کنارے جانا پڑتا تھا، اسلئے کئی دہائی قبل درگاہ کے سجادہ نشین پیر ضامن نظامی نے نالے سے متصل ایک قطعہ ہندوئوں کو شمشان کیلئے عطیہ کیا تھا۔

اب ویشو ہندو پریشد اور دیگرہندو تنظیمیں اس قطعہ میں نالے کے اس پار قبرستان کی وسیع و عریض اراضی شامل کرکے اس کی حد بندی کرکے اسپر عمارت بنا رہی تھی۔ جس پر مسلمانوں کے اعتراض کی وجہ سے فساد پھوٹ پڑا تھا۔ فساد بچشم خوددیکھنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ نالہ کو پار کرکے دیکھا کہ کرفیو کی دھجیاں اڑیں ہوئی تھیں۔ ایک جم غفیر پولیس کی بھاری موجودگی میں نالے کے دوسری طرف مسلمانوں کے مکانوں پر شدید سنگ بار ی کرتے ہوئے اشتعا ل انگیز نعرے بلند کر رہا تھا۔

شمشان کے پاس مشرقی دہلی سے بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ بینکٹھ لال شرما عرف پریم مجمع کو اور اکسا رہے تھے۔ درگاہ حضرت نظام الدین کا گنبد یہاں سے نظر آرہا تھا اور ان کا اعتراض تھاکہ اس کے اوپر جو سبز جھنڈا لہرا رہا ہے، وہ پاکستانی پرچم ہے ا ور وہ اسکے اترنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ پاس کے ایک مکان میں اٹل بہاری واجپائی اور بی جے پی کے ایک اور لیڈر مدن لال کھورانہ ایک میٹنگ میں مصروف تھے۔ گھنٹہ بھر کے بعد لیڈران نمودار ہوئے۔

بھیڑ نے درگاہ کی طرف اشارہ کرکے پھر نعرے لگانے شروع کئے۔ واجپائی نے مائک سنبھال کر کہا کہ یہ اسلامی جھنڈا ہے اور اسکا ایک ہی رنگ ہے۔ جبکہ پاکستانی پرچم د و رنگی ہوتا ہے۔جب وہ گاڑی کی طرف جارہے تھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ نالہ کے دوسری طرف تو سخت کرفیو نافذ ہے اور لوگ بھی وہیں ہلاک ہوئے ہیں۔ آخر وہ نالہ پر موجود بھیڑ کو پتھرائوکرنے اور اشتعال انگیز نعرے لگانے سے منع کیوں نہیں کر رہے ہیں؟

میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہوں نے کہا کہ نوجوان فساد بھی اسی طرف سے مسلمانوں کے اعتراض سے شروع ہوا۔ اب جو کچھ ہورہا ہے وہ رد عمل ہے۔ اس طرف کے لوگوں (مسلمانوں) کو یہ بات جان لینی چاہئے۔ جلد ہی میں نے دیکھا کہ بھیڑ خونخوار نظروں سے میری طرف دیکھ رہی ہے۔واجپائی نے بھی شاید محسوس کیا کہ میں مسلمان ہوں اور اب اس سوال کے بعد بھیڑ مجھے نشانہ بنائے گی۔ انہوں نے اپنے محافظ کو اشارہ کرکے مجھے نالہ کے دوسری طرف لیجانے کیلئے کہا۔

اسکے ایک سال بعد ہی جب دسمبر 1992ء میں ایودھیا میں بابری مسجد شہید کی گئی، تو دہلی کے ان ہی علاقوں میں جو آجکل تشدد کی زد میں ہیں ،فسادات پھوٹ پڑے۔ سیلم پور کی ایک غریب بستی کو ، جہاں اکثر مزدور، کباڑی کا کام کرنے والے رہتے ہیں کو آگ کے حوالے کیا گیا تھااور کئی افراد فسادیوں کی چھریوں اور پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن گئے تھے۔ روایتی طرز پرہی پولیس نے متاثرین کے ہی اہل خانہ کو حراست میں لیا تھا۔ اس فساد میں ملوث افراد کو بے نقاب کرنا میری پہلی بڑی اسٹوری تھی۔

میں انگریزی کے ایک شامنامہ کے ساتھ بطور ٹرینی منسلک تھا۔ مجھے کرائم رپورٹر کے ساتھ بطور اسسٹنٹ ان فسادات کو کور کرنے کیلئے متعین کیا گیا تھا۔ علاقے میں ایک مقامی ذی اثر ہندو جس کو پہلوان کے نام سے پکارتے تھے، نے دورہ پر آئے صحافیوں، وکیلوں، حقوق انسانی کی تنظیموںکے نمائندوں کیلئے کرسی ، چائے پانی وغیرہ کا انتظام کیا ہوا تھا۔ وہ صحافیوں کیلئے بطور گائیڈ کا کام بھی کرتا تھا۔ متاثرین اور پہلوان صاحب اور ان کے ساتھیوں کی بس ایک ہی رٹ تھی،’’ کہ ہم تو صدیوں سے بھائی چارہ سے رہتے آئے ہیں، یہ تو بس باہر کے نامعلوم لوگ دنگا کرنے آئے تھے۔

‘‘خیر آفس میں مجھے کرائم رپورٹر نے بتایا کہ ایک روز قبل انہوں نے کسی مکین سے ایف آئی آر اور ان کے راشن کارڈ اور دیگر ڈاکومنٹ، کاپی کرانے کیلئے لئے تھے اور اوریجنل ڈاکومنٹ ان کو لوٹانے کیلئے مجھے سیلم پور جانے کا حکم دیا۔ (جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments