روہڑی ٹرین حادثے کے اصل ذمیدار کون ہیں؟


سندھ میں روہڑی جنکشن ریلوے اسٹیشن لاہور کے بعد ملک کا دوسرے بڑے اسٹیشن کا درجہ رکھتا ہے۔ اس اسٹیشن سے جنوب کی طرف صرف بیس منٹ کی پیدل مسافت پر ایک چھوٹی سی ریلوے کراسنگ ہے جس کو جاڑو ماں ( جاڑو کی ماں ) ریلوے کراسنگ کہتے ہیں۔ تین دن قبل رات کو ساڑھے نو بجے کے قریب کراچی سے لاہور کی طرف جانے والی ریل پاکستان ایکسپریس کے سامنے کراچی سے ہی جھنگ جانے والی ایک مسافربس کوچ اسی ریلوے کراسنگ پرسامنے آگئی اور اس کے پرخچے اڑ گئے۔

کوچ کے تین ٹکڑے ہو گئے۔ ایک حصہ ریلوے لائن کے دائیں جانب اور دوسرا ٹکرا بائیں جانب ملبے کا ڈھیر بن کے گرا جبکہ تیسرا بیچ والا ٹکرا ریلوے انجن کے ساتھ تقریبا چار سو میٹر آگے تک گھسیٹتا چلا گیا۔ بیس مسافر جاں بحق ہوئے اور باقی زخمی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔ اس حادثے کا ذمے دار کون ہے؟ اس تحریر کا یہ ہی ایک مقصد ہے۔ یہ جگہ میری رہائش گاہ سے صرف پندرہ منٹ کی پیدل مسافت پر ہے۔ حادثے کی جگہ کا جائزہ لینے کے بعد میں قطعی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ اس واقعے کا ذمے دار کم از کم پاکستان ریلوے بالکل بھی نہیں۔ پھر ذمے دار کون ہیں؟

۔ 1 کوچ ڈرائیور۔

اس حادثے کا مکمل ذمے دار کوچ ڈرائیور ہے جو روہڑی بائی پاس مین نیشنل ہائی وے پر ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے بس کو آف دی روڈ لے کر روڈ سے تقریبا ایک کلو میٹر دور کھجور کے باغات کے اندر سے گزرنے والی ایک چھوٹی سی کچی گزرگاہ جو بالکل بھی کسی بڑی گاڑی کی گزرگاہ نہیں ہے، سے آگے جاکر بغیر پھاٹک کی ریلوے کراسنگ پر سے گزر رہا تھا کہ ٹرین نے اسے اڑا دیا۔ اس کراسنگ پر کبھی بھی پھاٹک نہیں رہا ہے۔ اسی کراسنگ پر ایک سو سال سے بورڈ لگا ہوا ہے جس پر لکھا ہے ”اپنی ذمے داری پر ریلوے لائن عبور کریں۔“

جاڑو ماں ریلوے کراسنگ پر ریلوے کی تاریخ کا یہ پہلا حادثہ ہے۔ ایسی چھوٹی کراسنگ پاکستان میں سینکڑوں ہیں جن پر پھاٹک نہیں ہیں اور ان پر پھاٹک لگاکر مینٹین کرنا فزیلبل بھی نہیں ہے۔ اس کراسنگ کے اطراف دائیں بائیں حد نگاہ دور تک صاف ہے۔ دور تک درختوں یا کسی اور وجہ سے کوئی رکاوٹ نہیں کی ٹرین نظر ہی نہ آئے۔ رات کو تو ٹرین کی تیز لائیٹ دس میل دور سے واضح نظرآتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ڈرائیور نے باوجود ٹرین دیکھنے کے جلد بازی سے نکلنے کی کوشش کی ہے اور اس کی زد میں آگیا ہے، غلط روٹ، غلط رستہ، غلط کراسنگ، اور غلط ٹائمنگ۔

۔ 2 موٹر وے اور سندھ پولیس۔

اس حادثے کی دوسری وجہ پولیس ہے جو ان بسوں اور کوچز کو آف دی روٹ جانے سے نہیں روکتے۔ اگر ان کو بھلے روڈ جام ہو، دوسری گاڑیوں کی طرح صبر کرنے اور انتظار کرنے پر قانون کی طاقت پر مجبور کرین تو ایسے حادثات نہ ہوں۔ ایسا عام ہے کہ کہیں پر بھی روڈ جام ہوتا ہے تو ان بسوں والے، چھوٹے چھوٹے لنک روڈ، شہر کی گلیوں، کچی گزرگاہوں پر گھس آتے ہیں اور پھر حادثے ہوتے ہیں۔ ایران میں ہر سو میل پر بنے ایک چیک پوسٹ پر بس رکتی، ڈرئیور بس سے اترتا، دوڑ کرچیک پوسٹ سے ایک کارڈ لے کر آتا، اسٹیئرنگ میں فٹ کرتا اور آگے بڑھ جاتا۔ پھر سو میل بعد وہ پرانا کارڈ چیک پوسٹ پر دے کر نیا لے کر آتا۔ وہ کارڈ اس کی اسپیڈ چیکنگ کا ہوتا تھا کہ اس نے پچھلے ایک سو میل کس کس رفتار سے گاڑی چلائی ہے۔ میں یہ بیس سال پہلے کا آنکھوں دیکھا منظر بیان کر رہا ہوں۔ اب تو اس میں جدت آ گئی ہو گی۔

۔ 3 بسوں کے مالکان

۔ ان بسوں کے مالکان بھی قصوروار ہیں کیونکہ ڈرائیوروں کی نہ ٹریننگ ہوتی نہ تربیت۔ اوور ٹائم ڈرائیونگ کرتے ہیں، نشہ میں ہیں کہ نہیں، اس کی بھی کوئی چکاس نہیں۔ ریسٹ پوری کرتے ہیں کہ نہیں یہ چیک کرنے کا بھی کوئی نظام نہیں۔ فرق صاف ظاہر ہے ڈائیوو کمپنی کے حادثات نہ ہونے کے برابر ہیں، سبب صرف یہ ہے کہ ان کے ڈرائیور ایک نظام کے تحت ہیں۔

۔ 4 نیشنل ہائی وے اٹھارٹی۔

روہڑی ٹرین حادثے کی ذمے دار نیشنل ہائی وے اٹھارٹی بھی ہے۔ کیوں کہ جس پل پر ٹریفک جام تھا یہ کچھ سال پہلے ہی بنا ہے مگر کرپشن کی وجہ سے اس پل کی حالت قابل رحم ہے اور روڈ اکھڑنے کی وجہ سے اکثر اس پل پر نیشنل ہائی ہے بلاک ہوتا ہے اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں جس کی وجہ سے کوچ ڈرائیور جگاڑ کے رستے ڈھونڈتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments