کراچی کرکٹ نہیں سرکاری اسپتال مانگ رہا ہے


صحافت بھی عجیب شے ہے، ناجانے کیا کیا دیکھنا پڑتا ہے کیا کیا سننا پڑتا ہے، دل خون کے آنسوروتا ہے اور پھر اپنا کل سرمایہ، مائک یا قلم لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کبھی ہم چیختے ہیں تو کبھی ہمارا قلم چلاتا ہے کہ شاید احکام اعلیٰ کے کانوں پر جوں رینگ جائے اور کچھ بہتری آجائے، جس کو آئینہ دکھاؤ اس کے چیلے لفافے کا لیبل لگا دیتے ہیں خیر سچ بولنا ہمیشہ سے ہی جرم قرار دیا گیا ہے۔ ایک خبر نظروں سے گزری تو سوچا اب کی بار خبر عوام کی عدالت میں رکھ کر فیصلہ ان پر چھوڑ دیا جائے اب وہ چاہیں تو ذمہ داران کو آئینہ دکھائیں یا خود آئینے میں اپنا آپ دیکھ کر فیصلہ کریں کہ 70 سالوں سے زائد کے عرصے میں ہمارے چہروں پر کیا لکھا گیا ہے اور کس نے لکھا ہے؟

لاہور کے سرکاری اسپتال سے متصل مسجد کے بیت الخلا میں خاتون نے بچے کو جنم دیا۔ اس حوالے سے خبر کے مطابق ڈاکٹروں پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے ڈلیوری کے لئے لیبر روم میں داخل کرنے کے بجائے دھکے دے کر باہر نکال دیا، جس کے بعد خاتون نے جناح ہسپتال کی مسجد کے واش روم میں بچے کو جنم دے دیا۔ شہری حماد نے کہا کہ میری بیوی کو تکلیف زیادہ ہوئی تو مسجد کے واش روم میں لے گیا جہاں اس نے بچے کو جنم دے دیا۔ جناح ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر یحیٰ سلطان کا کہنا ہے کہ اس معاملہ پر انکوائری کمیٹی بنا دی ہے۔ ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔

اس خبر میں کتنی حقیقت ہے جلد سامنے آجائے گا بہرحال اسپتال کے بجائے سڑکوں پر اور بیت الخلا میں بچوں کی پیدائش اور ہمارے ترقی کے دعوے۔ لاہور کو جانے دیجئے ملک کے کماؤ پوت کراچی کی بات کرلیتے ہیں۔ حال ہی میں ایک دوست کی بہن گردوں کے عارضے میں مبتلا ہوگئیں۔ ان کے اہل خانہ انہیں کراچی کے ایک نامور بڑے سرکاری اسپتال میں لے گئے، اس حوالے سے جب ان کے اہل خانہ سے خبر لی کہ کیسے حالات ہیں سرکاری اسپتالوں کے سنا ہے بڑی تبدیلی آگئی ہے؟

کیوں نہ آتی آخر وفاق اور حکومت سندھ دونوں ہی لڑتے رہتے ہیں کہ ان اسپتالوں کے انتظامی امور کون سنبھالے گا اب اتنی دلچسپی لیں گے تو بہتری تو آنی ہی ہے۔ ان سوالوں کے جواب میں ان کے اہل خانہ کہ الفاظ اور جذبات کی ترجمانی شاید ممکن نہ ہو، بس اتنا کہوں گا کہ غریب اور مڈل کلاس کے بس میں شاید اب بس رونا یا مرنا ہی ہے۔ ان کے مطابق صبح فجر کے وقت 2 گھنٹے کا سفر طے کر کے جانا پڑتا ہے تاکہ نمبر مل جائے، گھنٹوں قطار میں کھڑے رہنے کے بعد مریض کہ ہمراہ دن بھر وہاں انتظار کرنا پڑتا ہے جس میں ڈاکٹروں اور اسٹاف کی جھڑک بھی سننا واجب ہے، ظاہر ہے مفت علاج کرتے ہیں ان کی مرضی کی جگہ بیٹھنا ہوگا ان کی مرضی سے چلنا ہوگا۔

اسی قسم کے الفاظ ایک اور جاننے والے کی زبان سے بھی سننے کو ملے جن کے والد صاحب کافی بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن اہم بیماری قلب کی ہے۔ ان صاحب نے پرائیویٹ اسپتالوں میں اپنا سب کچھ لٹا دیا اس کے بعد جب کچھ لٹانے کو نہ بچہ تو عزت نفس لٹانے سرکاری اسپتال پہنچ گئے کئی گھنٹے وہاں دھکے کھانے کے بعد لوگوں کی منتیں کرنے کے بعد جب ہر طرف سے ایک ہی جواب ملا کے ہمارے پاس مریض کو رکھنے کی گنجائش نہیں تو دل کو یہی تسلی دی کہ ابو کی طبیعت اب ویسے بھی ٹھیک نہیں انہیں زیادہ گھمانا درست نہیں لہذا انہیں گھر پر ہی رکھ کر ان کی خوب خدمت کرتے ہیں ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں باقی اللہ کی مرضی۔

ہاے! امیرِ شہر تیری دولت پے تھو۔ محترم عمران خان کی والدہ کینسر کے باعث اس دنیا سے چلی گئیں۔ اپنو کے جانے کا دکھ واقعی بہت شدید ہوتا ہے عمران خان نے اپنی والدہ کی تکلیف دیکھنے کے بعد کینسر کے مریضوں کے لئے شوکت خانم اسپتال بنایا۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین کچھ بھی کہیں لیکن بلاشبہ شوکت خانم اسپتال اپنے طور کا ایک بہترین اسپتال ہے۔ عمران خان اب اس ملک کے وزیراعظم ہیں اس ملک کا ہر شہری ان کا اپنا ہے عمران خان کو ان کی بیماریوں، تکالیف اور اموات کا اتنا ہی دکھ ہونا چاہیے جتنا کسی اپنے کی تکلیف کا ہوتا۔

بلاول بھٹو کی جماعت پیپلزپارٹی خود کو وفاق کی جماعت کہتی ہے لیکن سندھ کو سب ہی ان کا گڑھ تسلیم کرتے ہیں، متحدہ قومی موومنٹ کی بات کرلیں تو ایک طویل عرصے سے کراچی کی شہری آبادی پر ان کی حکمرانی رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان تینوں جماعتوں نے کراچی کو کتنے اسپتال دیے؟ سول اسپتال کراچی، جناح اسپتال کراچی اور عباسی شہید اسپتال کیا یہ تین اسپتال 1.5 کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کے مریضوں کا بوجھ برداشت کر سکتے ہیں؟

چلیں کراچی مان لیں کراچی میں ایک بڑی تعداد امیر افراد کی ہوگی جو پرائیویٹ علاج کراسکتے ہوں گے۔ کچھ کو ملازمت کے تحت علاج کی سہولت میسر ہوگی لیکن اس  شہر میں رکشہ چلانے والے، ٹھیلا لگانے والے، مزدوری کرنے والے، بسوں کے ڈرائیور کنڈیکٹر، بے روزگار افراد کہاں جائیں۔ اگر تصور کیا جائے کہ اس شہر میں صرف 15 لاکھ لوگ ہی غریب ہوں گے باقیوں کہ لئے آسمان سے سب اترتا ہوگا تو کیا تین سرکاری اسپتال اتنے افراد کا بوجھ بھی برداشت کرسکتے ہیں؟

محترم عمران خان، بلاول بھٹو زرداری، وسیم اختر یا خالد مقبول صدیقی اگر ایک بار بغیر اعلان کیے بغیر پروٹوکول کے سرکاری اسپتالوں کا دورہ کرلیں تو انہیں منا بھائی ایم بی بی ایس کے مناظر حقیقت میں دکھائی دیں گے اور اگر یہ افراد ان اسپتالوں کے فرش پر سسکتی غربت دیکھ لیں تو شاید انہیں سمجھ آجائے کہ اپنوں کی تکلیف کا غم کیا ہوتا ہے۔ پی ایس ایل کے دوران دلہن کی طرح سجے کراچی کے اسپتالوں میں ہزاروں اپنے پیارروں کو یہ کہہ کر گھر لے آتے ہیں کہ اب ہمارے بس میں کچھ نہیں اللہ بہتر کرے پھر تڑپتے مریض کے ساتھ ان کے مرتے اہل خانے رب کہ حضور سوال ضرور کرتے ہوں گے کہ کہاں ہیں میرے حکمران کیا وہ بھی اس حال میں ہیں؟ اگر نہیں تو ان سے میرے اس حال کا حساب کب ہوگا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments