شہریت کا متنازع قانون: اقوامِ متحدہ کی ہائی کمشنر برائے حقوقِ انسانی کی انڈین سپریم کورٹ سے مداخلت کی درخواست


شہریت

اقوامِ متحدہ کی ہائی کمشنر برائے حقوقِ انسانی کے دفتر کی جانب سے شہریت کے متنازع قانون کے خلاف انڈیا کی سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔

انڈیا کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے منگل کو بتایا کہ اقوامِ متحدہ کی ہائی کمشنر برائے حقوقِ انسانی مشیل بیچیلٹ کی جانب سے پیر کی شام جنیوا میں انڈیا کے مستقل مندوب کو اس بارے میں مطلع کیا گیا۔

ان کے مطابق انڈین مندوب کو بتایا گیا کہ ہائی کمشنر برائے حقوقِ انسانی کے دفتر کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں 2019 کے شہریت کے ترمیمی قانون کے تناظر میں انڈین سپریم کورٹ سے مداخلت کی اپیل کی گئی ہے۔

وزارتِ خارجہ کی جانب سے منگل کو جاری ہونے والے بیان میں اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شہریت کا قانون انڈیا کا داخلی معاملہ ہے اور کسی غیر ملکی فریق کو انڈیا کی مقامی عدالت میں درخواست دے کر اس معاملے میں مداخلت کا حق نہیں۔

ترجمان رویش کمار نے یہ بھی کہا کہ ’ہم واضح ہیں کہ شہریت کا قانون (سی اے اے) آئینی طور پر درست ہے اور وہ ہماری آئینی اقدار کی تمام ضروریات کی تعمیل کرتا ہے۔ یہ تقسیم ہند کے سانحے سے پیدا ہونے والے انسانی حقوق کے بارے میں ہماری دیرینہ قومی وابستگی کا عکاس ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’انڈیا ایک جمہوری ملک ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ ہم سب کو اپنی آزاد عدلیہ کا بے حد احترام اوراس پر پورا اعتماد ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارا مستحکم اور قانونی طور پر پائیدار موقف سپریم کورٹ کے ذریعہ ثابت ہو گا۔`

شہریت کے متنازع قانون کے خلاف انڈیا میں احتجاج کا سلسلہ کئی ہفتوں سے جاری ہے اور حال ہی میں دارالحکومت نئی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ہونے والے فسادات جن میں 46 افراد مارے گئے تھے، اسی قانون کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان تصادم سے شروع ہوئے تھے۔

انڈیا کی صحافیوں کے مطابق یہ ایک غیر معمولی اقدام ہے جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔

ایران کے جانب سے تنقید اور انڈیا کا سفارتی احتجاج

انڈیا نے منگل کو ہی ایران کے سفیر کو طلب کر کے ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف کی جانب سے پیر کو دیے گئے اس بیان پر احتجاج کیا ہے جس میں انھوں نے دہلی میں مسلمانوں پر ہونے والے ’منظم تشدد‘ کی مذمت کی تھی اور انڈین حکام سے کہا تھا کہ وہ اس لاقانونیت کو پھیلنے سے روکیں۔

https://twitter.com/JZarif/status/1234519783435067392

جواد ظریف نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ’ایران انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے منظم تشدد کی مذمت کرتا ہے، دہائیوں سے ایران اور انڈیا میں دوستی ہے اور ہم زور دیتے ہیں کہ انڈین حکام تمام انڈین شہریو ں کے تحفظ کا خیال رکھے اور لاقانونیت کو پنپنے نہ دے۔ مستقبل کا لائحہ عمل پرامن مذاکرات اور قانون کی بالادستی میں پنہاں ہے۔’

دلی میں پولیس پر فائر کرنے والا نوجوان گرفتار

ادھر دہلی میں گذشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں ہونے والے فسادات کے بعد متاثرہ علاقوں میں لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے اور ہلاک شدگان کی تعداد 47 تک پہنچ گئی ہے۔

دہلی میں ہونے والے فسادات میں پولیس کے کردار پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ پولیس پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ ان فسادات کو ہوا دینے کی ذمہ دار ہے۔

شاہ رخ

PTI
ویڈیو میں سرخ قمیض پہنے شاہ رخ کو پولیس اہلکار پر پستول تانے دیکھا جا سکتا تھا

پولیس نے شاہ رخ نامی اس نوجوان کو بھی گرفتار کر لیا ہے جسے 24 فروری کو جعفر آباد نامی علاقے میں ایک پولیس اہلکار پر ریوالور تانے دیکھا گیا تھا۔

دہلی پولیس کے ذرائع نے شاہ رخ کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے جبکہ خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق انھیں دلی پولیس کی کرائم برانچ ٹیم نے ریاست اترپردیش سے گرفتار کیا۔

دہلی فسادات کے دوران ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں سرخ قمیض پہنے شاہ رخ پولیس اہلکار پر پستول تانے دیکھے جا سکتے تھے۔ ان کے پیچھے ایک ہجوم تھا جو پتھراؤ کر رہا تھا۔

دی ہندو اخبار کے صحافی سوربھ ترویدی نے اس ویڈیو کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا تھا: ‘سی اے اے مخالف مظاہرین جعفرآباد میں فائرنگ کر رہے ہیں۔ اس شخص نے پولیس اہلکار پر پستول تانی لیکن وہ ڈٹ کر کھڑا رہا۔’

انگریزی اخبار دی ہندو کے صحافی سوربھ ترویدی پیر کو جائے وقوعہ پر موجود تھے اور اس ویڈیو کے بارے میں بی بی سی کو بتایا: ‘میں موج پور سے بابر پور کی جانب جارہا تھا۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ جعفرآباد اور موج پور کی سرحد کے پاس گاڑیوں میں آگ لگی ہوئی ہے، پتھراؤ جاری ہے۔ دونوں طرف سے ہجوم آرہا ہے۔ میں جہاں تھا لوگ سی اے اے کی حمایت میں کھڑے تھے۔ میرے سامنے موجود ہجوم سی اے اے کے خلاف احتجاج کر رہا تھی۔ ان میں سے ایک آگے آیا جس کے ہاتھ میں پستول تھی۔ پیچھے سے ہجوم پتھراؤ کر رہا تھا۔ اس نے پہلے پولیس اہلکار پر پستول تانی اور بھاگنے کو کہا، لیکن پولیس اہلکار کھڑا رہا۔ اس کے بعد اس لڑکے نے قریب آٹھ راؤنڈ فائر کیے تھے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp