حکومت نواز شریف کو واپس لا کر کون سا خزانہ بھرے گی؟


وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وزارت خارجہ نے برطانوی حکام  سے ایک خط میں مطالبہ کیا  ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے  لیڈر  اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو  ملک بدر کرکے پاکستان واپس بھیجاجائے جہاں وہ العزیزیہ کیس میں سزا  بھگت رہے تھے۔   اس خط کے بعد یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ’انصاف‘ کے تقاضے پورے کرنے  کے لئے  بے چین ہے یا اس سیاسی نقصان  کاازالہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے   جوگزشتہ نومبر میں نواز شریف کے   ملک سے روانہ ہونے کی وجہ  اٹھانا پڑا تھا۔

نواز شریف  کو دسمبر 2018 میں العزیزیہ ریفرنس  میں احتساب عدالت نے 7 برس قید کی سزا دی تھی۔ اس کے خلاف اپیل  ابھی تک ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔ اس دوران  نواز شریف  کوٹ لکھپت جیل میں  یہ سزا بھگت رہے تھے۔  تاہم     گزشتہ برس کے آخر میں ان کے جسم میں اچانک پلاٹیلیٹس کی تعداد خطرناک طور سے کم ہونے کے بعد انہیں پہلے ہسپتال منتقل کیا گیا ۔     اصل بیماری کی تشخیص نہ ہونے پر حکومت کے  مقررکردہ میڈیکل بورڈ نے انہیں بیرون ملک علاج کا مشورہ دیا۔ اس دوران ہائی کورٹ نے انہیں  بیرون ملک جانے اور علاج کروانے کی اجازت دیتے ہوئے حکومت کی طرف سے اربوں روپے  کی مالی ضمانت فراہم کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا تھا۔

عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف کی حکومت نے طوعاً و کرہاً اس فیصلہ کو تسلیم کرتے ہوئے نواز شریف کی ملک سے  روانگی قبول کرلی تھی ۔ اس غیر معمولی اقدام کو  دراصل اسٹبلشمنٹ  کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے تعلقات میں بہتری  قرار دیتے ہوئے یہ قیاس آرائیاں زور پکڑنے لگی  تھیں کہ مقتدر حلقے عمران خان  کی کارکردگی اور ملک  کی دگرگوں  معاشی صورت حال کی وجہ سے مایوس ہوچکے ہیں اور اب اس حکومت کا کوئی متبادل تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شہباز شریف کو عرصہ دراز سے مفاہمانہ سیاست کا چیمپئن اور اسٹبلشمنٹ کے لئے ’قابل قبول‘ لیڈر کے طور  پر پیش کیا جاتا ہے۔ نواز شریف کی ضمانت اور ملک سے روانگی کے موقع پر بھی وہی سرگرم رہے تھے ۔ نواز شریف کو ملک سے باہر لے جانے کے  لئے انہوں نے ذاتی طور پر یہ ضمانت دی تھی کہ وہ علاج مکمل ہونے کے بعد انہیں ذاتی طور پر واپس لے کر آئیں گے۔ تاہم ضامن بھی چونکہ نواز شریف کے ساتھ ہی  برطانیہ  روانہ ہوگیا تھا اور ابھی تک وہیں مقیم ہے، اس لئے   کوئی ادارہ ان سے بھی یہ تقاضہ نہیں کرسکتا کہ وہ  نواز شریف کو  اپنی سزا بھگتنے کے لئے واپس لے کر آئیں۔

اس سال کے شروع میں آرمی ترمیمی ایکٹ  کے  ذریعے جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع  کے فیصلہ  میں  بھرپور معاونت  کرکے مسلم لیگ (ن)  نے یہ واضح کردیا گیا تھا کہ  وہ تصادم یا اسٹبلشمنٹ کو للکارنے کی پالیسی  سے دستبردار ہورہی ہے۔  سپریم کورٹ نے پاناما کیس کے فیصلہ میں جولائی 2017 میں نواز شریف کو وزیر اعظم کے طور پر معزول کردیا تھا۔ اس کے بعد سے انہوں نے عوامی مہم چلانے کے لئے ’ووٹ کو عزت دو‘ کے سلوگن سے منتخب حکومت کے مکمل اختیار کے لئے جد و جہد شروع کی تھی ۔ اس مہم جوئی میں انہیں اپنی بیٹی مریم نواز کی مکمل حمایت حاصل تھی جس کی وجہ سے  پاکستان میں یہ احساس اجاگر ہؤا کہ  نواز شریف اپنے مشکوک سیاسی پس منظر کے باوجود اب عوامی حاکمیت کے حقیقی نمائیندے کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اس طرح وہ  تحریک انصاف کی حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے لئے بیک وقت  چیلنج بن چکے تھے۔

البتہ پہلے علاج کے لئے ملک سے روانگی  اور اس سال کے شروع میں   آرمی ایکٹ  میں  ترمیم کی  غیر مشروط حمایت کرکے  نواز شریف نے مزاحمت کی سیاست کو وقتی طور سے خیرباد کہنے کا عندیہ دیا تھا۔  اس سال کے شروع سے نواز شریف اور شہباز شریف لندن میں ہیں اور مریم نواز تمام مقدمات میں ضمانت کے بعد  جاتی عمرہ میں مقیم    ہیں۔ یہ سب کوئی سیاسی بیان دینے  اور عوام کی رہنمائی کرنے کا فرض ادا کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر ہونے کے باوجود  طویل عرصہ سے  شہباز   شریف   ملک سے باہر ہیں۔ اس صورت حال کو متعدد تبصرہ نگار ’پرائم منسٹر ان ویٹنگ‘ کے طور پر دیکھتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے یہ امید کی جارہی تھی کہ ان ہاؤس تبدیلی کے ذریعے عمران خان  کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا جائے گا ۔ اس کے بعد مسلم لیگ(ن) کو  اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں کے ساتھ   مل کر ’قومی حکومت‘ بنانے کا موقع  مل جائے گا۔

یہ بیل متعدد وجوہات کی وجہ سے منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ شہباز شریف   کے یہ دعوے کہ وہ اقتدار میں آکر چھ ماہ کے اندر معیشت کو مستحکم کردیں گے،    قابل اعتبار نہیں ہوسکتے۔ اس کا احساس مقتدر حلقوں  کے علاوہ شاید مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو بھی ہے۔ اس لئے  اپوزیشن کی تمام پارٹیوں میں یہ   رائے مضبوط ہوئی ہے کہ تقریباً  نصف مدت پوری کرنے کے بعد عمران خان کی حکومت ختم کرنے سے ان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس طرح  عمران خان  کو  ’سیاسی شہید‘ بننے کا موقع مل جائے گا اور وہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر کسی بھی حکومت کے لئے کام کرنا مشکل کردیں گے۔ مسلم لیگ (ن) سابقہ دور میں تحریک انصاف کے مسلسل احتجاج   کی وجہ سے ہی غیر مؤثر رہی تھی۔ اس احتجاج کو ملکی اسٹبلشمنٹ کی   بھی مکمل حمایت حاصل تھی۔ ایک اپوزیشن لیڈر جسے قومی اسمبلی میں صرف 33 نشستیں حاصل تھیں، اکثریت رکھنے والی پارٹی کے لئے  درد سر بنا رہا۔    نواز شریف نے   اسی بنیاد پر عوامی حاکمیت کا نعرہ لگایا تھا کہ جب منتخب حکومت کو معمولی  اختلافات کی وجہ سے کام کرنے کا  موقع نہیں دیا جائے گا تو ملک میں جمہوری  نظام کام نہیں کرسکتا۔

تحریک انصاف کی بیڈ گورننس  اور ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ ضرور عمران خان سے نجات حاصل  کرنے کے آپشن پر غور کرتی رہی ہے  لیکن ایک طرف شہباز شریف  کا نواز شریف کی  مدد کے بغیر کوئی سیاسی رسوخ  نہیں  ہے اور نواز شریف بدستور اسٹبلشمنٹ کے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔ دوسری طرف یہ اندیشہ حقیقت پسندانہ تھا کہ  عمران خان نے خواہ اسٹبلشمنٹ کی مدد سے  ہی سہی جب صرف تیس پینتیس نشستوں کے ساتھ حکومت کا جینا حرام کردیا تھا تو اب تو انہیں تقریباً آدھی قومی اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔  اس کے علاوہ  اگلے سال مارچ میں سینیٹ الیکشن میں انہیں  ایوان بالا میں بھی مضبوط سیاسی  حیثیت حاصل ہوجائے گی۔  عمران خان ، نواز شریف کے مقابلے میں اشتعال انگیز سیاست کرنے کے عادی ہیں۔ ایسے طاقت ور لیڈر کی حکومت گرانے سے مسائل کم ہونے کی بجائے ان میں اضافہ کا اندیشہ موجود ہے۔

اس دوران کورونا وائرس کی وجہ سے  تیل  کی قیمتوں میں  قابل ذکر کمی سے  حکومت کو معاشی ریلیف ملا ہے۔  محاصل کا اہداف پورا  نہ ہونے کے باوجود  حکومت کو  کثیروسائل فراہم  ہورہے ہیں کیوں کہ عوام دوستی کے تمام تر وعدوں کے باوجود حکومت نے قیمتوں میں یہ کمی عوام کو منتقل کرنے سے گریز کیا ہے۔  گزشتہ ماہ بنیادی اجناس کی قیمتوں میں اچانک اضافہ کے بعد  عمران خان   نے سرگرمی دکھائی جس کے نتیجے میں قیمتوں میں استحکام پیدا ہؤا ہے اور فروری میں افراط زر میں دو فیصد کمی نوٹ کی گئی ہے۔  اگرچہ اب بھی  قیمتوں میں  ساڑھے  بارہ فیصد اضافہ تکلیف حد تک زیادہ  ہے اور شرح سود   پندرہ فیصد  پر ہونے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں معطل ہیں جبکہ ’ہاٹ منی‘ کے ذریعے سرمایہ کاری کرنے والوں کو کثیر منافع ادا کیا جارہا ہے۔ عمران خان  نے اجناس کی قیمتوں  میں اضافہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کے وعدے ضرور کئے لیکن ان پر اب تک عمل کی نوبت نہیں آئی کیوں ان میں کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں۔

اس کے باوجود اپوزیشن کی  کمزوری، اسٹبلشمنٹ کی طرف سے سیاسی شعبدے بازی سے گریز اور  تیل کی قیمتوں میں  کمی سے حکومت کو معیشت  بہتر کرنے  اور اپنی اقتصادی پالیسیوں  پر نظر ثانی  کا ایک موقع ضرور ملا ہے۔ تاہم  عمران خان  اس موقع کو لوگوں میں خیرات بانٹ کر اور اپوزیشن لیڈروں کے خلاف انتقامی مہم  جاری رکھ کر  ضائع کرنے کا اہتمام کررہے ہیں۔  ایک روز پہلے نیب نے  سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف نیا ریفرنس دائر  کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آج وزیر خارجہ برطانیہ کو نوازشریف کی واپسی کے لئے لکھے گئے خط کی تصدیق کرتے ہوئے اس کی تفصیل بتانے سے گریز کررہے ہیں۔ حکومت کی اس حکمت عملی سے یہی واضح ہوتا ہے کہ موقع ملنے کے باوجود عمران خان سدھرنے کی کوشش کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ وہ اپنے عہدے کی ذمہ داریاں پورا  کرنے کی بجائے اسے بچانے کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔

’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے سے دست بردار ہوکر نواز شریف نے ملک کے جمہوریت پسند طبقہ کی حمایت ضرور کھوئی ہے لیکن  یہ عناصر  امپائر کی انگلی کی مدد سے استوار کی گئی حکومت کی  طرف رجوع نہیں کرسکتے۔ اس کے علاوہ  نواز شریف کی سیاسی قوت و مقبولیت اب بھی موجود ہے۔ اگر وہ آج بھی پاکستان واپس آنے کا اعلان کردیں  تو ملکی سیاست میں زیر و بم پیدا ہوتے دیر نہیں لگے گی۔   نواز شریف کو واپس لانے کی بنیاد پر  اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور   ووٹر کو  رام کرنے کی کوششیں رنگ نہیں لاسکتیں۔  نواز شریف اگر ملکی قانون اور عدالتوں کے ’مفرور‘ ہیں تو انہیں اپنا کام کرنے دیا جائے ۔ وفاقی کابینہ اپنے کرنے کے کام چھوڑ کر کیوں نواز شریف کی واپسی کو قومی اہمیت کا معاملہ بنانے کی ناکام کوشش کررہی ہے؟

عمران خان کو سمجھنا چاہئے کہ سیاسی اور معاشی صورت حال کو سنبھالنے    کے لئے انہیں ایک سے زیادہ مواقع نہیں ملیں گے۔  اگر وہ اب بھی نواز شریف اور زرداری زرداری کھیلتے رہیں گے تو  اپنی حکومت کو درپیش چیلنجز کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے میں ناکام ہی رہیں گے۔ پھر کرپشن  یا لٹیروں کے فرار کا کوئی نعرہ  انہیں  بدترین سیاسی ناکامی سے بچا نہیں سکے گا۔ 2023 کے انتخابات میں  یہ نعرے نہیں بلکہ حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جائیں گے۔ خیرات کے نت نئے منصوبے شروع  کرنا حکومتوں کا نہیں خیراتی اداروں کا کام ہوتا ہے۔ عمران خان نے یہ فرق نہ سمجھا تو ان کی مشکلات اور عوام کی پریشانیوں  میں کمی کا کوئی امکان  نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments