ان ہاؤس تبدیلی کے انگور کھٹے ہیں


گزشتہ برس مولانا فضل الرحمن اپنے ’’آزادی مارچ‘‘ کے ساتھ اسلام آباد آئے تو نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے ان کا بھرپور ساتھ نہیں دیا۔عالمی میڈیا کے ذریعے پیغام ان دو جماعتوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ بھی گیا کہ جیسے کوئی ’’سیاسی‘‘ نہیں بلکہ ایک ’’مذہبی‘‘ جماعت اپنے کارکنوں کو ’’اُکسا‘‘ کر اسلام آباد لے آئی ہے۔’’ہجوم کی طاقت‘‘ عمران حکومت کو گرانے کے لئے استعمال ہورہی ہے ۔ایک زیرک سیاست دان ہوتے ہوئے مولانا مذکورہ پیغام یا تاثر کے مضمرات سے خوب واقف ہیں۔اسلام آباد سے ’’باوقار‘‘ واپسی کی راہ تلاش کرنے چودھری برادران سے ملاقاتوں میں مصروف ہوگئے۔بالآخر ٹھوس سیاسی اعتبار سے کچھ حاصل کئے بغیر اپنے مارچ کے اختتام کا اعلان کردیا۔

مولانا کی اسلام آباد سے خالی ہاتھ واپسی کے باوجود اس شہر کے ’’باخبر‘‘ تصور ہوتے افراد نے سرگوشیوں میں یہ افواہیں پھیلانا شروع کردیں کہ 2019کے ’’نومبر دسمبر‘‘ میں ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ کے امکانا ت نمودار ہورہے ہیں۔ بہت عرصے سے ایک غیر متحرک صحافی ہوتے ہوئے بھی میں نے تواتر سے یہ سوال اٹھانا شروع کردیا کہ فقط 84 اراکینِ اسمبلی کی حمایت کے ساتھ نواز شریف کے نام سے وابستہ مسلم لیگ ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ کیسے لاسکتی ہے۔اس بنیادی سوال کا جواب فراہم کرنے کو کوئی تیار نہیںہوا۔قومی اسمبلی یا سینٹ کے اجلاس دیکھنے جاتا تو پارلیمان کی راہداریوں میں اپوزیشن کے سرکردہ لوگ بھی مل جاتے ۔ میرے سوال کے جواب میں فقط یہ بات کہتے ہوئے رخصت ہوجاتے کہ ’’یہ پاکستان ہے۔یہاں کچھ بھی ممکن ہے۔

‘‘ چند افراد جو شہباز شریف صاحب کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں ذاتی حوالوں سے میرے ساتھ ’’دوستی‘‘ کے دعوے دار بھی ہیں۔ان کے ساتھ بے تکلفی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہباز صاحب کی ’’گیم‘‘ کو جاننے کی کوشش کرتا تو ان کا رویہ مہاتما بدھ جیسا ہوجاتا۔’’تم نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں‘‘والا اعتماد جس کے دفاع میں دلائل پیش کرنے کا تردد نہیں کیا جاتاہے۔

’’نومبر دسمبر‘‘ میں اِن ہائوس تبدیلی نہیں آئی۔میری دانست میں آنی بھی نہیں تھی۔’’اِن ہائوس ‘‘ تبدیلی کے دعوے مگر ختم نہیں ہوئے۔ تاثر بلکہ یہ پھیلایا گیا کہ اسے ’’مارچ اپریل‘‘ تک مؤخر کردیا گیا ہے۔مارچ کا مہینہ شروع ہوچکا ہے۔’’اِن ہائوس‘‘ تبدیلی کے لئے پنجابی والی ’’ہل جل‘‘ مگر نظر نہیں آرہی۔ شہباز شریف کے چند وفادار اگرچہ اب مجھے سمجھارہے ہیں کہ بہت سوچ بچار کے بعد مسلم لیگ (نون)اِن ہائوس تبدیلی کے لئے تیار نہیں ہوئی۔ ان کی دانست میں پاکستانی معیشت کا ’’بٹھا‘‘ بیٹھ چکا ہے۔ ’’فریش مینڈیٹ‘‘ کے بغیر کوئی بھی سیاسی جماعت اسے بحال کرنے کے لئے بنیادی فیصلے کرنے کی سکت سے محروم رہے گی۔بہتر یہی ہے کہ خان صاحب کو پانچ سال مکمل کرنے دئیے جائیں۔ایمان داری کی بات ہے کہ یہ رویہ مجھے ’’انگور کھٹے ہیں‘‘ جیسا محسوس ہوتا ہے۔

بار ہا اس کالم کے ذریعے آپ کو یاد دلانے کی کوشش کی ہے کہ عمران حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاہدہ کررکھا ہے۔ یہ معاہدہ درحقیقت ریاستِ پاکستان کا عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کے ساتھ ہوا بندوبست ہے۔اس بندوبست کی تکمیل ستمبر2022میں ہونا ہے۔اس وقت تک ہمیں بتدریج IMFکی عائد کردہ شرائط کو مکمل طورپر لاگو کرنا ہے۔

اس بندوبست کے تحت حکومتِ پاکستان کو بتدریج بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانا ہیں۔قیمتوں میں یہ اضافہ Cost Recoveryکے نام پر ہونا ہے۔سادہ ترین الفاظ میں اس اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ میں اور آپ بجلی کے فی یونٹ کی وہ قیمت ادا کریں جو حکومت اسے پیدا کرنے والوں کو ادا کرتی ہے۔بجلی پیدا کرنے والوں کا گردشی قرضہ بھی ریکارڈ حدوں کو چھورہا ہے۔اسے ادا کرنا بھی ضروری ہے۔

IMF کو FBR نے محاصل کی مد میں رواں مالی سال کے دوران جو رقم جمع کرنے کا ہدف دیا تھا وہ حاصل ہوتا نظر نہیں آرہا۔IMF کو اب یہ کہا جارہا ہے کہ بقیہ رقم کو Non-Tax Revenueکے ذریعے حاصل کرلیا جائے گا۔یہ اصطلاح بھی حقائق کو سادہ زبان میں بیان نہیں کرتی۔دُنیا بھر میں محاصل یا ٹیکس بنیادی طورپردونوعیت کے ہوتے ہیں۔Directیعنی براہِ راست اور Indirect گویا بالواسطہ۔

تنخواہ داروں کی اکثریت مثال کے طورپرDirect ٹیکسوں کی زد میں آتی ہے۔خلقِ خدا کی کثریت Indirect ٹیکسوں کا بوجھ برداشت کرتی ہے۔کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں جو بے پناہ کمی آئی ہے میں اور آپ اس سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھاپائیں گے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں 15سے 20 ڈالر تک کمی ہوئی ہے۔ہمارے ہاں پیٹرول کی قیمت میں لیکن پانچ روپے کی کمی لائی گئی ہے۔براہِ راست ٹیکسوں کے بجائے عمران حکومت تیل کی عالمی منڈی میں کم ہوئی قیمتوں کو ’’لاٹری‘‘ تصور کررہی ہے۔محاصل کے ضمن میں اس نے جو رقم اکٹھا کرلی ہے اس میں واضح طورپر نظر آنے والی کمی کو پیٹرول پر لگائے ٹیکسوں کے ذریعے جمع کرلیا جائے گا۔

پیر کے روز سینٹ میں اپوزیشن اراکین نے عمران حکومت کی اس ضمن میں اپنائی ’’چالاکی‘‘ کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی۔حماد اظہر مگر اس کے بارے میں ہرگز شرمندہ نہیں ہوئے۔ بہت ڈھٹائی سے اپوزیشن کو یاد دلاتے رہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں کے دوران بھی کئی بار عالمی منڈی میں سستا ہوا تیل ہمارے ہاں مہنگے داموں بکتا رہا۔اصل وجہ اس کی حکومت کی ڈیزل اور پیٹرول وغیرہ پر لگائی ڈیوٹی تھی۔عمران حکومت اس ضمن میں بلکہ اپنا ہاتھ ہولارکھے ہوئے ہے۔

حماد اظہر سے قبل عمر ایوب خان نے بھی دھواں دھار خطاب فرمایا۔عمران حکومت کے ان دوجواں سال وزراء نے یکسوہوکر کمال اعتماد سے کہانی یہ پھیلائی کہ پاکستان کی موجودہ معاشی مشکلات کا اصل ذمہ دار نواز شریف کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار ہیں۔انہوں نے پاکستانی روپے کی قدر کو امریکی ڈالر کے مقابلے میں مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق گرنے نہیں دیا۔پاکستانی روپے کی ’’مصنوعی‘‘ طورپر بنائی قدر کو برقرار رکھنے کے لئے بلکہ 24 ارب ڈالر کی خطیر رقم بقول عمرایوب ’’تندور‘‘ میں جلادی گئی۔

’’مصنوعی قدر‘‘ نے پاکستانی برآمدات کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا۔ اسحاق ڈار کے لئے اقدامات نے بالآخر ملکی خزانہ دیوالیہ کے قریب پہنچادیا۔ عمران حکومت اب مارکیٹ کے تقاضوں کے عین مطابق عمل کرتے ہوئے ملکی معیشت کی بحالی میں مصروف ہے۔بحالی کا یہ عمل یقینا تکلیف دہ ہے۔خوش حالی کی جانب مگر یہ ہی راستہ جاتا ہے۔

IMFکی نگہبانی میں عمران حکومت جس معاشی پالیسی پر گامزن ہے اس پر ہماری اپوزیشن جماعتیں بھرپور توجہ نہیں دے رہیں۔’’اِن ہائوس ‘‘تبدیلی یا ’’فریش مینڈیٹ‘‘ کی منتظر جماعتوں کو بخوبی علم ہے کہ IMF ہماری معیشت کا حتمی نگہبان ہے۔وہ اس ادارے پر کڑی تنقید کی جرأت سے محروم ہیں۔بلاول بھٹو زرداری البتہ یہ اصرار کئے جارہے ہیں کہ IMF سے جو معاہدہ ہوا ہے اس کی شرائط پر نظرثانی درکار ہے۔یہ سوال مگر اپنی جگہ موجود ہے کہ IMF اپنی عائد کردہ شرائط پر نظر ثانی کو مجبور کیوں محسوس کرے گی۔

سیاسی اور سفارتی اعتبار سے اگرچہ اس کی گنجائش موجود ہے۔IMFکے فیصلے فقط معاشی بنیادوں پر ہی نہیں ہوتے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی Strategicترجیحات بھی اس کی فیصلہ سازی میں حتمی کردار ادا کرتی ہیں۔ ٹرمپ نومبر2020کا انتخاب لڑنے سے قبل طالبان سے اپنی پسند کا سمجھوتہ کرنے کو بے چین تھا۔ہماری بھرپور معاونت کے بغیر یہ سمجھوتہ ممکن ہی نہیں تھا۔ہم مگر ٹرمپ کی بے چینی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ٹھوس معاشی رعایتیں حاصل نہ کرپائے۔جولائی 2018میں ٹرمپ-عمران ملاقات کے بعد مسئلہ کشمیر کے ضمن میں امریکی صدر کی جانب سے ’’ثالثی‘‘ کا کردار ادا کرنے کی خواہش ہی سے مسحور رہے۔

گزشتہ ہفتے کے دن طالبان کا ٹرمپ انتظامیہ سے دوحہ میں معاہدہ بھی طے پاگیا ہے۔اس معاہدے کو بھی ہم اپنے ’’اصولی مؤقف‘‘ کی جیت تصور کرتے ہوئے شاداں محسوس کررہے ہیں۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ ستمبر2022تک ہم IMFکی عائد کردہ شرائط لاگو کرنے میں مصروف رہیں گے۔اس معاہدے کیCut of Time Lineکے علاوہ اب مزید اقدامات بھی ہیں جن کا تعلق افغانستان سے ہے۔وعدہ ہوا ہے کہ آئندہ 14مہینوں میں امریکی افواج اس ملک سے وطن لوٹ جائیں گی۔ اپنے وعدے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے امریکہ پاکستان میں ’’سیاسی عدم استحکام‘‘ دیکھنا نہیں چاہے گا۔بہتر یہی ہے کہ فی الوقت کم از کم آئندہ 14مہینوں تک اِن ہائوس تبدیلی یا فریش مینڈیٹ کی امید سے اپنا جی نہ بہلائیں۔ عمران حکومت کو Deliver کرنے دیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments