پرویز رشید کی رخصتی میں عام عوام کے لئے سبق آموز پہلو


عمران عمرام

\"imran-amram\"حکومتی ترجمان جناب پرویز رشید کو وزارت سے فارغ کرنے پہ تمام تر نظریاتی، فکری اور سیاسی اختلافات کے باوجود ان سے دلی ہمدردی محسوس ہوئی۔ بے چارے نے اپنے آقا کی خوشنودی اور ان کے ساتھ وفاداری نبھانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا، یہاں تک کہ اپنی عزت نفس بھی داؤ پہ لگا دی تھی مگر آخر کار انجام کیا ہوا۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ ان کے مخالف اعظم عمران خان جو انہیں درباری کا خطاب بھی دے چکے ہیں، وہ اور ان کی جماعت دارالحکومت پہ چڑھائی کا اعلان کرچکے تھے اور حکومتی مشینری خان صاحب کی حکومت مخالف تحریک کو کچلنے کے لئے اپنی سی کوششیں کر رہے تھے، ان کو اس طرح فرد جرم عائد کر کے وزرا کی صفوں میں سے نکال دینا یقیناً ان کے خیرخواہوں کے لئے دوہری تکلیف کا باعث بنا ہوگا، لیکن کیا کیا جائے کہ جب مصیبت سرپہ آتی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کو روک نہیں سکتی اور انسان بے بس اور لاچار دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت ہی ہمیں احساس ہوتا ہے کہ وزیر ہو یا فقیر سب کائنات کے مالک کے فیصلوں کے آگے ہیچ  ہیں۔

یہاں پہ ہم اس واقعے کے ایک نصیحت آموز پہلو کی طرف عام لوگوں کی توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ عام لوگ جن کو عرف عام میں عوام کہا جاتا ہے، جو جمہور یا پبلک بھی کہلاتے ہیں اور اسی مناسبت سے اس وقت دنیا کا سب سے مشہور نظام جمہوریت اور اس سے جڑے الفاظ جیسے جمہوری، جمہوریہ وغیرہ وجود میں آئے۔ اس وقت دنیا کے اکثر حصوں میں یہی نظام تھوڑی سی ردوبدل کے ساتھ مختلف صورتوں میں اپنے پورے جوبن کے ساتھ چل رہا ہے۔ وہی عام لوگ جو لائنوں میں کھڑے ہوکر، کہیں پہ چلچلاتی دھوپ میں اور کہیں پہ ٹھٹھرتی سردی میں ووٹ دینے کے لئے انتظار کرتے ہیں۔ جن کا کام نعرے لگانا، اپنے سیاسی لیڈروں کی آمد پہ سڑک کنارے کھڑے ہو کے ہاتھ ہلا ہلا کے یا ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کے استقبال کرنا ہوتا ہے اور ان کے عظیم قائدین سامنے سے لینڈ کروزر، پجارو، بڑی بڑی گاڑیوں اور لمبی لمبی کاروں میں کارواں کی صورت میں گزر رہے ہوتے ہیں، پوری ایک فوج ظفر موج لے کے، سائرن بجاتے ہوئے، دھول اڑاتے ہوئے، اور یہ دھول ان خاک نشینوں پہ پڑتی ہے جس کا نام عوام ہے، یعنی یہی عام لوگ۔ یہ آپ کو کئی دفعہ پولیس سے الجھتے ہوئے یا ان سے ڈنڈے کھاتے ہوئے بھی نظر آئیں گے۔

یہ عام لوگ ہی دراصل جمہوریت کا اصل حسن ہیں، کیونکہ انہی کے دم سے ہی تو یہ ساری رونق قائم و دائم ہے۔ اگر یہ نہ ہوں تو کہاں کی سیاست اور کاہے کی لیڈری، آخر ایک لیڈر نے کسی جم غفیر سے خطاب بھی تو کرنا ہوتا ہے، ان کے سامنے بڑے بڑے وعدے کر کے بعد میں مکرنا، ان کو جوش بھی دلانا اور وقتی طور پر خوش کرنا ہوتا ہے، اپنا ہمنوا بنا کر ان کے ووٹوں کی طاقت سے ایوانوں میں جانا ہوتا ہے، وہاں جا کے ان کے مسائل حل کریں یا نہ کریں، یہ تسلی تو دے سکتے ہیں کہ عوام ہی اصل طاقت ہے اور ہمارا کام ان کی خدمت۔ یہی جَنتا ان لیڈروں کی خاطر آپس میں لڑیں گے، اپنے سیاسی قائدین سے محبت اور عقیدت کے جذبے سے مغلوب ہو کر ایک دوسرے سے الجھیں گے۔انہی سیاستدانوں کے ساتھ وفاداری ہی دوستی اور دشمنی کا اصل معیار ہوگا۔ رشتوں میں پختگی اور تعلقات میں گرم جوشی اپنی اپنی اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی کی بنیاد پہ ہوگی۔

یہ سب باتیں ضروری تو نہیں کہ عام زندگی میں ہی پیش آئیں، یہ سوشل میڈیا پہ بھی آپ کے مشاہدے میں آسکتے ہیں۔ اپنے اپنے سیاسی خیالات کی ترویج و اشاعت میں مصروف قوم کے نوجوان کئی دفعہ اخلاق اور شائستگی کا دامن ہاتھ سے چھوڑتے نظر آتے ہیں۔ ایک دوسرے کو گالیاں دیں گے، برا بھلا کہیں گے، الزامات لگائیں گے۔ چادر اور چار دیواری کے تقدس کا بھی خیال رکھے بغیر جملے کسیں گے اور اگر بات زیادہ بڑھ گئی تو قطع تعلقی کی حد تک جا سکتے ہیں۔ تعلقات کا یہ خاتمہ صرف بلاک کرنے کی حد تک بھی ہو سکتا ہے یا اگر حقیقی زندگی میں جاننے والے ہوں تویہ بات بھی بعید ازقیاس نہیں کہ وہاں پہ بھی اس کا منفی اثر پڑے۔ یہ چیزیں اگر دیکھنی ہوں تو آپ مختلف الخیال لوگوں کی والز چیک کریں، ان کے گروپس میں جا کے ایک نظر ڈال لے اور سیاسی یا اخباری پیجز پہ جا کے دیکھ لیجئے۔ بات یہیں پہ ہی نہیں رکتی بلکہ مخالف سیاستدانوں کے عجیب الخلقت خاکے اور تصویریں بناکے ان پہ ایسے ایسے جملے لکھے جاتے ہیں کہ تہذیب، اخلاقیات اور شائستگی کے دائرے سے بہت دور نکل جائے۔ یہ سب کچھ کر کے اپنا قیمتی وقت اور توانائیوں کو مثبت اور تعمیراتی کاموں میں استعمال کرنے کی بجائے فضولیات میں ضائع کر رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی اپنا ایمان اور عاقبت بھی خراب کر لیتے ہیں۔

جن کی خاطر تم یہ سب کچھ کر رہے ہو وہ تو اپنی دنیا میں مگن ہیں، تمہیں ان کے نام، عہدے، ذات پات سب یاد ہیں، مگر کیا وہ بھی تمہیں جانتے ہیں، صرف تمہارا نام ہی جانتے ہوں یا شکل ہی پہچانتے ہوں، جن کی خاطر تم ایک دنیا سے الجھ رہے ہو اور ان کو اپنا دشمن بنا رہے ہو، اپنوں کو بیگانے بنارہے ہو اور بیگانوں کو اپنے، کیا وہ بھی تمہاری ان محبتوں، عقیدتوں اور چاہتوں کا کوئی جواب بھی دے گا یا ایک تم ہی یہاں پہ ہلکان ہو رہے ہو۔ یاد رکھئے کہ ہمارا دین اور ہماری تہذیب ہمیں انسانوں سے محبت کرنا سکھاتا ہے، ان کو احترام دینے اور دل نہ دکھانے کی بات کرتاہے، آپس میں جڑنے کی تلقین کرتا ہے، اور اگر ہم کسی کی حق تلفی کریں تو حقوق العباد کے معاملے میں متاثرہ فرد کی معافی بھی درکار ہوتی ہے، ہم یہاں پہ یہ سب کچھ کرکے بعد میں ان متاثرہ لوگوں کو کہاں کہاں پہ ڈھونڈتے پھریں گے، اگر پھر بھی بات سمجھ نہ آئے تو اتنا ہی سمجھ لے کہ پرویز رشید صاحب اپنی ذمہ داری اور اپنے قائد سے وفاداری کا حق ادا کرتے کرتے اپنی وزارت سے اور عزت سے تو گئے ہی ہیں، ممکن ہے کہ اس الزام یا جرم پہ سزا بھی ہو جائے، جب وہ حکومتی وزیر اور اپنی جماعت کا مشیر ہونے کے باوجود اس دلدل سے اور اس آفت سے نہ بچ سکے اور قربانی کا بکرا اور عبرت کا نشان بن گئے تو ہم اور تم کس کھیت کے مولی ہیں، میری اور تیری عزت کیا، وقعت کیا اور اوقات کیا۔ سو اے خاک نشینو و ہم نشینو، خود کو پہچانو اور جانو اور اپنے لئے جینا سیکھ جاؤ، وگرنہ اس جعلی جمہوریت اور گندی سیاست کی راہ میں مٹ گئے یا کٹ گئے تو ہمارا تمہارا کہیں پہ ذکر بھی نہ ہوگا اور ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments