آزادی مارچ والیوں کی منتظر مظلوم بچیاں


ہر سال مارچ کے مہینے میں چند خواتین عورتوں کی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہیں مجھے آج تک سمجھ نہیں آسکا کہ وہ یہ جنگ کس سے لڑ رہی ہیں جتنے حقوق انھیں اسلام دیتا ہے وہ کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتے پھر بھی ہماری خواتین کہتی ہیں ہم آزاد نہیں ہیں، اگر آپ مارچ کا حصہ بننے جائیں تو ان سے پوچھیے گا ضرور کہ پچھلے سال کتنی بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی کتنی لڑکیوں کو سکولز کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بلیک میل کیا گیا کیا ان لڑکیوں کے لیے آواز اٹھائی؟ ان خواتین تک بلوچستان کی ان بچیوں کے آواز یں نہیں پہنچی جو سخت سردی کی رات کو یونیورسٹی ہوسٹل سے باہر نکال دی جاتی ہیں اور وہ پوچھ رہی ہوتی ہیں ہمارا قصور کیا ہے ان کا قصور صرف یہی تھا کہ وہ ان درندوں کی ہوس کا نشانہ بننے سے انکار کرتی رہیں جو انھیں بلیک میل کر رہے تھے۔

بلوچستان یونیورسٹی کی لڑکیاں یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف آئے روز احتجاج کررہی تھیں ہوسٹلوں میں لگے خفیہ کیمروں کے ذریعے سے ان کی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں اور انھیں بلیک میل کیا جا تا ہے اگر آواز اٹھائی تو فیل کردیں گے نمبر کم لگائیں گے۔ کیا یہ خواتین ان بچیوں کی آواز بنیں جن کے واش روم اور دیگر مقامات پر خفیہ کیمرے ریکارڈنگ کی جاتی ہے۔ اگر آزادی حاصل کرنی ہی ہے تو ان درندوں سے کریں جو معصوم کلیوں کو روند کر رکھ دیتے ہیں ان کی عزتیں پامال کردیتے ہیں ان کے خواب چکنا چور کردیتے ہیں اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حقوق دیے ہیں لیکن کچھ مقام ایسے آتے ہیں جن میں مرد کو فوقیت دی گئی ہے۔

گومل یونیورسٹی میں ہونے والے واقعے سے وہ آنٹیاں باخبر نہیں ہیں جو بڑے زور شور سے میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگاتے ہوئے خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔ نجی ٹی وی چینل نے جب پروفیسر کی خفیہ ریکارڈنگ کی جس میں وہ خواتین اساتذدہ اور یونیورسٹی کی لڑکیوں کو ہراساں کررہے تھے کیا یہ خواتین ان کے لیے باہر نکلی؟ نہیں کیونکہ ان کا مقصد ہی یہی ہے ملک میں ایسے درندے پھرتے ہوں جو جب جہاں چاہیں اپنی ہوس پوری کریں اور انھیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔

کیا ان خواتین تک کاشانہ کی بچیوں کی آوازیں نہیں پہنچی جو آن ریکارڈ کہہ رہی تھیں ہم سے جنسی کام کروائے جاتے ہیں۔ بچیاں چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں ہمیں وزراء اور سرکاری افسران کے آگے پیش کیا جاتا ہے، ہمارے ملک میں 14 سال کی بچیوں کے ساتھ زبردستی کرکے انھیں حاملہ کیا جاتا ہے وہ بدنامی کے ڈر سے کسی کو بتاتی کچھ نہیں ہیں جب وہ 14 سال کی عمر میں ایک بچی کو جنم دیتی ہیں تب تم کہاں ہوتی ہو کیا تم نے ان بچیوں کے لیے کبھی آواز اٹھائی ہے کیا تم نے ان کا درد بانٹا ہے؟ ایسے کتنے واقعات پچھلے سال ہو چکے ہیں کیا تم کبھی ان کے حق میں باہر نکلی ہو یا صرف 8 مارچ کا دن ہی مختص کیا ہوا ہے میرا جسم میری مرضی کے لیے۔

یہ جو ”میرا جسم میری مرضی“ کا نعرہ ہے یہ برابری کے لئے نہیں لگایا جاتا بلکہ اس کے پیچھے سوائے فحاشی کے فروغ کے اور کوئی ایجنڈا نہیں۔ اسلام ایک ضابطہ حیات ہے اس میں ہمیں پوری زندگی گزارنے کے طور طریقے بتائے گے ہیں اسلام نے عورت کو پورے پورے حقوق دیے ہیں اسلام سے پہلے عورت کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا یہ اسلام ہی تھا جس نے عورت کو اس کے حقوق دیے۔ لیکن ہم نے اسلام کے طریقوں کو چھوڑ کر اپنی مرضی کا اسلام اپنی زندگی میں لانے کی ہمہ وقت کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔

خواتین مارچ جو ہر سال ہوتا ہے اس میں بے حیائی کے علاوہ اور کوئی مطالبہ نہیں ہوتا۔ کھانا خود گرم کرلو۔ لو میں ٹھیک سے بیٹھ گئی۔ ایسے نعرے حقوق کے لیے نہیں بلکہ جسم کی آزادی کے لیے لگائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں مغرب کی طرح آزادی ہو باپ چوراہے پر بیٹی کو زنا کرتے دیکھے اور چلتا بنا اپنی غیرت کا جنازہ اپنی آنکھوں سے دیکھے لیکن اسے روکنے کی ہمت نا ہو۔ اگر جسم تمہارا ہے تو مرضی بھی یقیناً تمہاری چلے گی اور چلنی چاہیے، لیکن کیا واقعی یہ جسم تمہارا ہے؟

یا خالق و مالک و رازق کی امانت ہے جو چند سانسوں، چند سالوں کے لئے امانت کے طور پر تمہیں سونپا گیا تو خود ہی سوچ لو دیانت کا تقاضا کیا ہے۔ جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی حق یوں یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ جسم ہمارا تمہارا ہوتا تو خود کشی حرام نہ ہوتی۔ یہاں کچھ بھی تو ہمارا تمہارا نہیں کیا ہم اپنی مرضی سے پیدا ہوتے ہیں؟ کیا ہمیں ماں باپ کے انتخاب کا اختیار ہے؟ کیا ہم بہن بھائی خود منتخب کرتے ہیں؟ کیا ہم پیدا ہونے کے لئے گھر، خاندان، شہر، ملک یہاں تک کہ مذہب کا بھی اختیار رکھتے ہیں؟ کیا ہمیں اپنی شکل صورت، رنگ، جسامت، افتاد طبع پر کسی بھی قسم کا کوئی اختیار ہے؟ کیا موت ہمارے اختیار میں ہے؟

ان لبرل خواتین کو یہ مسئلہ نہیں کہ کوئی ان کے جسم کو ان کی مرضی کے خلاف استعمال کرتا ہے بلکہ انہیں اصل تکلیف یہ ہے کہ اسلام انہیں ان کے جسم کا مادر پدر آزاد استعمال کرنے سے کیوں روکتا ہے۔ یہ چاہتی ہیں کہ انہیں اسلامی معاشرہ میں بھی نیم برہنہ بلکہ برہنہ ہو کر پھرنے سے بھی کوئی نہ روکے۔ ان کا جسم ہے تو انہیں بالکل بھی نہ روکا جائے تاکہ یہ اپنی مرضی سے جس کے ساتھ چاہے زنا کرتی پھریں۔ لیکن دین اسلام ان کی ہی کیا بلکہ کسی کی بھی نفسانی خواہشات کے تابع نہیں، اسلام اللہ کا دین ہے اس لئے اس کے حدود و قیود اللہ کے ہی طے کردہ رہیں گئے چاہے کسی کو ان سے کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ہو۔

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ

آپ کہہ دیں کہ میرے پروردگار نے بے حیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے، ان میں سے جو ظاہر ہوں (ان کو بھی) اور جو چھپے ہوئے ہوں (ان کو بھی)

اعراف۔ 33

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے زیادہ اور کوئی غیرت مند نہیں ہے۔ اسی لیے اس نے بے حیائیوں کو حرام کیا خواہ ظاہر میں ہوں یا پوشیدہ۔

صحیح بخاری۔ 4637

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِیۡعَ الۡفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۙ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ

جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔

نور۔ 19

یہ مردوں کی قائم کردہ نہیں بلکہ اللہ کی حدود ہیں اس لئے ہم فقط سمجھا ہی سکتے ہیں کیونکہ یقینا یہ تمہارا ہی جسم ہے اور اس پر تمہاری ہی مرضی چلے گی، پس تم جانو اور جس کی حدود تم توڑنے چلی ہو

وَمَن یَعْصِ اللَّھَ وَرَسُولَھُ وَیَتَعَدَّ حُدُودَھُ یُدْخِلْھُ نَارًا خَالِدًا فِیھَا وَلَھُ عَذَابٌ مُّھِینٌ

اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدوں سے نکل جائے گا اس کو اللہ دوزخ میں ڈالے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اور اس کو ذلت کا عذاب ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments