عورت مارچ سے نہیں، نعروں سے ڈر لگتا ہے


فخر نے سر تھام رکھا ہے، پریشانی میں اپنے دوست خضر کو فون کیا یار ایسا کب تک چلے گا، اس عورت مارچ میں مرد بیچارہ کب تک پستا رہے گا، مرد کیا کرے، کہاں جائے، کہاں سے بچے، کہاں سر ٹکرائے۔ ایک تو ان عورتوں کو بھی چین نہیں۔ پچھلے سال عورت مارچ کے نعروں سے مرد ایسا ڈرا کہ سارا سال اس کی تلوار سر پہ لٹکتی رہی اورپھر مارچ آگیا عورت کے ساتھ، عورتیں پھر اکٹھی ہورہی ہیں، ہمارے خلاف منصوبے بنا رہی ہیں، باوثوق ذرائع سے خبر آئی ہے میری بیوی کو بھی نعرے بنا کر لانے کو کہا ہے۔

دیکھو تو پہلے عورتوں کو کھانے بنا کر لانے کا کہا جاتا تھا کہ مرد کے دل کا راستہ معدے سے ہو کے گزرتا ہے لیکن اب مردوں کے خلاف نعرے بنا کرلانے کا کہا جاتا ہے، کہ مرد ان نعروں سے ڈر کے گزرتا ہے۔ اپنا کھانا خود گرم کرو سے میرا جسم میری مرضی تک تو پہنچ گئیں، اب خدا جانے کیا چاہتی ہیں۔ کیا نیا نعرہ لے کے آئیں گی، جس پہ عورتیں اور چوڑی ہو جائیں گی۔ اب مرد جتنا بھی بے باک سہی لیکن بیچ چوراہے پر اپنی بیوی کی بات ہر گز نہیں کرتا۔

یہ بیبیاں ہی ہیں جو اندرونی کھاتے بیرون خانہ کھولنے آگئیں۔ مرد بیچارہ تو سمجھو شرم سے ڈوب ہی مرا۔ ارے یار ان عورتوں کو کون سمجھائے مرضی میری ہو یا تیری بات تو ایک ہی ہے، کمرے کی بات تھی کمرے ہی میں سلجھائی جا سکتی تھی، لیکن نہ جی آگئی سڑکوں پہ، بات ہوگی تو میدان میں، شرم گئی تیل بیچنے۔ یہاں ہم مردوں کو تو پڑگئے عزت کے لالے۔ اپنی عزت، غیرت اور پتہ نہیں کیا کیا داؤ پہ لگا ہے اور قانون کے رکھوالے ہیں کہ آنکھوں پہ پٹی باندے اونگھ رہے ہیں۔

کوئی ہے جو ہم مظلوموں کی بھی سن لے، یہ کس موڑ پہ لے آئی ہمیں تقدیر، ہلائی ہے ہم نے عدل کی زنجیر، ہے کوئی ہمیں بھی انصاف دینے والا۔ لیکن یہ بیبیاں چھوڑ کے فرض، مار کے حق کا نعرہ پہنچ گئیں ادھر بھی ہمارے پیچھے۔ ارے ہم نے تو ایسے ہی دنیا دکھاوے کو شیر سی دھاڑ رکھی ہے ورنہ کون نہیں جانتا بیوی کے سامنے شیر بھی ڈھیر ہوتا ہے۔ بیچارہ کونے میں دبکا رہتا ہے، رائٹر ہو یافائٹر، ڈی ایس پی ہو یا آئی جی، وزیر ہو یا فقیر سبھی بیوی سے ڈرتے ہیں۔

ذرا لیٹ ہوجائیں تو بیوی کے ڈر سے اپنے ہی گھر میں چوروں کی طرح داخل ہوتے ہیں، چور تو پھر چور ہے باہر چاہے وہ گن پوائنٹ پہ لوٹ کر آیا ہو لیکن گھر میں سہما سہما آئے گا، کہ اگر کھٹکے سے ہوگئی بیوی کی نیند خراب، تو آجائے گا عذاب۔ ارے یار ہم مرد تو ان سے اتنا ڈرتے ہیں کہ خود کو کھلا چھوڑنا دور کی بات ہے ان عورتوں کے خوف سے اپنے موبائل تک کو لاک لگا کے رکھتے ہیں۔ یہ معصوم نظر آتی بیبیاں جو ہم بیچارے مردوں کا حال کرتی ہیں اس کا درد ایک مرد ہی جان سکتا ہے۔

لیکن اب تو دنیا بھی جان چکی ان معصوم چہروں نے ہم مظلوموں کا جو حال کر رکھا ہے۔ صبح دفتر جانے پہ اپنے کپڑے خود استری کرتے ہیں، رات واپسی میں اپنا کھانا خود گرم کرتے ہیں اور پھر بھی کہتی ہیں میرا جسم میری مرضی۔ وہ تو ہم بھلے مانس ہیں جو ان کی دل آزاری کے خیال سے چپ رہتے ہیں ورنہ سوچو اگر ہم نے بھی آگے سے یہی کہہ دیا تو۔ ارے اگر ہم صرف چند دن ان سے دور رہیں تو پھر دیکھو، کتنے دن برداشت کرتی ہیں ہماری قربت کی فرقت۔

ان کی آنکھوں میں آنسو آئے تو ہم زمانے سے ٹکرا جائیں، خود دھوپ میں کھڑے ہوں لیکن انھیں چھاؤں فراہم کریں، بس میں انھیں سیٹ پہ بھٹا کر خود کھڑے ہوجائیں، سفر پہ جانا ہو گاڑی ہم چلائیں اور تھک تھک یہ جائیں، گھر میں کوئی چور ڈاکو آجائے تو ڈر کے مارے چاہے ہماری اپنی جان نکل رہی ہو لیکن ان کو اپنے پیچھے چھپا کر پستول کے سامنے سینہ تان کر ہم کھڑے ہوں کہ انھیں کچھ نہیں کہنا، اجی کما کر ہم لائیں لیکن عیش انھیں کروائیں، سردی میں خود چاہیں ٹھٹرتے رہیں لیکن انھیں نازک جان کر اپنی جیکٹ اتار کر ہم دیں، انھیں اے سی کی ٹھنڈک فراہم کرنے کو دھوپ میں مارے مارے ہم پھریں، اپنے دوستوں کا پیار اور چھٹی قربان کر کے ان کی خاطر صرف سسرال کو پیارے ہوجائیں، اپنی ساری کمائی ان کے ہاتھوں رکھ کے ان سے سگریٹ تک کے پیسے مانگتے رہیں، غلط آنکھ ان پر اٹھیں اور غیرت ہم کھائیں، ان کی حفاظت کے لئے اپنی جان تک گنوا دیں، ارے ظلم کی حد اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ یہ ہمارے خلاف بولیں تو انھیں تحفظ دینے بھی ہم ہی پہنچیں، اور ہمارے ہی خلاف نعرے لگانے والیوں کی حفاظت پہ مامور بھی ہم رہیں۔

کوئی ہماری فریاد بھی سن لے، کوئی تو روکے انھیں۔ لوجی ہم سب کچھ کر لیں گے، جو کہا آپ نے وہ مان لیا، تم جیتی ہم ہارے، لیکن اب بس کر دو۔ تم اس دنیا میں اپنے وجود کے ساتھ اپنا حق لے کر آئی ہو جسے کوئی نہیں جھٹلا سکتا، اور اگر کوئی تم سے کسی بھی قسم کی زیادتی کرے تو اس کے لئے قانون موجود ہے، قانون تمھارا حق تمھیں دلوائے گا۔ تم ہمیں بہت پیاری ہو، ہماری عزت ہو، تم کمزور نہیں طاقت ہو، ہماری نسلوں کی امین ہو، تم ہمارا وقار ہو، ہمیں تم سے ڈر نہیں لگتا، تمھارا حق دینے سے ڈر نہیں لگتا، بلکہ ان نعروں سے لگتا جو تم بنا کے لے آتی ہو اور پھر ہمارے اوپر ان کے تجربے کرتی ہو۔

لیکن نہ جی کون سنے، کون سمجھے، واہ ربا تو نے کیا مخلوق بنائی ”دہائی ہے دہائی۔ محبت پہ آئے تو بیٹے کی محبت میں بہو سے بیر باندھ، اور عداوت پہ آئے تو شوہر سے دشمنی نبھانے کے چکر میں بھائی کا بھی کباڑہ کر جائے۔ ارے بیبیوں سمجھتی کیوں نہیں شوہر تو ایک ہوتا ہے قابو آجائے گا، لیکن اس کے چکر میں اپنے بھائیوں کی زندگی تو مشکل نہ کرو۔ کل کی تھی اپنی بہن سے بات، میری بہن تم اپنے شوہر کو کھانا گرم کر کے نہیں دینا چاہتی نہ دو لیکن مجھ پر تو احسان کرو۔

بہت سمجھایا ہے کہ تمھارے شوہر کو سیدھا کرنا ہے تو کسی بہانے اس کو ایسی پھینٹی لگواؤں گا کہ کھانا گرم کروانا تو دور وہ ساری عمر کھانا پکوائے گا بھی نہیں۔ لیکن کیا بہنوں کے فرض ادا کرنا ہم بھائیوں پر ہی ہے تم بھی تو بہن ہونے کا حق ادا کرو، اپنی ذاتی دشمنی میں ہمارا کباڑہ نہ کرو۔ ارے خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے، تمھارا اپنے شوہر سے خون کا رشتہ نہیں جس کی تکلیف سے تمھیں تکلیف ہوگی لیکن میری بہن میں تو تیرا ماں جایا ہوں، میرا احساس کر اور اس عورت مارچ سے بیزاری کا اظہار کر۔

بس جی بہن لے آئی آنکھوں میں آنسو، بولی کیسا بھائی ہے تو، تجھے اپنی پڑی ہے بہن کا احساس ہی نہیں۔ ارے اس ناہنجار کو ایک دو تھپڑوں سے کیا اثر ہوگا، اس کو دبا کر اپنے قدموں میں رکھنے کو اس کی رسی کھینچنے کے لئے یہ مارچ کرنا ہی پڑے گا۔ میں منمنایا دیکھو تیری بھابھی بھی چلے جائے گی عورت مارچ میں، تم نہیں جاؤ گی تو اسے روک سکوں گا۔ سمجھنے کی کوشش کرو اسے عورت مارچ نہیں وٹے سٹے کی شادی سمجھو، بہن کو دیکھ کے بیوی بھی بغاوت پہ اتر آئے گی۔

لیکن وہ نہیں مانی، ارے نند بھاوج دشمنی کے ازلی رشتے کو بھلا کر عورت مارچ کے لئے ایک ہوگئیں ہیں۔ ربا تو ہی بتا کہا جائیں تیرے بنائے یہ بے گناہ مرد، ہاہ ہاہ ہاہ شوہر بھی پہلے مرد ہوتا تھا اور پھر اس کی شادی ہوگئی۔ سنو بیبیو! اب عورت مارچ پہ جا ہی رہی ہو تو خدارا نعروں پہ ہاتھ ہولا رکھنا، باقی خدا محافظ ہمارا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments