میرا جسم میری مرضی کا مطلب۔۔۔۔۔اور خلیل الرحمٰن قمر کا اخلاقیات پاٹھ


ماروی سرمد سے ہزار اختلافات ہیں ہمیں اور اس کے کام اور طرز عمل پہ شدید اعتراضات بھی ہیں۔ مجھ سمیت بہت سی لڑکیوں کو اس کے بیانیے پہ شدید تحفظات ہیں۔ اس کے نظریات سے لاتعلقی سہی مگر جو زبان خلیل الرحمٰن قمر نے مین سٹریم میڈیا پر ایک لائیو شو میں اس کے خلاف استعمال کی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قماش کا شخص ہے اور کس بیک گراونڈ سے آیا ہے۔ اور جو مرد اس کی زبان کو کسی بھی بنیاد پر جسٹیفائی کرتا ہے وہ بھی اسی کا ساتھی ہے۔ نام نہاد ریٹنگ کے لیے اس قسم کے شخص کو پروموٹ کرنے والے چینلز پر افسوس در افسوس۔ اور یہ خلیل الرحمٰن جو چند پیسوں کے لیے عورت (جواس کی ماں بھی ہے اور بہن بھی) کہ تقدیس کی اپنی بدبودار تحریروں اور گھٹیا ڈراموں کے ذریعے تجارت کرکے دو ٹکے کماتا پھرتا ہے۔ ایسے مرد کو جو لوگ آئیڈیالائز کرتے ہیں میں ان پر کف افسوس ہی مل سکتی ہوں۔

مرد میرے بھائی بھی ہیں۔ ایک مرد میرا باپ بھی ہے اور یہ مرد میرا مان ہیں، میرا فخر ہیں میرا غرور میری طاقت ہیں۔ میں اگر مردوں کو بحثیت اجتماعی گالی تو دور ان کے خلاف کوئی برا لفظ استعمال کرنے کا سوچوں بھی تو میرے بھائیوں، میرے والد، میرے اساتذہ کے چہرے میرے سامنے آ جاتے ہیں۔ میرا دل ہل جاتا ہے۔

میں نے اپنے گھر تو کیا اپنے ارد گرد بھی مرد کا یہ روپ کبھی نہیں دیکھا۔ کہاں پیدا ہوتے ہیں یہ خلیل الرحمٰن قمر جیسے لوگ؟

خلیل الرحمٰن قمر اور اس جیسے مردوں کو میں کہتی ہوں کہ یہ اپنی ذات کر مارے لوگ ہیں جو عورت کو گالی بھی دیتے ہیں اور اسی عورت کو عنوان بنا کر اپنی روزی روٹی بھی چلاتے پھرتے ہیں۔ مگر ایسا کرتے ان کی ماؤں، ان کی بہنوں اور بیٹیوں کے چہرے بھی ان کے سامنے نہیں آتے۔

میں پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ کوئی عزت دار اور خاندانی مرد خلیل الرحمٰن قمر جیسے مرد کی بدبودار سوچ اور اس ذلت اگلتی زبان کی حمایت نہیں کر سکتا (جو اس کے ہر ڈرامے اور ہر تحریر سے ٹپکتی ہے ) کیوں کہ یہی عورتیں ان مردوں کہ بہنیں بھی ہیں، بیٹیاں بھی اور مائیں بھی۔ خلیل الرحمٰن نے میں جو کچھ ماروی کو بولا اور ایک عورت کے جسم کو بھاؤ دینے یا نہ دینے کے جو پیمانے بتائے ہیں پوری قوم کو وہ بھی ایک لائیو شو میں بیٹھ کر جب کسی پوری فیملی نے اکٹھے بیٹھ کر یہ سب سنا ہوگا تو پھر ایک باپ اپنی بیٹی سے اور ایک بھائی اپنی بہن سے نظر کیسے ملا پایا ہوگا؟

اور جو اس ذہنی طور پر بیمار شخص کو ماروی کی بے عزتی کرنے پر سات خون معاف کر رہے ہیں وہ تصویر کا یہ رخ کیوں نہیں دیکھ رہے؟ کیا میرا جسم میری مرضی کی یہی وضاحت رہ گئی ہے؟ سیکس سے سیکس تک؟

مطلب میرا جسم میری مرضی کا مطلب یہ ہے کہ عورت نے یہ نعرہ لگا کر اپنے جسم کو فحاشی و سیکس کے لیے اپنی مرضی سے استعمال کرنا ہے اور اور مرد اس کی مخالفت اس لیے کرتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ یہ سب کچھ اپنی مرضی سے کرنا چاہتا ہے؟ بس؟ یہہ سوچ اور یہی مطلب ہے؟ جس قوم کا ذہن اس چیز سے آگے سوچتا ہی نہیں اس پر افسوس کیسا۔

اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ ”میرا جسم میری مرضی“ کے بیانیے کا کیا مطلب ہے تو میں کہوں گی کہ:۔

”اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں جسم سے مراد وجود ہے۔ مطلب میرا وجود میری مرضی

my existence on this globe will be regulated by my own wills۔

میری مرضی کہ میں جائداد میں اپنا حصہ چھوڑوں یا نہ چھوڑوں۔ میری مرضی کہ مجھے کیا پڑھنا ہے۔ میری مرضی کہ مجھے ڈاکٹر بننا ہے یا وکیل۔ آپ اپنی ذاتی آن بان اور شان کے لیے مجھے سولی نہیں سکتے۔ آپ ایک مرد کا سر بچانے کے لیے ایک عورت کو ونی میں نہیں دے سکتے۔ آپ ایک لڑکی کی شادی خاندان کے کسی بھی شخص سے اس لیے نہیں کر سکتے کہ یہ خاندان کی بچانے کے لیے ضروری ہے۔ آپ اپنی روزی روٹی چلانے کے لیے ایک عورت کو استعمال نہیں کر سکتے، آپ اس کو کسی بھی گھٹیا شخص کے ہاں اپنا نشہ پتی پورا کرنے کے لیے ملازم نہیں رکھوا سکتے۔ ایک لڑکی آپ کو ناپسند کرتی ہو تو اپ اس کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ آپ سے شادی کرے اور اگر وہ آپ کو گھاس نہیں ڈالتی تو آپ کو یہ حق نہیں ہے اس کے چہرے پہ تیزاب ڈال دیں۔ اس کو بدنام کریں ڈرائیں، دھمکائیں۔ آپ کو کوئی حق نہیں کہ کسی بھی لڑکی کو مجبور کریں، بلیک میل کریں اس کہ مرضی کے خلاف زندگی گزارنے پہ مجبور کریں یا کسی بھی عمر کی عورت کا ریپ کر دیں۔ زندگی گزارنے کے جو اصول ہیں وہ مرد اور عورت کی آزاد مرضی اور باہمی اتفاق سے چلیں نہ کہ یہ کہا جائے کہ چونکہ تم ایک عورت ہوتو تمہیں بولنے یا اپنی مرضی بتانے کا کوئی حق نہیں لہذا خاموش رہو۔

میرا جسم میری مرضی کا مطلب یہ ہے کہ ایک عورت کے وجود اور اس کی تقدیر کے فیصلوں میں اس کی مرضی بھی شامل ہونی چاہیے۔ اس کو بھی زندگی کے فیصلوں کا اتنا ہی حق ہے جتنا ایک مرد کو۔ جب ایک بیٹے سے اس کی مرضی ہو پوچھتے ہو اس کے ہر فیصلے میں تو ایک بیٹی سے بھی پوچھ لو۔ اس کو کیا چاہیے، وہ کیا بننا چاہتی ہے، وہ کیا سوچتی ہے، اس کے کیا خواب ہیں۔ اس کی زندگی و وجود کے ہر فیصلے میں اس کی مرضی و رضا بھی شامل ہونی چاہیے۔ چاہے وہ تعلیم ہو، جاب ہو، شادی کا فیصلہ ہو، بچوں کے مستقبل کا سوال ہو یا اپنی جائداد بھائیوں کو دینے کی بات۔ وہ ایک جیتا جاگتا زندہ انسانی جسم اور ذی شعور وجود ہے جس کو خدا نے کچھ بنیادی حق دے کر پیدا کیا ہے جو اور اس میں عورت و مرد کی کوئی تفریق نہیں ہے، لہذا کسی انسان کو کوئی حق نہیں کی وہ اس کی مرضی و منشاء کے خلاف اس کے یہ حق چھنیے، نا کو غصب کرے یا یہ حقوق استعمال کرنے کی مخالفت کرے یا ان میں رکاوٹ بنے ”

یہ میری سمجھ ہے میرا جسم میری مرضی کے بیانیے کو لے کر کہ جب یہ سارے حقوق ایک جیتے جاگتے انسانی جسم اور وجود کا حق ہیں تو پھر یہ حق مانگنے میں کون سی بے حیائی کون سی برائی؟ اور جو لوگ یہ حق مانگنے پر اتنے سیخ پا ہیں وہ کیا چاہتے ہیں کہ یہ سارے فیصلے وہ کریں؟

”میرا جسم میری مرضی“ کے بیانیے پراپکی کیا سمجھ ہے وہ آپ کی رائے آپ کا طرف اپکی سوچ۔

اور رہی بات خلیل الرحمٰن قمر کے اخلاقیات و حیا سے عاری کلمات کی تو کچھ بھائی لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ ماروی نے اس کو بار بار کہا کہ ”میرا جسم میری مرضی“ تو اس پر خلیل الرحمٰن تپ گئے اور وہ یہ سب ارشادات کر گئے ایک عورت کے جسمانی اہمیت و مقصد اور اس کو گھاس ڈالنے کے پیمانے بتاتے ہوئے۔ تو ان بھائیوں سے سوال ہے کہ کیا خلیل الرحمٰن سننا چاہتے تھے ”میرا جسم اور خلیل الرحمٰن کی مرضی“؟ خلیل الرحمٰن کا ماروی کا یہ نعرہ لگانے پر یہ ردعمل میری سمجھ سے بالا تر ہے۔ نہ تو وہ ماروی کے بھائی تھے نہ خاوند نہ باپ کہ چلو کچھ سمجھ بھی آتی۔

اور آخری بات عورتوں اور مردوں میں موجود یہی دو انتہائیں (ایک کا استعارہ ماروی سرمد اور دوسری کا خلیل الرحمٰن قمر) ہی اس معاشرے کا وبال ہیں جو مرد اور عورت کو (جو ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم و بصد احترام ہیں ) ان کے رشتے کو سر بازار لے آئی ہیں۔

اور اس میڈیا چینل کو دیکھں عورتوں اور مردوں کی نمائیندگی کے لیے کن ہستیوں کو بلایا ہے۔ ماروی سرمد اور خلیل الرحمٰن قمر۔ دونوں کی روزی روٹی جنس مخالف کو گندا کرنے سے چلتی ہے۔ مطلب کوئی معقول مرد یا متوازن خیالات کی بندی ان کو نمائیندگی کے لئے نہیں ملی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان دونوں کے ساتھ دو متوازن خیالات کے لوگ بھی ہوتے اور جو تناؤ معاشرے میں دونوں جینڈرز کے درمیان اس قسم کی خیالات سے پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس پہ ایک متوازن رویہ و خیالات کے حامل افراد کی وجہ سے ٹھنڈا پانی پڑ جاتا۔ پر چینلز کو تو ریٹنگ چاہیے۔ کہیں سے بھی آئے۔ لہذا قوم کو اخلاقیات سکھانے کا عمل جاری و ساری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments