عورت مارچ 2020


پاکستان میں گزشتہ سال خواتین یا عورت مارچ کے نام پر ڈرامہ رچایا گیا۔ ایسا حیا باختہ مارچ پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ خواتین نے جو پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے ان پر درج الفاظ پڑھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ یہ ہو بہو وہ الفاظ ہیں جو مغرب کی نقالی میں یہاں کے مذہب بیزار اور مغرب کے تربیت یافتہ طبقہ نے مغرب سے مستعار لیے ہیں۔ اسلامی جمہوری پاکستان میں پہلی مرتبہ تحریک انصاف کی حکومت میں اس آزاد خیال اور لبرل طبقے کو موقع ملا کہ وہ اپنے افکار کا برملا اظہار کر سکیں۔

اس مرتبہ پھر بڑے شدومد کے ساتھ عورت مارچ 2020 آٹھ مارچ کو منانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ معاشرے کی چند آزاد منش اور مشرقی روایات کو پاوں تلے روندنے والی خواتین سڑکوں پر اپنی آزادی یعنی ”میرا جسم میری مرضی“ جیسے گھٹیا نعرے کے تحت مارچ کریں گی۔ اس مرتبہ حکومت کے علاوہ پیپلز پارٹی اور دیگر سیکولر اور لبرل جماعتیں و تنظیمیں بھی ان آوارہ عورتیں کے مارچ کے پیچھے کھڑی ہیں۔ (برادر عزیز، آپ کس بنیاد پر اور کن شواہد کی روشنی میں قابل احترام خواتین کو آوارہ کہہ رہے ہیں؟ مدیر)

مغربی افکار و نظریات کی بنیاد سیکولرزم اور لادینیت پر ہے۔ یعنی مذہب اور اجتماعی زندگی کی علیحدگی کا تصور۔ (حیران کن بات ہے کہ آپ جیسا فہیم شخص سیکولرزم اور لادینیت کو ایک ہی چیز سمجھتا ہے۔ ایک سیاسی نظام ہے اور اور دوسرا فلسفیانہ نقطہ نظر – مدیر)  مغربی جمہویت میں مذہب انسان کا پرسنل معاملہ ہے جسے ریاستی کاموں سے کوئی سروکار نہیں۔ مغرب صرف اپنے علوم ہمیں دینے کو تیار نہیں بلکہ علوم و فنون کے ساتھ وہ   اپنی تہذیب اور لامذہب نظریات بھی ہمیں دینا چاہتا ہے۔ یہ سلسلہ برصغیر میں انگریز کی آمد سے شروع ہو گیا تھا۔ جیسا کہ 1834 میں لارڈ میکالے نے طے کر دیا تھا۔”یعنی ایک ایسی نسل کی تیاری جو یہاں کے کروڑوں باشندوں اور انگریزوں کے درمیان ترجمانی کا فریضہ انجام دے سکے، ایسی نسل جو رنگ و نسل سے تو ہندوستانی ہو اور رائے، ذوق اور مزاج و مذاق میں برطانوی ہو۔ “

کوئی اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پوری دنیائے مغرب کا ایک طے شدہ فیصلہ ہے کہ دنیائے اسلام پر مغرب کے ایجنڈے کو سو فیصد نافذ کیا جائے اور عالمگیریت (globalisation) کے نئے نظریات اور تصورات سے کام لے کر اہل مشرق کو بالعموم اور دنیائے اسلام کو بالخصوص مغرب کا تابع مہل اور نقل بمطابق اصل بنایا جائے۔ مغرب کا ایجنڈا ایک ہمہ گیر ایجنڈا ہے اور اس میں سیاست و معیشت، تجارت و مالیات اور تعلیم و ثقافت سے لے کر فرد اور خاندان تک ہر چیز شامل ہے۔ (عزیز محترم، اہل مشرق میں تو چین اور بھارت کے تین ارب انسان بھی شامل ہیں۔ دنیائے اسلام میں آپ سعودی عرب اور ایران کا جھگڑا تو نمٹا نہیں سکتے۔ یمن کے مسلمانوں کے خلاف جنگ کی کمان پاکستانی فوج کا ایک سابق سربراہ کر رہا ہے۔ شام میں ایران، سعودی عرب اور خود شامی حکومت نے ایک قوم کو برباد کر ڈالا، ہزاروں برس پر پھیلی تہذیب کو روند ڈالا۔ خدارا ، اس خیالی دنیا سے باہر نکل کر حقائق پر توجہ فرمائیے – مدیر)

مغرب نے عقل کو استعمال کرتے ہوئے اخلاقی قدروں کو جس طرح پامال کیا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ سیکولر جہموریت کی وجہ سے مغرب میں اخلاقی بے راہ روی اور جنسی بے راہ روی کا طوفان اٹھا ہے۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ نے ہم جنس پرستی کو سند جواز دی، اور ہم جنس شادیوں کو قانونی طور پر تسلیم کیا۔ برطانیہ میں اس قانون کی منظوری کے بعد اب یورپ میں ان کی باقاعدہ جماعتیں قائم ہیں۔ مرد ہم جنس پرست gay جبکہ خواتین ہم جنس پرست lesbian کہلاتی ہیں۔ ان کہ اپنی تنظیمیں ہیں۔ یورپ میں ایک تنظیم swap union کے نام سے مشہور ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ بیویوں کے تبادلہ کو قانونی حیثیت دی جائے۔ یعنی ایک دوسرے کی بیویوں کا تبادلہ کیا جا سکے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جیسے ایک غیر شادی شدہ لڑکی کو اختیار ہے کہ وہ جو چاہے کرے اسی طرح ایک شادی شدہ عورت کو بھی اختیار ہونا چاہیے کہ شادی کے بعد وہ جس مرد کے پاس جانا چاہے تو جائے۔ اسی وجہ سے یورپ میں غیر ثابت النسب افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ (برادر محترم، جنہیں ثابت النسب ہونے کا دعویٰ ہے، ڈی این اے کا امتحان کر لیں۔)

کھلے عام زنا کی وجہ سے وہاں ایڈز کی بیماری کثرت سے پھیل رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایڈز سے بچاؤ کے تدارک کے لیے وہاں زنا کی مذمت کی جاتی۔ لیکن یورپ میں اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ حفاظتی تدابیر کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرو۔ اس کے لیے باقاعدہ تعلیمی کورس منعقد ہوتے ہیں عملی تربیت دی جاتی ہے۔ بلکہ جن تعلیمی اداروں میں لڑکے اور لڑکیاں پڑھتی ہیں وہاں ایڈز کی روک تھام کے لیے یہ انتظام کیا گیا ہے کہ یونیورسٹی کے غسل خانے میں وہ خود کار مشین لگائی ہوئی ہیں جن کے اندر ہیسے ڈال کر کنڈوم نکل آتا ہے۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ ایڈز کی وجہ سے زنا کو فروغ ملا یا زنا کی روک تھام میں مدد ملی۔ زنا بالرضا کی اجازت ہونے کے باوجود بے لگام ہوس ختم ہونے کا نام نہیں لیتی آج بھی زنابالجبر کے سب سے زیادہ واقعات یورپ میں رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ (آپ کے ارشاد سے یہ جان کر اطمینان ہوا کہ ہمارے معاشرے میں لوگ زنا کا پرچہ ترکیب استعمال بھول چکے ہیں۔ مدیر)

یہ مغرب میں اخلاقی بے راہ روی کی چند جھلکیاں ہیں۔ وہاں کا معاشرہ اخلاقی طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ خانگی اور معاشرتی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ہر شخص اپنی جنسی ہوس کو بجھانے کے لئے جانوروں کی سطح سے بھی نیچے گرتا جا رہا ہے۔ یہ وہ مغربی انقلاب ہے جس کا سیلاب مسلم ملکوں میں کئی عشروں پہلے داخل ہو چکا ہے۔ ہماری حکومتوں نے اس سیلاب کے راستے میں بند باندھنے کی بجائے اس خوش آمدید کہا ہے۔ مسلم معاشرہ تقسیم کا شکار ہو چکا ہے۔ ایک طرف مذہب پرست دوسری جانب مذہب بیزار طبقہ ہے۔ یہ ذہنی فکری اور نظریاتی کشمکش ہے۔ اہل علم حضرات اپنے زمانے کو سمجھیں۔ وقت کو جانیں۔ اس زمانے میں امت مسلم کی رہبری کرنے والوں کو جدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ اپنے زمانے کی زبان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ امام یوسف صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے

”یعنی جو اپنے زمانے کے لوگوں کو نہیں جانتا وہ جاہل ہے“۔

آج مغربی نظریات و افکار اور تہذیب کا فتنہ تاتاری فتنہ سے بڑا فتنہ ہے۔ خاص کر پاکستان میں اس وقت ایک عظیم محاذ برپا ہے۔ ایک طرف ملحدین اور آزاد خیال ہیں جن کی پشت پر حکومت وقت ہے۔ دوسری طرف تقسیم مذہبی طبقہ ہے۔ علماء اور دین دار طبقہ اور ہر مذہب شہری کا فرض بنتا ہے کی میدان میں اتریں اور ان سیکولر اور لبرل طبقوں کے جاہلانہ اقدامات کا ہر سطح پر مقابلہ دلیل کے ساتھ کریں۔

نوائے من ازاں پر سوز و بے باک و غم انگیز است

بخاشا کم شرار افتاد و باد صبح دم تیز اسے

یعنی میں اس لیے تلخ باتیں کر رہا ہوں کہ میرے آشیانے کو آگ لگ گئی ہے اور ہوا تیز ہے آشیانے کو ابھی فوراً بچانے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments