میرا جسم، میری مرضی: عورت حق نہیں مانگ رہی، ظلم بے نقاب کر رہی ہے


اس نعرے میں ایسا کیا ہے کہ معاشرے کی اقدار کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے؟ کون سی اقدار؟وہ اقدار کہ جن میں معاشرہ یک رخی تصویر دیکھنے کا عادی ہو چکا ہے اور کسی اور رخ سے دیکھنا یا کسی بات کا مطلب سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔ اس معاشرے کی نظر میں جو عورت یہ بات کہے، وہ جنسی آزادی کی خواہاں ہے، آوارہ، بے حیا اور بد چلن ہے۔ سمجھنے کی ضررت ہے کہ پاکستانی معاشرے کے تناظر میں کیا اس نعرے کا یہی مطلب ہے؟ آخر کتنے فی صد عورتیں جنسی آزادی کی خواہاں ہیں؟ دو فیصد؟ شاید یہ تعداد بھی زیادہ ہے، مگر ان نوے پچانوے فی صد مردوں کا کیا کریں جو اسی خواہش کے بھنور میں چکر کھاتے دن سے رات کرتے ہیں، اوران کی بڑی تعداد دیدہ و نادیدہ رکاوٹوں کے باعث اس خواہش کو پورا نہ کرسکنے کے باعث چھوٹے موٹے چسکوں پر گزارا کرتی ہے۔

بازاروں میں عورتوں کو اپنی نظروں سے نوچنا جن کا محبوب مشغلہ ہے۔ ان میں سے بڑی اکثریت تو اس سے کہیں آگے نکل جاتی ہے جہاں اسے کوئی عورت یا مرد اس عمل کے لیے برضا و رغبت میسر نہ آئے تو زبر جنسی کرگزرتا ہے ، اس زبر جنسی کا شکار کوئی بچہ یا بچی بھی ہو سکتے ہیں جو چند ماہ سے لے کر سولہ سترہ برس کے ہوں۔ انہیں قتل کرکے لاش ٹھکانے لگانا بھی یہاں مسئلہ نہیں۔ اس خواہش کے ہاتھوں مجبور درندوں کو سگے سوتیلے رشتے بھی یاد نہیں رہتے، استاد ہونے کا درجہ بھی بھول جاتے ہیں اور محلے داری،روایات، انسانیت وغیرہ سب بے معنی ہو جاتے ہیں۔

اس صورت حال میں اگر یہ عورت کہے کہ ’میرا جسم، میری مرضی‘ تو اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ کوئی مجھے قتل نہیں کرسکتا، زبر جنسی کا شکار نہیں بنا سکتا، میرے جسم پر تیزاب نہیں پھینک سکتا، قانون ہاتھ میں نہیں لے سکتا، مجھے روزانہ گھریلو تشدد کا نشانہ نہیں بنا سکتا، مجھے غیرت کا نام لے کر زندگی سے محروم نہیں کر سکتا، مجھے اغوا نہیں کر سکتا، جہیز کے نام پر مجھے ذلیل و رسوا نہیں کر سکتا، مجھ سے طلاق کا حق نہیں چھین سکتا، مجھے ایک ہی سانس میں تین طلاقیں دے کر گھر سے باہر نہیں نکال سکتا، مجھے اس گھر سے روز دھکے دے کر نہیں نکال سکتا جس گھر کو بنانے میں میرا زیادہ حصہ ہے، مجھ سے میرے بنیادی حقوق نہیں چھین سکتا، مجھ پر اپنی خواہشات کا اطلاق نہیں کر سکتا، مجھے تعلیم، کام، صحت، اچھی نجی، سماجی، سیاسی زندگی میں شریک ہونے سے نہیں روک سکتا، مجھے بیٹی کی پیدائش پر ذلیل نہیں کر سکتا، میری مرضی کے بغیرمیری کسی سے زبردستی شادی نہیں کروا سکتا، میری جائیداد اور چیزوں پر قبضہ نہیں کر سکتا، مجھے بدلے کا شکار نہیں کر سکتا، میری قرآن سے شادی یعنی حق بخشائی نہیں کر سکتا، کارو کاری، ونی، سوارہ جیسی رسومات کا شکار نہیں کر سکتا۔۔۔ یہ ان حقوق کی ایک طویل فہرست ہے جس کا مطلب میری مرضی ہے۔

اس تناظر میں دیکھنے سے بات سمجھ آ سکتی ہے لیکن صرف انھیں جن کے اندر انسانیت موجود ہو۔ جہاں عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا، وہاں اسے عورت سمجھنا ناممکن ہے۔ ویسے بھی ہمارا معاشرہ جب عورت کی عزت کی بات بھی کرتا ہے تواسے مردانہ رشتوں کے تقدس میں لپیٹ کر کرتا ہے۔ عورت بس ماں ہے، بیٹی ہے، بہن ہے، بیوی ہے۔۔۔ سواس کا احترام کرو۔ ۔ اگر ان میں سے عورت کا آپ سے کوئی رشتہ نہیں تو پھر آپ آزاد ہیں،اسے راہ چلتے آواز لگا سکتے ہیں، کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، کر سکتے ہیں۔

اسی لیے وہ اگر گھر کی دہلیز سے باہر ہے تو آوارہ ہے، ہسپتال میں یا کہیں بھی رات کی ڈیوٹی کر رہی ہے تو بد چلن ہے۔ اپنی سوچ رکھتی ہے یا اپنی رائے کا اظہار کرتی ہے تو زبان دراز ہے، تیز اور چالاک ہے۔ انہیں خصوصیات کے حامل مردوں کو بالترتیب محنتی، خدمت گزار اور ذہین کہا جاتا ہے۔ مرد کی عزت کروانے کے لیے رشتوں کا نام دینے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ اس کے جسم پر اس کی مرضی ہے اور اس کے مطابق عورت کے جسم پر بھی اس کی مرضی ہے۔ اس نعرے پر تلملانے کی بجائے اپنے جسم پر اپنی مرضی کے فلسفہ کو سمجھنے اور اپنا تجزیہ کیے بغیر یہ نعرہ سمجھ آ ہی نہیں سکتا۔ سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے جسم کو کیسے استعمال کر رہا ہے اور دوسروں پر کیسے مسلط کر رہا ہے۔

اسے مذہبی تناظر میں دیکھیں تو اگر کسی کے جسم پر اس کی نہیں بلکہ کسی اور کی مرضی ہو سکتی ہے توقرآن کے مطابق قتلِ عمد کا بدلہ قتل اور قتلِ خطا کا بدلہ قصاص اور دیت کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ ہمارے قانون میں یہ تخصیص واضح نہیں۔ اور اگر کسی جسم پر کسی اور کی مرضی چل سکتی تو سورة التکویر میں ’ بی ایی ذنب قتلت‘ کا مطلب کیا ہے؟ عورت کے اس جملے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسے موت نہیں آ ئے گی یا اگر وہ ایک مسلمان عورت ہے تو وہ اللہ کے بنائی حدود یا قوانین سے تجاوز کا فلسفہ پیش کرنا چاہتی ہے، بلکہ وہ ایک سیدھی اور سادہ بات کر رہی ہے کہ پدر سری معاشرے نے مرد کو فوقیت دے کر عورت کو مرد کی مرضی کے تابع کر دیا ہے اور شرم کا مقام یہ ہے کہ رشتوں سے باہر بھی ہر مرد ہی اسے اپنے تابع سمجھتا ہے یا کم تر سمجھتا ہے۔ اس کو صرف ایک جسم کی صورت میں دیکھتا ہے۔ دنیا کے بڑے سماجی محققین اور فلاسفہ نے بنیادی انسانی حقوق کی بات کی تو بھی اپنی جان اور جسم پر اپنے حق کی بات سب سے پہلے کی۔ جان سٹوارٹ مل کے بنیادی حقوق ’لائف، لبرٹی اینڈ پراپرٹیٗ, میں یہ حقیقت مضمر ہے ۔ جس کا مطلب ہے ،زندگی ، آزادی اور اپنی چیزوں پر ملکیت۔سوچیے اگر اس چھوٹی سی زندگی میں ہر انسان کو یہ حقوق حاصل ہو جائیں تو انسانی معاشرے کی کیا صورت بنے، کیا یہ جنت سے کم ہو گا؟

 عورت یہی کہہ رہی ہے کہ اب تک میرے جسم پر کسی اور کی مرضی چلتی آئی ہے، مجھے عرب میں زندہ درگور بھی کیا گیا،میں چین میں پابستہ کی گئی، افریقہ میں چڑیل کہہ کر جلایا گیا، ہندوستان میں ستی کیا گیا۔۔۔ یہ سب کچھ میرے ساتھ کسی نے تو کیا ہے۔یہ سب میرے ساتھ کسی اور کی مرضی، یعنی ایک مرد کی مرضی سے ہوا۔ ایک پدرسری معاشرے کی مرضی سے ہوا۔ یہ عورت کہہ رہی ہے کہ میں انہیں مزید یہ حق نہیں دے سکتی، کیونکہ یہ ان کا حق تھا ہی نہیں، یہ ظلم تھا۔اوریہ غلط فہمی بھی دور ہو جانی چاہیے کہ وہ اپنے جسم پر اپنے اختیار کا یہ حق مانگ نہیں رہی ، بتا رہی ہے کہ بس، بہت ہو گیا۔۔سو خبردار! میرا جسم ، میری مرضی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments