میرا جسم میری مرضی


جناب خلیل الرحمان قمر صاحب اور ماروی سرمد صاحبہ کی حالیہ گفتگو کے بعد سوشل میڈیا پہ ایک جنگ سی چھڑگئی ہے ہر دوسرا شخص خود کو دانشور اور ادیب سمجھنے لگا ہے اور ہر دوسری پوسٹ میں ماروی سرمد کو گالیاں دینا اور ہر دوسری پوسٹ میں خلیل ا الرحمان کو ذلیل اور نہ جانے کیا کیا کہنے کا سلسلہ جاری ہے۔ میں اس سب میں کس طرف ہوں، میری دلی ہمدردی ماروی سرمد کے ساتھ ہے یا خلیل الرحمان قمر کے ساتھ۔ یہ وہ سوال ہے جو نہ صرف میں اپنے آپ سے خود پوچھنے کی کوشش کررہا تھا بلکہ میرے دوست اور عزیر و اقارب بھی کچھ ایسی طرح کا سوال مجھ سے کررہے تھے۔

میں کس کی جانب ہوں یا میری ہمدردی کہاں ہے یہ تحریر پڑھنے کے بعد آپ کو اندازہ ہوجائے گا۔ تحریر تھوڑی سی تلخ ہے اور اگر آپ پہلے ہی کہیں سے زخم کھا چکے ہیں اور اگر آپ میں عدم برداشت جیسی سنگین بیماری ہے تو ابھی رک جائیں، آگے نہ پڑھیں نہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ خلیل الرحمان اور ماروی سرمد کی بحث میں یہ بیچارا مارا جائے اور کہیں ایسا نہ ہو کے میرا جسم میری مرضی کی جگہ میرا کفن میری قبر ہو۔

عورت دراصل عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے جنسی عضو یا چھپانے والی کوئی چیز اور کتنی حیرت کی بات ہے کہ عربی میں زبان میں نسا ء کا لفظ بھی موجود ہے لیکن اردو میں استعمال کیا جانے والا لفظ عورت ہے۔ اب اگر لغوی اعتبار سے دیکھیں تو ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کے ہم مرد اور جنسی عضو کے درمیان مساوات چاہتے ہیں۔ عربی سے اردو میں آنے والے کئی ایسے الفاظ ہیں جن کو کچھ ایسے ہی سیاق کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ اب ظاہر ہے کے کسی مختلف جنس کے لئے جب یہ لفظ منتخب کیا گیا ہوگا اور اسے جنسی عضو سے ملانے کے پیچھے خیالات تو نیک ہی ہوں گے۔ خیر اب تو ہوگیا اب اس دور کے دانشوروں کو کیا کہیں کیوں کہ چیزیں تو اس سے بھی پرانی ہیں اور جہاں مذہب کا دروازہ آجائے وہاں تو جناب ہر چیز پاک ہوجاتی ہے پھر چاہے لفظ ہی کیوں نہ ہوں۔

عورت مارچ سے آغاز ہونے والی یہ بحث اب شدت اختیار کر گئی ہے اور خلیل الرحمان قمر کے جملوں نے جلتی پہ تیل کا کام کیا ہے۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ ماروی سرمد نے بھی تو بولا آپ اسے نہیں کچھ کہہ رہے اور خلیل الرحمان قمر کو کہہ رہے ہیں۔ جناب عرض کچھ یوں ہے کہ ماروی سرمد تو بقول آپ کے بد کردار عورت ہے نہ جانے کیسی کیسی حرکتیں کرتی ہیں اور یہ آپ کہہ رہے ہیں تو میں یقین بھی کرلیتا ہوں آپ نے یقین کسی دوسرے کی رائے پہ نہیں کہا ہوگا بلکہ خود دیکھا ہوگا لیکن خلیل الرحمان قمر صاحب تو دانشور آدمی ہے خود کو حلقہ اہل دانش کی بہت بڑی فلم بھی تصور کرتے ہیں اور ادب و فن کا ایک اثاثہ بھی مانتے ہیں تو کوئی ایسا ادیب، اتنا بڑا دانشور کسی بد کردار عورت کو بیٹھ کے جواب دے یہ اس کی شان نہیں اور اگر وہ جواب اس بدکردار عورت سے بھی زیادہ بد تر ہوں تو ایسے ادیب کو میں کیا کہوں۔

خیر ماروی سرمد نے کہا تھا، میر ا جسم میری مرضی اب یہ بات جناب خلیل الرحمان کو بہت بری لگی اور کیونکہ ہم تمام مرد خواتین کو اپنے حساب سے روندنے کے عادی ہیں اور عورت کے جسم کو اپنے حساب سے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے۔ ماروی سرمد کے اس جملے کو اگر خلیل الرحمان قمر پر لے جائیں اور وہ کہتے ان کا جسم ان کی مرضی تو شاید سب درست کہتے۔ حضرات بابا فیس بک والی سرکار پہ بیٹھے تمام دانشور، مفکر ادیب اس بات پر قائل ہیں کے ماروی سرمد کا یہ جملہ درست نہیں اور وہ اب جسم فروشی کا بازار گرم کرنا چاہتی ہیں جہاں سڑک پر عریانی پھیلائی جائے گی تبھی اس جملے کو استعمال کیا گیا ہے۔

افسوس کیا کریں ہم جیسے مرد تو عورت کی ٹانگوں سے باہر نہیں آتے تو سوچ بھی وہیں رکی ہوگی۔ اب اس جملے سے اخذ کیے گئے مطلب کو لے لیں کیونکہ سارے غیرت مند ہیں اور جن کی فکر ی سوچ کسی خاص جگہ پہ رکی ہوتی ہے تو وہ آگے کیا سوچیں۔ آپ لوگوں کو تو خوش ہونا چاہیے اگر اس کا مطلب یہ ہے تو اب کا فائدہ ہو جائے گا اب کی سوچ بھی مزید تیز ہوگی اور روز ایک جگہ سے دوسری جگہ تک سفر بھی کرے گی۔ چھوڑیں شاید ڈر ہے کیونکہ آپ کی بھی بہنیں ہیں۔ آپ کی سوچ نے تو وہاں بھی عریانی سے شروع اور عریانی پہ ہی ختم ہونا ہے۔

آئیں اس جملے کا مطلب سمجھاتا ہوں۔ ان کے جسم کے اوپر ان کا حق ہے جب کسی دیہات میں یہ کہا جاتا ہے کے اس بچی کی شادی کردو تو کیوں نہ کہا جائے کے ان کا جسم، ان کی مرضی۔ جب میرے جیسا مرد کسی عورت کو تشدد کا نشانہ بناتا ہے تو یہ جملہ کیوں نہ کہا جائے۔ اس جملے میں کیا بہودہ ہے کیا آپ چاہیں گے کے آپ کی بہن بیٹی کے جسم پر کسی اور کا حق ہو۔ اب اگر یہ کہوں گا کہ عورت کو آزادی چاہیے تو آپ میں کیے لوگ کہیں گے کہ اسلام نے مساوا ت کی بات ہے اور ان کے پاس تو آزادی ہے آئیں نظر ڈالتے ہیں۔

عورت مرد کی پسلی سے پیدا کیا گیا اور تفریق کا آغاز یہیں سے ہوگیا تھا۔ کوئی کہے گا کے عورت نازک صفت ہے تبھی عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا۔ اب اگر خدا چاہتا تو مٹی سے پیدا کرتا اور نازک پن کی صفت ڈال دیتا۔ تفریق تو یہاں سے شروع ہوگئی۔ اور خدا ہے یہاں بھی یہ کیوں نہیں سمجھا جاتا کے خدا کوئی خاتون بھی ہوسکتی ہیں۔ ہمارے پاس اس با ت پہ بھی یقین رکھا جاتا ہے کے اسلام نے خواتین کو مکمل حقوق دیے ہیں اور اس بات پر بھی یقین رکھا جاتا ہے خواتین نقص العقل ہیں۔

اس بات پر بھی یقین رکھا جاتا ہے کے مساوی حقوق ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کے گواہی آدھی ہے۔ اس با ت کو بھی سمجھا جاتا ہے کے معاشرے میں خواتین کے بغیر ترقی نہیں ہوسکتی جب کے اس بات کی تبلیغ بھی کی جاتی ہے کے خواتین کو گھروں میں رہنا چاہیے۔ مرد طلاق دے سکتا ہے اور عورت خلا طلب کرے گی۔ مرد دے گا اور عورت طلب کرے گی دیکھ لیں خود۔ ؂ عورت سے محبت بھی درست اور عورت پہ حات اٹھانا بھی۔ مال غنیمت میں آئی عورتوں کے ساتھ کیا ہوگا اور مردوں کے ساتھ کیا یہ تو کچھ چھپا نہیں۔ اب یہ منافقت ہے یہ کچھ اور فیصلہ آپ کریں۔

یہ تمام افراد جو آج عورت مارچ پر گفتگو کر رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی فکری سوچ جامد ہے، جو لوگ فیمینزم کو گالیاں دے رہے ہیں انہیں دراصل فیمینزم کے ایف کا بھی نہیں پتا البتہ کسی اور ایف کا ضرور علم ہوگا۔ جب جب اس معاشرے میں عورتوں کی تحریک اٹھی ہے تب تب مصنوعی شرم و حیا کے بورڈ نکل آتے ہیں۔ مرد محافظ ہے ہاں تبھی زینب کو جنسی زیادتی کا نشانہ عورت نے بنایا تھا، روز ہونے والے بچیوں کے ساتھ ریپ بھی کوئی عورت کرتی ہے، عورتوں پہ تشدد بھی کوئی عورت کرتی ہے۔

ایسی رسموں کا کیا کروں جہاں شادی کی رات عورت کی شرم گاہ کو چیک کیا جاتا ہے اور اگر وہ ورجن نہ ہو تو جان سے مار دیتے ہیں۔ ونی کرنا، ستی کرنا، قرآن سے شادی، کاروکاری اور نہ جانے کیا کیا۔ خیر ان سے کس فیمیزم پہ بات کروں اس پر جس کے چار لہریں اس معاشرے میں آئیں انہیں کیا علم ہوگا۔ ان کو تو جنسی عریانی پتا ہے بس۔

آخر یہ نفرت کس چیز کی ہے، برابر ہونے کی یہ اس چیز کی کے صدیوں پرانے جو مرد سماج ہے اس کے ختم ہونے کی۔ دراصل یہ عورت مارچ یہ نعرے ایک تھپڑ ہیں اس انتہاپسندی پر جو عورت کو نکلنے سے منع کرتی ہیں، ان انتہا پسندوں پر جو جب چاہیں عورت کو ہوس کا نشانہ بنائیں اور حق دینے کی بات آئے تو محافظ ہونے کا دعوی کریں۔

سلام ہے، ان ٹانگوں کے درمیان رکی سوچ کو اور مجھے خوشی ہے کے ان لوگوں کے اندر کم ازکم ڈر تو ہے تبھی خلیل الرحمان جیسے فاترالعقل شخص نے بھی اپنی حیثیت جیسا جواب دیا۔ ویسے تو اور بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن ان کی اہمیت کے حساب سے اتنا کافی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments